یادرفتگان: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم عظیم شاعر، مفکر اور استاد

تحریر : ڈاکٹر عرفان پاشا


اردو ادب کی ہمہ جہت شخصیت صوفی غلام مصطفی تبسم اردو کے نامور شاعر اور ادیب تھے۔ ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ وہ بیک وقت استاد، اداکار، ڈرامہ نگار، غزل گو، نظم گو، بچوں کے شاعر، ملی نغمہ نگار، مترجم، مدیر، صداکار، فارسی کے عالم، خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے پہلے چیئرمین بھی تھے۔

ان کے کارناموں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک انسان اپنی زندگی میں اس قدرجہات کا مالک کیسے ہو سکتا ہے۔ صوفی تبسم 4 اگست 1899ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے، وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 1920ء میں امرتسر سے لاہور آگئے اور یہاں اسلامیہ کالج لاہور سے ایم اے فارسی کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کر لی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں پہلے لیکچرر اور بعدازاں اردو اور فارسی کے شعبوں کے صدر رہے۔ کچھ عرصہ تک پنجاب یونیورسٹی میں بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1962ء میں ہفت روزہ ’’لیل و نہار‘‘ کے ایڈیٹر بھی مقرر ہوئے۔

 1965ء میں پاکستان بھارت جنگ کے دوران انہوں نے ادبی سطح پر محاذ سنبھالا اور شاندار ملی نغمے تحریر کئے۔ ان کا مشہور زمانہ نغمہ ’’اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے‘‘ آج بھی لوگوں کو رونے پر مجبور کر دیتا ہے۔ 1976ء میں صوفی تبسم کو اقبال اکیڈمی کا نائب صدر مقرر کیا گیا، وہ تا دم آخر اس عہدے پرفائز رہے۔ ان کی علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں1962ء میں ’’دستارہ خدمت‘‘ اور 1967ء میں ’’ستارہ امتیاز‘‘سے نوازا گیا۔ 7 فروری 1978ء کو لاہور میں وفات پائی۔

صوفی تبسم کو ادبی حوالے سے دیکھا جائے تو ان کی سب سے بڑی حیثیت بچوں کے شاعر کی ہے اور ان کا مشہور کتابی کردار’’ ٹوٹ بٹوٹ‘‘ آج بھی بچوں کا پسندیدہ ہے۔ انہوں نے بچوں کی ذہنی سطح کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسی نظمیں تخلیق کیں جو زبان زد عام ہوئیں، جیسے! 

ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ 

باپ تھا اس کا میر سلوٹ 

پیتا تھا وہ سوڈا واٹر 

کھاتا تھا بادام اخروٹ 

یا پھر ان کی نظم ہے ’’عذرا کی گڑیا سوئی ہوئی ہے‘‘ یا پھر ’’ثریا کی گڑیا‘‘۔ 

ثریا کی گڑیا نہانے لگی 

نہانے لگی ڈوب جانے لگی 

بڑی مشکلوں سے بچایا اسے 

کنارے میں کھینچ لایا اسے 

اسی طرح انہوں نے انگریزی ادب سے اخذ و ترجمہ کر کے بھی بچوں کیلئے بہت شاندار نظمیں لکھیںجو آج کے بچوں میں بھی بہت مقبول ہیں جیسے !

چیں چوں چاچا 

گھڑی پہ چوہا ناچا 

گھڑی نے ایک بجایا 

چوہا نیچے آیا 

یا پھر جو گنتی سکھانے کیلئے بہترین نظم سمجھی جاتی ہے۔ 

پانچ چوہے گھر سے نکلے کرنے چلے شکار 

ایک چوہا رہ گیا پیچھے باقی رہ گئے چار 

چار چوہے جوش میں آکر لگے بجانے بین 

ایک چوہے کو آ گئی کھانسی باقی رہ گئے تین 

تینوں چوہے ڈر کر بولے گھر کو بھاگ چلو

 ایک چوہے نے بات نہ مانی باقی رہ گئے دو 

 اسی طرح کی بے شمار نظمیں ہیں جو آج بھی مائیں بچوں کو لوری کے طور پر سناتی ہیں۔

صوفی تبسم کی بطور شاعر ایک اور بہت بڑی وجہ شہرت ان کی غزل گوئی ہے۔ انہوں نے غزل کے کلاسیکی انداز کو بھی اپنائے رکھا اور اس کے ساتھ ساتھ غزل میں قوافی، ردیف و خیال اور دیگر فنی اور فکری سطح پر تجربات بھی کیے۔ ان کی تمام غزلیں ترنم، موسیقی، غنائیت اور نغمگی سے بھرپور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بے شمار غزلیں ملک کے نامور گلوکاروں نے گائی ہیں۔ جن میں ملکہ ترنم نور جہاں، فریدہ خانم، ناہید اختر اور دیگر فنکار شامل ہیں۔ صوفی تبسم نے اردو غزل کو وہ نکھار اور نیا پن دیا جس کی مہک آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ جیسے !

یہ رنگینی نوبہار اللہ اللہ 

یہ جامِ مے خوشگوار اللہ اللہ 

ادھر ہیں نظر میں نظارے چمن کے 

ادھر روبرو روئے یار اللہ اللہ 

صوفی تبسم نے اپنی غزلوں میں قافیہ اور ردیف کے لحاظ سے بھی تجربات کیے اور نئے الفاظ اور نئے روزمرہ محاورہ کو غزل کا حصہ بنایا۔ بعض ایسی غزلیں لکھیں جو نہ صرف کہنے میں مشکل تھیں بلکہ ان کو گانا بھی بہت مشکل تھا لیکن فریدہ خانم نے ان کی غزل کو نہایت خوش اسلوبی سے گایا۔

وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ 

کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ 

یہ روئے درخشاں یہ زلفوں کے سائے 

یہ ہنگامہ صبح و شام اللہ اللہ 

 

ان کی غزلوں میں روایتی محبوب کی تابانی اور جولانی بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نئے زمانے کے خیالات کی تابانی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی تبسم کی غزل قدیم اور جدید غزل کا وہ آمیزہ اور آمیختہ ہے کہ جو ان کو ان کے تمام ہم عصر غزل گو شعراء سے ممتاز بناتا ہے۔ 

 صوفی تبسم کی شاعرانہ حیثیت میں ایک بہت بڑا مقام ان کے ملی نغمات کو حاصل ہے جو انہوں نے 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے دوران لکھے۔ یہ ملی اور فوجی نغمات ایک طرف تو افواج پاکستان کا حوصلہ بلند رکھنے کیلئے بہت اہم ہیں تو دوسری طرف ادب کے حوالے سے بھی شاہکار ہیں۔ ان میں بالخصوص جس گیت نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے وہ گیت تھا !

ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے

کیہ لبھدی ایں وچ بازار کڑے

اے سودا نقد وی نہیں مل دا

تو لبھدی پھریں ادھار کڑے

 ان کا یہ ملی نغمہ بھی فوج کا جوش بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کرتا رہا ہے اور آج بھی کر رہا ہے ’’میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں‘‘۔ اسی طرح ان کا فوجی ملی نغمہ ’’میرا ماہی چھیل چھبیلا ہائے نی کرنیل نی جرنیل نی‘‘ بہت مقبول ہوا۔

صوفی تبسم کے زیادہ فوجی اور ملی گیت پنجابی زبان میں ہیں لیکن اردو میں بھی انہوں نے متعدد نغمے لکھے جن میں سے ایک یہ ہے !

یہ ہواؤں کے مسافر یہ سمندروں کے راہی

میرے سر بکف مجاہد میرے صف شکن  سپاہی

پاک فوج کے توپ خانے یعنی آرٹلری کیلئے انہوں نے ایک خصوصی گیت ’’ ہمارا توپ خانہ ‘‘ جنرل ٹکا خان کی فرمائش پر لکھا تھا۔ جس پر انہیں کانسی کی بنی ہوئی توپ سوینئر کے طور پر عطا کی گئی جو آج بھی صوفی تبسم اکیڈمی کے میوزیم میں موجود ہے ۔ صوفی تبسم نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے حوالے سے بھی ایک نغمہ لکھا جو کچھ یوں تھا !

تیرے خیال سے ہے دل شادماں ہمارا 

تازہ ہے جاں ہماری دل ہے جواں ہمارا 

تیری ہی ہمتوں سے آزاد ہم ہوئے ہیں 

خوشیاں ملی ہیں ہم کو دلشاد ہم ہوئے ہیں 

صوفی تبسم کو کشمیر سے بھی عشق تھا اور کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف انہوں نے متعدد بار اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ایک خوبصورت گیت بھی کشمیر کیلئے تخلیق کیا ۔ 

اے وادی کشمیر 

ہر گوشہ تیرا گلشن فردوس کی تصویر 

حوروں کے فرشتوں کے حسیں خواب کی تعبیر 

اے وادی کشمیر 

صوفی تبسم کو اللہ تعالیٰ نے ترجمے کی صلاحیت سے بھی مالا مال کیا تھا۔ متعدد زبانوں پر عبور حاصل ہونے کی وجہ سے انہوں نے شاندار تراجم بھی کیے۔ ان میں شیکسپیئر کے مشہور زمانہ ڈرامے ’’اے سمرز مڈنائٹ ڈریم‘‘ کا ترجمہ بھی شامل ہے۔ جس کا نام انہوں نے ’’ساون رین دا سفنا‘‘ رکھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے امیر خسرو کے فارسی کلام کا منظوم اردو ترجمہ بھی کیا۔اردو کے بے مثل شاعر اسد اللہ خان غالب کے کلام کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ جس کی ایک غزل بے انتہا مشہور ہوئی۔ 

میرے شوق دا نیں اعتبار تینوں 

آ جا ویکھ میرا انتظار آ جا 

صوفی تبسم شعر گوئی میں ہی ملکہ نہیں رکھتے تھے بلکہ شعر کے بہت بڑے نقاد بھی تھے۔ اس ضمن میں ان کا کام اردو کے تنقیدی ادب کا ایک بہت اہم سرمایہ ہے جو ہمارے کلاسیکی اور بڑے شعرا کے کلام اور ان کی فکر کو سمجھنے کا ایک بہت اہم ذریعہ اور راستہ ہے۔

صوفی تبسم خوش مزاج، بزلہ سنج، نکتہ پرور، جملہ باز اور ذہین شخص تھے۔ وہ ایک بے مثل استاد تھے جن کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد بعد میں اردو ادب کے افق پر بڑے ستارے بن کر نمودار ہوئی۔ جن میں اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ابن انشاء، شہزاد احمد، فیض احمد فیض و دیگر شامل ہیں۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔

ذرامسکرائیے

پپو روزانہ اپنے میتھ کے ٹیچر کو فون کرتا ٹیچر کی بیوی: تمہیں کتنی دفعہ کہا ہے کہ انہوں نے سکول چھوڑ دیا ہے تم پھر بھی روزانہ فون کرتے ہو۔پپو: یہ بار بار سن کر اچھا لگتا ہے۔٭٭٭

خر بوزے

گول مٹول سے ہیں خربوزے شہد سے میٹھے ہیں خربوزے کتنے اچھے ہیں خربوزےبڑے مزے کے ہیں خربوزےبچو! پیارے ہیں خربوزے

پہیلیاں

جنت میں جانے کا حیلہ دنیا میں وہ ایک وسیلہ جس کو جنت کی خواہش ہومت بھولے اس کے قدموں کو(ماں)

اقوال زریں

٭…علم وہ خزانہ ہے جس کا ذخیرہ بڑھتا ہی جاتا ہے وقت گزرنے سے اس کو کوئی نقصا ن نہیں پہنچتا۔ ٭…سب سے بڑی دولت عقل اور سب سے بڑی مفلسی بے وقوفی ہے۔٭…بوڑھے آدمی کا مشورہ جوان کی قوت بازو سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔