فلسفہ مغرب ڈیکارٹ:جدید فلسفے کا بانی
رینے ڈیکارٹ نے ساری زندگی دوہری شخصیت کے تضاد میں گزاری۔ وہ تنہائی اور امن و سلامتی کا خواہاں تھا مگر یہی تنہائی جب بیزاری کا روپ اختیار کر لیتی تو وہ سفر کیلئے نکل کھڑا ہوتا۔ ایک طرف تو وہ ایک سچے مفکر کے طور پر کہتا تھا: ’’میں اپنے خیالات کی پیروی کروں گا، چاہے وہ مجھے جہاں لے جائیں‘‘ مگر دوسری طرف ایک شہری کی حیثیت سے وہ کہتا تھا کہ ’’میں اپنے ملک کے قوانین کی پاسداری کروں گا اور اپنے باپ دادا کے مذہب کی پیروی کروں گا‘‘۔
شخصیت کی یہی تنویت اور دوہرا پن اس کے فلسفے میں بھی در آیا۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا دو قسم کی اشیاء ذہن اور مادہ سے مل کر بنی ہے۔ اب ذہن ناقابل تقسیم اور ناقابل توسیع تھا جبکہ مادہ قابل تقسیم اور قابل توسیع اور فطرت پر چلنے والا، تو پھر ذہن اس جسم کے ساتھ کس طرح تعامل کرتا ہے جو سائنس کے میکانکی اصولوں کے مطابق کام کرتا ہے؟۔ڈیکارٹ کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔ ایک بار اس نے کہا کہ ذہن اور جسم دماغ کے نچلے حصے میں موجود ’’پائی نی ایل گلینڈ‘‘ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعامل کرتے ہیں مگر بد قسمتی سے ڈیکارٹ نے اصل سوال کو نظر انداز کر دیا۔ سوال یہ نہیں تھا کہ کہاں تعامل کرتے ہیں ؟ سوال تو یہ تھا کہ کس طرح تعامل کرتے ہیں۔
اس سب کے باوجود ایک حوالے سے ڈیکارٹ کی کامیابی اور حاصلات سے انکار ناممکن ہے اور وہ ہے فلسفیانہ خیالات کو سادگی مگر مکمل تفہیم کے ساتھ پیش کرنا۔ فلسفیانہ خیالات کی ترسیل کا معاملہ ہمیشہ ایک مسئلے کی صورت میں موجود رہا ہے اور وہ یوں کہ کس طرح فلسفے کو اتنی سادگی اور وضاحت سے پیش کیا جائے کہ ہر ایک کیلئے بات کو سمجھنا آسان ہو جائے۔ فلسفے کی تاریخ کے بڑے بڑے ذہن اس حوالے سے بے بس رہے ہیں۔ افلاطون نے اس مسئلے کے حل کیلئے ’’ڈنر پارٹی مکالمات‘‘ کا طریقہ کار اپنایا۔ نطشے نے کوشش کی کہ ایسی رواں، دلفریب اور جادو اثر نثر لکھی جائے جو متاثر بھی کرے اور سب کو سمجھ بھی آ جائے لیکن ڈیکارٹ کا بیانیہ حقیقتاً سادگی اور تاثیر میں سب سے آگے ہے۔
ڈیکارٹ نے اپنی کتابوں ’’طریقہ کار کا بیان‘‘ (discourse on Method) اور ’’غور و فکر‘‘ (Meditations) میں اپنے فلسفے کی بنیاد ’’شک‘‘ پر رکھی ہے مگر یاد رہے کہ یہ سو فسطائیوں والی تشکیک نہیں تھی بلکہ اس تشکیک کی بنیاد ڈیکارٹ نے سائنس کے اصولوں پر رکھی تھی کہ ہمیں خیال کی دنیا میں سوالیہ ذہن کے ساتھ داخل ہونا چاہئے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’ نہ تو ہم اقرار کرتے ہیں اور نہ انکار، ہم غیر جانبدار رہتے ہیں تاآنکہ سچ یا حقیقت یا اصول یا نظریہ ثابت نہ ہو جائے‘‘۔
تو اس کے متجسس ذہن نے محسوس کیا کہ اب تک جو کچھ ہم یقین کے ساتھ کہہ رہے ہیں وہ اس وقت تک غیر یقینی ہے جب تک اس کو شک کی کسوٹی پر پرکھ نہ لیا جائے۔ اسی دوران اس کو ادراک ہوا کہ ایک ایسی شے موجود ہے جس پر شک کی گنجائش نہیں ہے اور وہ اس کا اپنا وجود ہے۔ وہ اس لئے کہ شک کرنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان سوچے اور سوچنے کیلئے ضروری ہے کہ میرا وجود ہو۔ سو، اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’’میں سوچتا ہوں، اس لئے میں ہوں‘‘۔ اب’’سوال‘‘ اور ’’شک‘‘ پر اپنے فلسفے کی بنیاد رکھنے والا ڈیکارٹ خدا کے وجود کو بلا چون و چراں قبول کرنے پر تلا ہوا ہے، وہ کہتا ہے کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ میں وجود رکھتا ہوں مگر میرا وجود غیر کامل ہے اور اس بات کا ادراک مجھے اس ہستی نے دیا ہے جو خود کامل ہے۔ اب وہ بات کو بدل کر دوسری طرح کہتا ہے کہ خدا جو کامل ذات ہے اس کا تصور غیر کامل ذات یا انسان کی’’تخلیق‘‘ ہو ہی نہیں سکتا۔ قصہ مختصر یہ کہ خدا موجود ہے۔
مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس شخص پر جو خدا پر اتنا پختہ یقین رکھتا تھا اور اپنے مسودات چھپنے سے پہلے چرچ سے وابستہ دوست مرسینے کو اس نیت سے بھیجتا تھا کہ وہ ذرا جانچ پرکھ کر بتا دے کہ کہیں اس کے خیالات چرچ کی تعلیمات سے متصادم تو نہیں تو اسی شخص پر الحاد (Atheism) کا الزام لگایا گیا۔ صرف الحاد کا الزام نہیں بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ وہ ’’بدعتی‘‘ ہے اور مروجہ عقیدوں کیخلاف ہے اور بات یہ ہے کہ ان دنوں ملحد ہونا بھی قابل مذمت تھا مگر بدعتی کو تو ناقابل برداشت سمجھا جاتا تھا۔ فرانسیسی سفیر نے بروقت مداخلت کی اور معاملہ رفع دفع ہوگیا وگرنہ ایک طرف عوامی غیظ و غضب ہوتا اور دوسری طرف عدالتوں میں صفائیاں پیش کرتا ہمارا ’’شریف آدمی‘‘ ڈیکارٹ۔
ڈیکارٹ کی شہرت پورے یورپ میں پھیل چکی تھی اور فلسفیانہ مضامین کی تفہیم کو اپنی سادہ بیانی کے ذریعے آسان بنانے کی وجہ سے وہ اب صرف دانشورانہ حلقوں تک محدود نہیں رہا تھا بلکہ شاہی خاندان کے افراد تک اس کی کتابوں کو ذوق و شوق اور دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ انہی میں سے ایک سویڈن کی ملکہ بھی تھی۔ اب وہ53 برس کا ہوچلا تھا اور ایمسٹرڈیم سے بیس میل دور شمال میں سمندر کے کنارے’’ایگمنڈ بینن‘‘ کی چھوٹی سی اسٹیٹ میں مزے کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس کے مطالعے کا کمرہ ہشت پہلو تھا جہاں سے باہر باغ کا نظارہ بھی کیا جا سکتا تھا۔ یہ گھر شاید اسے پسند تھا، اس لئے پچھلے چار سال سے اس نے یہ گھر تبدیل نہیں کیا تھا۔کبھی کبھار وہ پیرس کا چکر بھی لگا آتا اور اپنے پرانے دوستوں پاسکل اور ہابس سے تبادلہ خیال کیلئے ملاقات کرتا۔
انہی دنوں سویڈن کی ملکہ کرٹینا اس کی ایک کتاب پڑھ کر اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے ڈیکارٹ کو اپنے دربار میں آنے کی دعوت دی تاکہ وہ اس سے فلسفے کے باقاعدہ اسباق لے سکے۔ دیر تک سونے کے عادی، ازل کے سہل پسند اور بے فکری اور آسودگی سے زندگی گزارنے والے ڈیکارٹ کیلئے اسٹاک ہوم کا لمبا سفر کرنا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ اس نے کئی بار معذرت کی اور ملکہ کی بے جا تعریف کرتے ہوئے کئی خوشامدانہ خط بھی لکھے مگر دھن کی پکی ملکہ پر اس کا الٹا اثر ہوا اور اس نے اپنے ایڈمرل کو بحری بیڑے سمیت اسے لانے کیلئے بھیج دیا اور اس دفعہ جو ڈیکارٹ نے گھر چھوڑا ہے تو وہ اکیلا نہیں تھا موت بھی اس کے ہم رکاب تھی۔
یہ درمیان جنوری کے دن تھے جب اسے بتایا گیا کہ ملکہ ہفتے میں تین دن فلسفے کے اسباق لیں گی اور ہر لیکچر صبح 5بجے شروع ہو گا۔ خدا کی پناہ، شدید شردی اور صبح گیارہ بجے تک سونے کا عادی ڈیکارٹ، وہ بادل نخواستہ صبح چار بجے اٹھتا، شتابی سے حوائج ضروریہ سے فارغ ہوتا اور لوہے کی طرح سخت جمی ہوئی برف والی ناہموار سڑک پر گھڑ سواری کرکے محل پہنچ جاتا۔ یہ سب کچھ اس نے کس طرح برداشت کیا ہو گا اور کس طرح ملکہ کو فلسفے کے اسباق دیئے ہوں گے۔ ساری عمر سینے کو سردی سے بچانے کیلئے اونی مفلر لپیٹنے والا ڈیکارٹ آخر اس کی پکڑ میں آگیا اور ایک ہفتے کے اندر اندر اسے نمونیے نے آلیا۔
یہ 11فروری1650ء کی صبح تھی جب اس نے اس جہان رنگ و بو کو الوداع کہا۔ شاہ مزاجی کی تفریحی تعلیمی ترنگ کا شکار ہونے والا یورپ کا یہ عظیم ذہن کیتھولک تھا اس لئے پروٹسٹنٹ سویڈن نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ اسے مقدس قبرستان میں دفنایا جا سکے۔اسے اس قبرستان میں دفن کیا گیا جہاں بپتسمہ لینے سے قبل مرنے والے بچے دفن کئے جاتے ہیں کچھ عرصہ بعد اس کی لاش کو پیرس لاکر دوبارہ دفن کیا گیا۔
انقلاب فرانس کے دنوں میں اس کے مردہ جسم کو ایک بار پھر قبر سے نکالا گیا اس دفعہ یہ اس لئے کیا گیا تاکہ اسے سینٹ جرمین کے چرچ کے عظیم قبرستان میں دفن کیا جاسکے۔جہاں فرانس کی عظیم ہستیاں دفن ہیں۔ لوگ اسے فرانس کے عظیم ترین فکرین کے پہلو میں آسودہ خاک دیکھنے کے متمنی تھے!!
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
(فیض)