اخوت اسلامی کی اہمیت،افادیت اور عظمت

تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری


اسلامی اُخوت وہ عالمگیر رابطہ وحدت اور رشتہ یگانگت ہے جو تمام جغرافیائی، نسلی، لسانی، ملکی اور وطنی حدودو قیود سے آزاد اور امتیازات سے وراء الوراء ہے۔ یہ وہ روحانی رشتہ ہے جو مادی علائق و روابط سے منزہ اور بالا تر ہے۔ وحیِ ربانی کی آیاتِ اور صاحبِ وحی و رسالت ﷺ کے ارشاداتِ مقدسہ میں اس کی تفصیلات و تمثیلات کے مستقل ابواب موجود ہیں،

 ارشادِ الٰہی ہے: ’’ تم (ایک دوسرے کے) دشمن (خون کے پیاسے) تھے، پس اللہ نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کر دی، اب تم اس کے انعام و رحمت سے (ایک دوسرے کے) بھائی ہو گئے‘‘ (آل عمران: 103)۔ ارشادِ نبوی ﷺ ہے: ’’ایک مومن دوسرے مومن کیلئے عمارت کے رَدّوں کی مانند ہے، جس کا ایک رَدَّا دوسرے رَدّے کو مضبوط و محکم کرتا ہے، اور (آپ ﷺنے اس تمثیل کا مشاہدہ کرانے کیلئے اپنی ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کر لیں اور فرمایا اس طرح‘‘)،(صحیح بخاری، ج:1، ص331)۔ 

’’اخوت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو کہ ’’اخ‘‘ سے بنا ہے اور اس کے معنی’’بھائی چارہ ،یگانگت اوربرادری‘‘کے ہیں۔ اسلام میں تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، چاہے وہ جہاں کہیں بھی رہتے ہیں اور ان کا کسی بھی رنگ ونسل اور وطن سے تعلق ہو،جو کلمہ طیبہ پڑھ کراسلام میں داخل ہو جاتا ہے وہ بحیثیت مسلمان ہمارا دینی بھائی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمدﷺکے ذریعے مسلمانوں کے درمیان ایک پائیدار اور مستحکم رشتہ قائم کیا،جسے قرآن کریم نے ’’رشتہ اخوت اسلامی ‘‘کا نام دیا ہے۔ اس رشتہ کی عظمت و فضیلت، افادیت اور اہمیت کے حوالے سے کئی آیات اور احادیث مبارکہ موجود ہیں۔

قرآ ن پاک میں اخوت اسلامی کا ذکر

بعثت رسول ﷺ اور نزول قرآن کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بنی نوع انسان کو منظم کر دیا جائے اور ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی اور عداوت کرنے والوں کو پیار و محبت اور اخوت و بھائی چارہ کے رنگ میں رنگ دیا جائے۔ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے حضور رحمت دو عالمﷺ نے اہل ایمان کے درمیان ’’رشتہ اخوت‘‘ قائم کیا۔ اس عظیم رشتے کی بنیاد اسلام، اﷲ و رسولﷺکی محبت ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بیشک ایمان والے (آپس میں) بھائی بھائی ہیں (اگر ان کے درمیان کچھ تنازع ہو جائے) تو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو اوراﷲ سے ڈرتے رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے‘‘ (سورۃ الحجرات:10) ۔ 

اﷲ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے اور اخوت اسلامی کے رشتہ کی موجودگی میں رنگ و نسل، زبان، قومیت اور علاقوں کی بنیاد پر بننے والے باقی تمام رشتوں کی حیثیت ثانوی بلکہ ختم ہو جاتی ہے۔ آیت مذکورہ میں دوسرا حکم یہ دیا گیا ہے کہ ’’اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دو‘‘۔ آیت کے اس حصہ سے معلوم ہوا کہ دو مسلمانوں، افراد یا دوگروہوں میں اختلاف واقع ہو سکتا ہے۔ ان کے قریب جو تیسرا فرد یا گروہ ہے، اس کی ذمہ داری ہے کہ ان میں فوراً صلح کرا دے اور ان کے ساتھ ایسا سلوک کرے جو دو بھائیوں سے کیا جاتا ہے۔ آیت مبارکہ میں تیسرا حکم ہے کہ ’’اور اﷲ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیاجائے‘‘۔ آیت کے اس حصے میں تنبیہ کی گئی کہ اہل ایمان کے درمیان اگر اختلاف ہو جائے تو تمھاری ذمہ داری ہے کہ ان کے درمیان اختلاف کو بڑھاؤ نہیں بلکہ کم کرنے کی کوشش کرو اور صلح کرانے میں کسی بھی فریق کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان سب کے ساتھ برابری اورخیرخواہی کا سلوک کیا جائے۔

اخوت اسلامی، اﷲ کی مہربانی 

تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہتے ہیں،ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ غریب و محتاج مسلمان کی مالی امداد و اعانت بھی کرتے ہیں۔ اس طرح امت مسلمہ میں باہمی اتحاد و یکجہتی اور امداد و اعانت کی فضا قائم ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور سب مل کراﷲ کی رسی (پیغام ِہدایت) کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو اور اﷲ کی اس مہربانی (انعام) کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں میں اُلفت پیدا کر دی، اور تم اس کی نعمت کی بدولت بھائی بھائی بن گئے‘‘ (آل عمران: 103)۔

اخوت اسلامی اور ارشاداتِ رسولﷺ

رسول اﷲﷺ نے اپنے متعدد ارشادات میں اخوتِ اسلامی کی اہمیت، افادیت اور عظمت کو اجاگر اور واضح کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس کے معاملے میں خیانت نہیں کرتا، دانستہ اس کو کوئی جھوٹی اطلاع نہیں دیتا اور نہ ہی وہ اس کو رسوا کرتا ہے۔ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر سب کچھ حرام ہے، اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو‘‘ (ابن ماجہ)۔

حضرت انس ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺکا ارشاد گرامی ہے : ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کیلئے وہی چیزپسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے‘‘ (صحیح بخاری، جامع ترمذی،ابن ماجہ)۔ اس حدیث پاک میں ایمان کی ایک اعلیٰ اخلاقی صفت کو بیان کیا گیا ہے،  وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کیلئے وہی کچھ پسند کرتا ہے جو وہ اپنی ذات کیلئے پسندکرتا ہے۔ اس حدیث کے اندر یہ اشارہ ہے کہ جس طرح کو ئی اپنے لئے نقصان اور برائی پسند نہیں کرتا تو اسے چاہئے کہ اپنے مسلمان بھائی کیلئے بھی کسی نقصان اور برائی کے عمل میں شریک نہ ہو۔

  نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے ،وہ اس پر ظلم نہیں کرتا نہ ہی اسے بے یار ومددگار چھوڑتا ہے اورجو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی کسی ضرورت کو پورا کرتا ہے، اﷲ اس کی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور جو کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی مشکل کو آسان کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں آسانی پیدا کر ے گا اور جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی (کسی عیب یا غلطی کی) پردہ داری کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ  قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ پوشی کرے گا‘‘ (سنن ابو داؤد)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پرظلم کرے نہ اس کو رسوا کرے، جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں مشغول رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان سے مصیبت کو دور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مَصائب میں  سے کوئی مصیبت دُور فرما دے گا اور جو شخص کسی مسلمان کا پردہ رکھتا ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کا پردہ رکھے گا‘‘ (صحیح بخاری، کتاب المظالم و الغصب، الحدیث: 2442) ۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: ’’(حقیقی) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کی اذیت و تکلیف) سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں‘‘ (متفق علیہ)۔ 

رسول اﷲﷺ نے اپنے بے شمار ارشادات اور فرامین میں مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دیا اور حقیقی مسلمان کی نشانی یہ فرمائی ہے کہ اس کی ذات سے کسی مسلمان کو اذیت و تکلیف نہیں پہنچتی بلکہ ہر حالت میں سے راحت و سکون اور سلامتی ملتی ہے ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭