نصیر ترابی:جدید لب و لہجے کے شاعر

تحریر : محمدارشد لئیق


وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھیکہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھینہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہتبچھٹرنیوالے میں سب کچھ تھا، بیوفائی نہ تھی

اس مقبول ترین غزل سے تقریباً ہر کوئی واقف ہے، گلوکارہ قراۃ العین کی آواز میں ریکارڈ کی گئی یہ غزل 12سال گزرنے کے بعد بھی لوگوں کے ذہن میں نقش ہے۔ سپر ہٹ ڈرامہ سیریل ’’ہمسفر‘‘ کے سائونڈ ٹریک کے طور پر ریکارڈ کی گئی اس غزل کو زبردست مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ آج بھی بہت سے لوگوں خصوصاً نوجوانوں کیلئے اس کی پہچان ڈرامہ ’’ہمسفر‘‘ ہی ہے۔ اس غزل کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ ڈرامہ کی کہانی سے مطابقت رکھتی تھی۔ اس غزل کے الفاظ اور ڈرامہ کی کہانی کا جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ لکھی ہی اس ڈرامہ کیلئے گئی ہو حالانکہ ایسا بالکل نہیں تھا۔ اس غزل کے تخلیق کار شاعر نصیر ترابی تھے جنہوں نے اسے 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے غم میں لکھا تھا مگر یہ مجازی معنوں پر بھی پورا اترتی تھی۔ یہ غزل اس وقت یا اس کے بعد اس قدر مقبول نہ ہوئی مگر ڈرامے کے ساؤنڈ ٹریک کے طور پر استعمال ہونے کے بعد مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گئی۔ یہ عالم تھا کہ جب بھی نصیر ترابی کسی تقریب میں شرکت کرتے تو شرکاء یہ غزل پڑھنے کی فرمائش ان سے ضرورکیا کرتے تھے۔ آج بھی بہت سے لوگوں، خصوصاً نوجوانوں کیلئے اس کی پہچان ڈرامہ ’’ہمسفر‘‘ ہی ہے۔

نصیر ترابی ادبی دنیا کی وہ شخصیت ہیں جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔آپ اردو زبان کے نامور شاعر، ماہر لسانیات اور لغت نویس تھے، 2021ء میں وہ آج کے روز اس دنیا سے رخصت ہوئے،آج ان کی دوسری برسی ہے۔ نصیر ترابی 15 جون 1945ء کو بھارتی ریاست حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان آ کر کراچی میں مقیم ہوا۔

60ء کی دہائی کے اوائل میں دور طالب علمی میں ہی انہوں نے شاعری کاآغاز کر دیا تھا۔ 1968ء میں انہوں نے جامعہ کراچی سے تعلقات عامہ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور ایک انشورنس کمپنی میں افسر تعلقات عامہ کی ملازمت کی ۔

وہ بلند پایہ شخصیت نامور ذاکر اور خطیب علامہ رشید ترابی کے فرزند تھے۔ علم کے اس گھنے سائے میں رہنے کے باوجود نصیر ترابی نے اپنے جداگانہ ادبی خدوخال تراشے۔ لفظ کی حرمت، اس کی تفہیم، اس کا برتائو اور اس کے بازیافت کا فن اپنے علمی ورثہ سے مستعار لیا اور پھر اپنا ایک جہانِ معانی تخلیق کرتے چلے گئے۔ تشکیل سے تخلیق کے سفر میں لاتعداد پڑائو آئے لیکن وہ سب کو کامیابی سے عبورکرتے اور اپنے ادبی اہداف حاصل کرتے چلے گئے۔ان کے گھر میں والدِ محترم کی وجہ سے برصغیر پاک و ہند کی تمام بڑی ادبی و سیاسی شخصیات کی آمد و رفت تھی۔ اس فضاء نے بھی ان کی تربیت اور شخصی پرداخت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 

ان کا واحدشعری مجموعہ ’’عکسِ فریادی‘‘ 2000ء میںشائع ہوا۔ 2017ء میں ان کے نعتیہ مجموعہ’ ’لاریب‘‘ کی اشاعت ہوئی، جسے اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ’’علامہ اقبال ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ لسانیات کے تناظر میں2 اہم کتابیں 2013ء میں ’’شعریات‘‘ اور 2019ء  میں ’’لغت العوام‘‘ شائع ہوئیں۔اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ کلامِ غالب کو نت نئے زاویوں سے سمجھ رہے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ دورِ جدید میں غالب کے کلام کو از سرِ نو تفہیم کرنے اور بیان کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس سے پہلے وہ میر انیس، بابا بلھے شاہ سمیت کئی بڑے تاریخی و ادبی مشاہیر پر مستند تحقیقی مقالے لکھ چکے تھے۔ 

بات کی جائے ان کے نعتیہ مجموعہ کلام ’’لاریب‘‘ کی تو بلاشبہ یہ ایک غیر معمولی مجموعہ ہے۔قاری کوپہلی ہی حمد سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب ایک بہت دقیق مطالعے کی متقاضی ہے، پھر اس میں استعمال بحریں، موضوعات، حمد، نعت، منقبت اور سلام میں وہ وقارِ لفظی ہے جولہجے میں شائستگی کے لیے ضروری ہے۔ حمد باری تعالیٰ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

لحنِ تجلیات سْن، شورشِ ممکنات میں

قامتِ کاف و نون دیکھ، آئینہ صفات میں

کس کی یہ کائنات ہے کون ہے اِس کا مدّعی

کِس کو ثبات چاہئے نرغہ بے ثبات میں

نصیر ترابی کو فارسی زبان و ادب سے بھی گہرا شغف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اردو غزلوں میں فارسیت کا ایک خوشگوار اور خوبصورت امتزاج بھی نظر آتا ہے جو کہیں اس کی ترکیب سازی اور پیکر تراشی میں اپنی جھلک دکھاتا ہے اور کہیں خوبصورت تشبیہوں اور استعاروں کی صورت میں ہمارے دامن دل کو کھینچتا ہے۔اردو کے ساتھ فارسی کے رنگوں کی ایسی خوبصورت اور خوش آہنگ تال میل نے نصیر کی غزل کو حسن و زیبائی کا ایک نگارخانہ بنا کر رکھ دیا۔

شب ستارہ کشا ہی مقدّروں میں نہ تھی

چراغ طاق پہ تھے روشنی گھروں میں نہ تھی

 

دیکھ یہ شب گزیدہ لو، دیکھ مرا پریدہ رنگ

اے مری شمع ہم فراق، سوچ یہ کس کا ہے زیاں

شب اگر ہے تو کسی توشہ آزار کی شب

رنگ اگر ہے تو کسی خوابِ پس انداز کا رنگ

 

وہ بہار تھی کہ تْو تھا، یہ غبار ہے کہ میں ہوں

تْو سوادِ خوش چراغی، میں دیارِ بے دیاراں

 

نصیر ترابی جہاں ایک طرف زرخیز علمی و مذہبی پس منظر کے حامل تھے، وہیں دوسری طرف انہوں نے اپنے لیے تخلیقی اظہار کے مختلف راستے چنے۔ شاعری کی اور اس میں کلاسیکی غزل کو محبوب بنایا۔ شعری نشستوں اور مشاعروں کی نظامت کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان ٹیلی وژن سے بھی یہ فریضہ انجام دیتے رہے۔ جامعات اور ثقافتی اداروں میں اعزازی لیکچرز، طلبہ سے گفتگو، کالم نویسی، تخلیق کاروں کی کتب پر مضامین لکھنے کے ساتھ ساتھ وہ ایسی محفلیں بھی سجاتے رہے، جہاں سے کوئی بھی سیر ہوکر جائے۔

 10 جنوری 2021 کو 75 سال کی عمر میں ان کا کراچی میں انتقال ہوا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نصیر ترابی ہمارے عہد کی ایک ایسی شخصیت تھے جنھیں علم و ادب میراث میں ملی تھی، پھر ان کا ذہنِ رسا ہمیشہ سنجیدہ مطالعہ اور تحقیق و تخلیق کی طرف مائل رہا۔وہ اپنے کام کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ آخر میں قارئین کیلئے نصیر ترابی کے چند اشعار پیش کئے جا رہے ہیں۔

درد کی دھوپ سے چہرے کو نکھر جانا تھا 

آئنہ دیکھنے والے تجھے مر جانا تھا 

 

ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا 

دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا 

 

اس کڑی دھوپ میں سایہ کر کے 

تو کہاں ہے مجھے تنہا کر کے 

تیرگی ٹوٹ پڑی ہے مجھ پر 

میں پشیماں ہوں اجالا کر کے 

 

ہم رنگیِ موسم کے طلب گار نہ ہونا

سایہ بھی تو قامت کے برابر نہیں ملتا

…٭٭…

 

 غزل

دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے 

یہ بھی آزار چلا جائے گا جاتے جاتے 

 

دل کے سب نقش تھے ہاتھوں کی لکیروں جیسے 

نقش پا ہوتے تو ممکن تھا مٹاتے جاتے 

 

تھی کبھی راہ جو ہمراہ گزرنے والی 

اب حذر ہوتا ہے اس راہ سے آتے جاتے 

شہر بے مہر! کبھی ہم کو بھی مہلت دیتا 

اک دیا ہم بھی کسی رُخ سے جلاتے جاتے 

 

پارہ ابر گریزاں تھے کہ موسم اپنے 

دور بھی رہتے مگر پاس بھی آتے جاتے 

 

ہر گھڑی ایک جدا غم ہے جدائی اس کی 

غم کی میعاد بھی وہ لے گیا جاتے جاتے 

 

اس کے کوچے میں بھی ہو، راہ سے بے راہ نصیر 

اتنے آئے تھے تو آواز لگاتے جاتے

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔