مستقبل شناس شاعر اکبر الہٰ آبادی

تحریر : ڈاکٹر عرفان پاشا


1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد بالخصوص مسلمانوں کو جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا وہ باقی اقوام سے یکسر مختلف تھا۔ باقی قوموں کیلئے وہ محض آقاؤں کی تبدیلی تھی لیکن مسلمانوں کیلئے یہ آقا سے غلام یا حاکم سے محکوم بننے کا عمل تھا جو سیاسی تنزلی کی وجہ سے تکلیف دہ بھی تھا اور ذلت آمیز بھی۔

اکبرالٰہ آبادی نے انگریزی تسلط کے نتیجے میں ہونے والی تہذیبی تبدیلیوںکی آہٹ سن لی تھی اور ایک بڑے مستقبل بین کی طرح انہیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ جن مظاہر اور عوامل کے سامنے وہ بند باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اپنی ایک مستقل صورت قائم کرنے جا رہے ہیں۔ انہوں نے جس خدشے کا اظہارکیا تھا آج وہ مظاہر ناصرف سماجی حقیقت کا رو پ دھار چکے ہیں بلکہ ہماری زندگیوں میں اس طرح داخل ہو چکے ہیں کہ ہمیں ذرا بھی اوپرا پن محسوس نہیں ہوتا۔ اس طرح یوں لگتا ہے جیسے اکبر الٰہ آبادی نے سو برس آگے کے زمانے کی جھلک دیکھ لی تھی۔ اکبرالٰہ آبادی نے اگرچہ ان اشیاء و مظاہر کا ذکرطنزیہ طور پرکیا ہے جو کہ ا ن کی شاعری کا سب سے تند ہتھیار تھا،لیکن اکبرالٰہ آبادی کو یہ سب باتیں طنز کی حدود سے نکل کرحقیقت بنتی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔اس کا اظہارانہوں نے یوں کیا :

میں جو روتا ہوں کہ افسوس زمانہ بدلا

مجھ پہ ہنستا ہے زمانہ کہ تمہیں وہ نہ رہے

اس انقلاب کو حیرت سے دیکھتا ہوں میں

زمانہ کہتا ہے دیکھا کرو ابھی کیا ہے

 ٹائپ کے حروف پڑھنے کے بارے میں جب اکبرالٰہ آبادی نے کہا تھا!

’حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا

تو اس کا مطلب صرف ٹائپ تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کا مطلب اس خدشے کا اظہار تھا کہ خطاطی اور کتابت کی صورت میں ہمارا صدیوں پرانا اسلامی ورثہ معدوم ہونے جا رہا ہے۔ ساتھ ہی کاتبوں کی تربیت، خطاطوں کی مشق اور ان کے ہاتھ کی صفائی اور ہر خطاط کا جداگانہ اسلوب بھی دم توڑ جائے گا۔ اس کی جگہ مشینی کتابت یا ٹائپ لے لے گی۔ ان کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا اور آج پرنٹنگ کی تمام انڈسٹری مشینی کتابت (کمپیوٹر کمپوزنگ) سے جڑی ہے۔  

اسی طرح پائپ سے پانی پینے کے بارے میں جب کہتے ہیں!

پانی پینا پڑا ہے پائپ کا

تو اس کا مطلب بھی پانی اوراس کے ذرائع سے متعلقہ تہذیب کے مٹ جانے کا نوحہ ہے۔ جن میں کنویں، کاریز، رہٹ، بیل، پن گھٹ، پنہاریاں، مشکیزے، سقے اور ان مظاہر سے وابستہ تمام تر تہذیبی رومان ختم ہوجانے کی چیتاونی دے دی گئی ہے۔  

اکبرالٰہ آبادی کے زمانے میں ہی مخلوط زبان جس میں انگریزی کی ملاوٹ تھی، کافی حد تک متشکل ہو چکی تھی۔ بالخصوص پڑھے لکھے طبقے میں اپنی مقامی زبان میں بات کرتے ہوئے بیچ میں انگریزی کے الفاط لانا ناصرف مقبول تھا بلکہ وجہ افتخار اور سٹیٹس سمبل بھی سمجھا جاتا تھا۔ انگریزی خواں اور انگریزی داں طبقے کیلئے یہ لسانی تفاخر گویا مقامی اور دیسی زبان بولنے والوں پر دھاک بٹھانے کا ایک ذریعہ اور اپنی بڑائی دکھانے کا ایک اظہار تھا۔ اکبرالٰہ آبادی نے اس سوچ کی خوب بھد اڑائی ہے اور اپنے شعروں میں اُن کو طنز کے خوب خوب کچوکے لگائے ہیں لیکن وہ یہ بھی سمجھ گئے تھے کہ ہماری زبان کا مستقبل یہی ہے اورآنے والے دنوں میں اردو انگریزی الفاظ کا ملغوبہ بن جائے گی۔ اگر ہم آج کی انگریزی زدہ اردو زبان دیکھیں اور سنیں تو اکبر الٰہ آبادی کی مستقبل شناسی کی داد دینی پڑے گی۔ اکبرالٰہ آبادی کی شاعری میں بلا مبالغہ انگریزی کے سیکڑوں الفاظ شامل ہیں جنھیں اکبر الٰہ آبادی نے طنز کے تیروں میں پرو کرپیش کیا ہے۔چند مثالیں دیکھئے: 

زمزمہ اوج فلک پر ہے یہی ہر برڈ کا

ہے یہی مفہوم روئے ارض پر ہر ورڈ کا

زینت گیتی ہے ملک اعظم برطانیہ

سکہ بیٹھا ہے دلوں میں حضرت اڈورڈ کا

جب حکومت کرے خود اس کا ڈیفنس

کیوں نہ ہوں میں شریک کانفرنس

پتلون اکبرالٰہ آبادی کے ہاں انگریزی لباس بلکہ انگریزی وضع قطع کی علامت کے طور پر استعمال ہوئی ہی۔پتلون اختیار کر لینے کا مطلب اپنے مقامی اور قومی لباس کو چھوڑ کر ایک غیرقوم کی وضع قطع کو اختیار کرنا تھا۔ لباس محض ظاہری کپڑے کے ٹکڑوں پرہی مشتمل نہیں ہوتا بلکہ اس میں کسی قوم کی موسمی، مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی عناصر کی جھلک ہوتی ہے۔ اکبر الٰہ آبادی جہاں تہمد، پاجامہ یا شلوار کے ختم ہونے اور اس کی جگہ پتلون کے رائج ہونے کی بات کرتا ہے تو وہ ان تہذیبی عناصر کے نابود ہونے کا نوحہ کررہا تھا۔چند مثالیں دیکھئے: 

پاجامہ بھی یوں ہی ارتقا سے بدلا

سمٹا ابھرا غرض کہ پتلون بنا

انہیں دھوتی مبارک ہو ، انہیں تہمد مبارک ہو

مجھے پتلون اور یاروں کو مجھ سے کد مبارک ہو

شوق لیلائے سول سروس نے مجھ مجنون کو

اتنا دوڑایا لنگوٹی کر دیا پتلون کو

موٹراکبر الٰہ آبادی کے ہاں ایک اہم علامت ہے جو صنعتی ترقی کا استعارہ بھی ہے اور سماجی مرتبے کا بھی۔ انہوں نے بارہا اس کا ذکرکیا ہے اورشیخ جی سے اس سے کترانے کو موضوع بنایا ہے لیکن ان کا ماننا ہے کہ یہ موٹر اب ہندوستانی معاشرت کی کایا کلپ کر کے رہے گی اورجو لوگ قدیم ذرائع نقل و حمل کی طرف جھکے جاتے ہیں ان کوبالآخراسی طرف آنا پڑے گا۔

مرید اُن کے تو شہروں میں اڑے پھرتے ہیں موٹر پر

نظر آتے ہیں لیکن شیخ جی اب تک میانے میں

اسی طرح موٹر کے ساتھ ساتھ ریل بھی اپنے ساتھ صنعتی ترقی کا بہت بڑا ریلا لے کرآئی ے جو سارے نظام نقل و حمل کو خس و خاشاک کی طرح بہا کرلے گئی اورایک ہی ہلے میں سواری اور باربرداری کے تمام ذرائع کو موقوف کر کے رکھ دیا۔اکبر الٰہ آبادی پکار کار کرکہہ رہا تھا:

شیخ صاحب کا تعصب ہے جو فرماتے ہیں

اونٹ موجود ہے پھر ریل پہ کیوں چڑھتے ہو

چھٹے ہم سے بالکل وہ اگلے طریقے

کہاں کھینچ لے جائے گا ہم کو انجن

اکبر کو انگریزی تعلیم اورنظام سے جو سب سے بڑی چڑ تھی وہ یہ تھی کہ اس کو اپنانے سے ہماری ہزار سالہ ہندوستانی تہذیب جو ہند اسلامی تہذیب کہلاتی ہے اور بالخصوص مسلمانوںکا ایک بہت اہم رکن یعنی خواتین کا پردہ ختم ہو کررہ جائے گا۔ اس بے پردگی اور باہمی اختلاط کے باعث مشرقی حسن میں وہ نزاکت اورناز و ادا، وہ شگفتگی اوروہ چھب نہیں رہے گی۔پس پردہ محبت کا رومان بھی ختم ہو جائے گا اوراس کھلے پن سے مشرقی عورت کا عورت پن ختم ہو جائے گا جس سے تہذیب کی ساری خوبصورتی چلی جائے گی۔ آج دیکھئے عورت اور مرد کا تعلق ہمارے ہاں کس قدر میکانکی بن چکا ہے۔ اکبر نے تو سو سال پیشتر ہمیں خبردارکردیا تھا کہ:

بٹھائی جائیں گی پردے میں بیبیاں کب تک

بنے رہو گے تم اس ملک میں میاں کب تک

جو منہ دکھائی کی رسموں پہ ہے مصر ابلیس

چھپیں گی حضرت حوا کی بیٹیاں کب تک

1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی نے مسلمانوں کو اس انگریزی نظام کے تابع کر دیا جسے وہ پسند یا قبول نہیں کرتے تھے۔ اکبر نے اپنے اشعارکے ذریعے اس کے خلاف بند باندھنے کی کوشش کی لیکن انہیں یقین تھا کہ مغربی طرز معاشرت یا انگریزی نظام ہندوستان کو اپنی گرفت میں لے لے گا اور یہاں ہر طرف انگریزی نظام کے مظاہر عام ہو جائیں گے۔ 

اکبر یہ سمجھتے تھے کہ انگریزی تعلیم کی اندھا دھند نقالی سے ہمارے لوگ طوطے کی طرح رٹنا تو سیکھ لیں گے لیکن ان کو علوم کی کچھ سمجھ نہیں آئے گی جو کہ ان کی مادری زبان میں آسکتی ہے۔ اس تعلیم سے مذہب، معاشرت، شکل، صورت، قوم ،ملت سب کچھ ہاتھ سے جا تا رہے گا اورصرف کلر کی کل حاصل وصول ہوگی۔ اکبر نے ان خدشات کا اظہار کھلے لفظوں میں کیا ہے اور بعض جگہ طنز کی کاٹ اتنی گہری ہے کہ مشکل سے برداشت ہوتی ہے لیکن جب ہم اپنے آج کے زمانے میں اس تعلیم کے فیوض و برکات دیکھتے ہیںتو کہیںکوئی ایجاد، دریافت، نظریات یاافعال کی ترقی یا ارتفاع نظر نہیں آتا اور صرف انگریزی زبان بول لینا ہی بہت بڑی خوبی سمجھی جاتی ہے، چاہے پلے کچھ نہ پڑے۔  

مذہب چھوڑو ، ملت چھوڑو ، صورت بدلو عمر گنواؤ

صرف کلرکی کی امید اور اتنی مصیبت توبہ توبہ

سنتے نہیں ہیں شیخ نئی روشنی کی بات

انجن کی ان کے کان میں اب بھاپ دیجئے

اکبرالٰہ آبادی کے زمانے میں رسل و رسائل کے وسائل بھی تبدیل ہورہے تھے اور ریڈیو اور ٹیلی گرام ایجاد ہوچکے تھے۔ اکبر نے پرانے ذرائع ابلاغ کے مسترد ہوجانے اور ان کی جگہ نئے ذرائع ابلاغ کی ترویج اور استعمال کی خبر ان الفاظ میں دی تھی:

مرے خط بے اثر ہیں اس نگاہ تیز کے آگے

وہاں ہے تار بجلی کا یہاں کاغذ کے گھوڑے ہیں

 اکبر الٰہ آبادی ایک انتہائی زیرک اور حساس فن کارتھے جن کی حدنظر بہت وسیع تھی اورانہوں نے ایک نہایت ذہین شخص کی طرح آنے والی وقت کی جھلک دیکھ لی تھی جو ان کے بعد عین اسی طرح کے حالات و واقعات کی صورت میں سامنے آئی جیسا کہ انہوں نے اپنے اشعار میں اسے قبل از وقت بیان کر دیا تھا۔

ڈاکٹر عرفان پاشا یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے شعبہ اردو سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر وابستہ ہیں، چار کتابوں کے مصنف بھی ہیں

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔