جوش ملیح آبادی:فکرونشاط کے شاعر

تحریر : محمد ارشد لئیق


تعارف جوش ملیح آبادی 5دسمبر 1898ء کو ملیح آباد میں پیدا ہوئے، اصل نام شبیر حسن تھا۔ 1914میں سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرنے کے بعد عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ چھ ماہ ٹیگور یونیورسٹی میں گزارے،1916ء میں والد کی ناگہانی وفات کی وجہ سے کالج کی تعلیم حاصل نہ کر سکے۔

 ان کے والد بشیر احمد خاں بشیر، دادا محمد احمد خاں احمد اور پردادا فقیر محمد خاں معروف شاعر تھے۔ اس طرح شاعری انہیں وراثت میں ملی تھی۔شعر کہنے کا آغاز کیا تو عزیز لکھنوی سے اصلاح لی۔ دارالترجمہ عثمانیہ میں ملازمت سے فنی زندگی کا آغاز کیا ، کچھ مدت وہاں گزارنے کے بعد دہلی آگئے اور رسالہ ’’کلیم‘‘ جاری کیا۔ آل انڈیا ریڈیو سے بھی وابستہ رہے، سرکاری رسالہ ’’آج کل‘‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔جوش نے کچھ غزلیں بھی کہیں لیکن ان کی شہرت کا دارومدار نظموں پر ہے۔ انہوں نے تحریک آزادی کی حمایت میں نظمیں کہیں تو انہیں ملک گیر شہرت حاصل ہوئی اور انہیں ’’شاعرانقلاب‘‘ کے لقب سے نوازا گیا۔ جوش کے شعری مجموعوں میں ’’شعلہ و شبنم‘‘،’’جنون و حکومت‘‘،’’فکر ونشاط‘‘،’’سُنبل و سلاسل‘‘،’’حرف و حکائیت‘‘، ’’سرود و خروش‘‘ اور’’ عرفانیاتِ جوش‘‘ قابل ذکر ہیں۔نثر میں اُن کی خود نوشت’’یادوں کی برات‘‘ مقبول ہوئی۔نظم ’’حسین اور انقلاب‘‘ لکھنے پر انہیں ’’شاعرِانقلاب‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ 1958ء میں پاکستان آ گئے۔22فروری  1982ء کواُردو کا مایہ ناز شاعر اپنی بہت سی یادوں کو چھوڑکر عالم فانی سے عالم بقا کی طرف کوچ کرگیا۔

جوش اردو نظم کا ایک اہم ترین نام ہیں، وہ ایک ایسے شاعر ہیں جو نثر اور نظم دونوں میں درجہ کمال رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ ایسے شاعر تھے جن کے سامنے الفاظ ہاتھ باندھے کھڑے رہتے، تراکیب ایسی کہ قاری کا منہ کھلے کا کھلا رہ جائے تو غلط نہ ہو گا۔ وہ جس نفاست سے اپنے اشعار کے بدن کو جاہ و جلال اور کروفر کا لباس پہناتے تھے، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ بعض نقادوں کے نزدیک وہ نرے لفاظ ہیں، بعض کے خیال میں انہیں محض لفظ بُننا اور چُننا آتا ہے۔

جوش نے پہلے غزل کے میدان میں اپنے آپ کو منوایا۔ غزل میں اُن کا اسلوب سب سے جُدا تھا۔ جوش کو جذباتی اور رومانی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا جداگانہ اسلوب جب ندرتِ خیال کو ساتھ لے کر چلتا ہے تو اُس شعر کی کئی جہتیں ہمارے سامنے آ تی ہیں، جیسے!

یہ دن بہار کے اب کے بھی راس آ نہ سکے

کہ غنچے کھل تو سکے،کھل کے مسکرا نہ سکے

پھر جب وہ انسانی فطرت کے مختلف گوشوں کو بے نقاب کرتے ہیں تو اس میں وہ بڑی صاف گوئی سے کام لیتے ہیں،یہ اشعار ملاحظہ کیجئے!

قدم انسان کا راہِ دہر میں تھّراہی جاتا ہے

چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے

شکایت کیوں اِسے کہتے ہو یہ فطرت ہے انسان کی

مصیبت میں خیال عیش رفتہ آ ہی جاتا ہے

بے ساختگی اور برجستگی کے حوالے سے یہ اشعار دعوتِ فکر دیتے ہوئے نظر آتے ہیں!

سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا

جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

مجھ کو توہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید

لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا

غزل کے بعد جوش نظم کی طرف متوجہ ہوئے اور اس صنف میں انہوں نے اپنی فن کے انمٹ نقوش چھوڑے۔ ان کی نظموں میں ایسا طمطراق اورکروفر پایا جاتا ہے کہ قاری کو لفظ کی عظمت اور حرمت کا بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے۔ ویسے تو ان کی بے شمار نظمیں ایسی ہیں جن پر پوری کتاب تحریر کی جا سکتی ہے۔اُن کی ایک لازوال نظم ’’زندگی اور موت‘‘ جس طرح قاری پر اپنے نقوش چھوڑتی ہے اُسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔

جوش ملیح آبادی کی نغمہ نگاری

جوش ملیح آبادی ایک اعلیٰ پائے کے نغمہ نگار بھی تھے اور انہوں نے کچھ فلموںکیلئے نغمات بھی لکھے۔ نغمات لکھنے کا یہ سلسلہ بھارت سے شروع ہوا۔ جب وہ پاکستان آئے تو ریکارڈ کے مطابق انہوں نے صرف ایک فلم کے گیت تخلیق کیے۔’’من کی جیت‘‘ وہ پہلی فلم تھی جس کے گیت جوش نے لکھے ، 1944 ء میں ریلیز ہونے والی یہ بڑی مشہور فلم تھی ۔ جوش نے اس کے چار نغمات لکھے اور ان تمام نغمات نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔ اس فلم میں شامل ان کے گیت درج ذیل تھے۔(1) ’’پردیسی کیوں یاد آتا ہے‘‘ ، (2) ’’نگری میری کب تک یونہی برباد رہے گی‘‘ ، (3) ’’من کاہے گھبرائے‘‘، (4) ’’مورے جبنا کا دیکھو‘‘۔ ان تمام گیتوں نے ہر سو خوب دھوم مچائی اور انہیں بہت پسند کیا گیا۔  اس فلم کے چوتھے گیت ’’مورے جبنا کا دیکھو‘‘ کو گلوکارہ زہرہ بائی ابنالے والی نے گایا تھا۔اس طویل گیت کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں اردو کے ساتھ ہندی کے بھی بہت سے الفاظ استعمال کئے گئے تھے ۔ جوش ملیح آبادی نے یہ گیت لکھ کر ثابت کیا کہ وہ ہندی زبان پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔

1945 ء میں انہوں نے فلم ’’غلامی‘‘ کیلئے ایک گیت تحریر کیا۔ ’’اے وطن میرے وطن‘‘  کے بولوں پر مشتمل یہ بنیادی طور پر یہ ایک ملی نغمہ تھا ۔ 1946ء میں فلم ’’نینا‘‘ کیلئے  گیت ’’بگڑی مری بنا دے‘‘ تخلیق کیا جو بہت مشہور ہوا۔ 1947 ء میں فلم ’’شہزادی‘‘ کیلئے بھی گیت لکھا۔ 1949 ء میں فلم ’’لاسٹ میسج‘‘ کیلئے گیت ’’جگمگ ہے سنسار ‘‘ تحریر کیا۔ جوش صاحب کا گیت ’’چاند سا مکھڑا مسکائے‘‘ اور فلم ’’دوراہا‘‘ کیلئے لکھے ہوا گیت ’’جب سے بلبل تو نے‘‘ بھی پسند کیا گیا۔

جوش ملیح آبادی 1956 ء میں پاکستان آئے تو انہوں نے گیت نگاری کی طرف توجہ نہیں دی۔ پاکستان میں انہیں اس وقت کے نامور ہدایتکار ڈبلیو زیڈ احمد نے کہا کہ وہ شالیمار پکچرز کی فلموں کیلئے گیت لکھیں۔1966 ء میں جوش صاحب نے ہدایتکار ہمایوں مرزا کی فلم ’’آگ کا دریا‘‘ کیلئے نغمات لکھے۔ 

 ’’یادوں کی برات‘‘

ان کی مشہور زمانہ خودنوشت ’’یادوں کی بارات‘‘بھی کسی انمول خزانہ سے کم نہیں۔پہلے ذرا اس ترکیب پر غور کیجیے ’’یادوں کی برات‘‘ کس قدر رعنائی ہے اس ترکیب میں۔ ا ن کی پہلی نظم ہلالِ محرم ہی اس حقیقت کی غماز تھی کہ اب اردو نظم کو نئی جہتیں اور توانائیاں دینے والا شاعر میدان میں آ گیا ہے۔جوش ملیح آبادی انسان دوست بھی تھے اوران کی انسانیت پرستی کا ایک عالم گواہ ہے۔ انہوں نے اپنی خودنوشت ’’یادوں کی برات‘‘ میں لکھا تھا کہ میری زندگی کے چار بنیادی میلانات ہیں۔شعر گوئی ،عشق بازی،عِلم طلبی اور انسان دوستی۔یہ میلانات پڑھ کر ہر شخص جوش کی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے، عمر بھر صاف گوئی صداقت اور جرات کا علم بلند رکھا۔

جوش ملیح آبادی نے اتنا زیادہ لکھا ہے کہ اس پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ اس مختصر مضمون میں ان کے فن کا محاکمہ نہیں ہو سکتا۔بہرحال اتنا ضرور ہے کہ جوش کی شاعری کی کچھ پرچھائیاں قارئین تک پہنچ جائیں گی۔22فروری 1982ء کو شاعری کے آسمان کا یہ آفتاب غروب ہو گیا۔انہوں نے اپنی شاعری کا جو خزانہ چھوڑا وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔

ملی ترانہ

پاکستانی فلم ’’آگ کا دریا‘‘  میں شامل شہرہ آفاق ملی ترانہ ’’اے وطن ہم ہیں تری شمع کے پروانوں میں‘‘جوش ملیح آبادی نے لکھا تھا، جسے لازوال شہرت ملی تھی۔ 1966ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم کے ہدایتکار ہمایوں مرزا تھے اور یہ ترانہ گلوکار مسعود رانا کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔

اے وطن ہم ہیں تری شمع کے پروانوں میں

دل عشاق کی مانند یہ تپتے میداں

یہ پہاڑوں کی گھٹائوں میں جوانی کی اٹھان

کتنے روشن ہیں دئیے ترے شبستانوں میں

تیرے دہقان کے ماتھے کے ستارے لے کر

اے وطن ہم ہیں تری شمع کے پروانوں میں

زندگی ہوش میں ہے جوش ہے ایمانوں میں

یہ لچکتے ہوئے جنگل یہ تھرکتے ارماں

یہ مچلتے ہوئے دریائوں میں انگڑائی کی شان

ترے مزدور کی آنکھوں کے شرارے لے کر

چاندنی بوئیں گے جھلسے ہوئے میدانوں میں

زندگی ہوش میں ہے جوش ہے ایمانوں میں

 غزل

جب سے مرنے کی جی میں ٹھانی ہے 

کس قدر ہم کو شادمانی ہے 

شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے 

یہ مرا فن خاندانی ہے 

کیوں لب التجا کو دوں جنبش 

تم نہ مانوگے اور نہ مانی ہے 

آپ ہم کو سکھائیں رسم وفا 

مہربانی ہے مہربانی ہے 

دل ملا ہے جنہیں ہمارا سا 

تلخ ان سب کی زندگانی ہے 

کوئی صدمہ ضرور پہنچے گا 

آج کچھ دل کو شادمانی ہے 

سوز غم

سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا 

جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا 

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ 

جن کو تیری نگہ لطف نے برباد کیا 

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا 

جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا 

اے میں سو جان سے اس طرز تکلم کے نثار 

پھر تو فرمائیے کیا آپ نے ارشاد کیا 

اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد 

اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد کیا 

اتنا مانوس ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی 

جھک کے میں نے یہ کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا 

میری ہر سانس ہے اس بات کی شاہد اے موت 

میں نے ہر لطف کے موقع پہ تجھے یاد کیا 

مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید 

لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا 

کچھ نہیں اس کے سوا جوش حریفوں کا کلام 

وصل نے شاد کیا ہجر نے ناشاد کیا 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔