بری خواہش کا انجام

تحریر : آمنہ کریم


پرانے زمانے کی بات ہے کہ کسی گاؤں میں ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا ۔ وہ بہت غریب تھے ، یہاں تک کہ ان کے پاس اکثر کھانے کو بھی کچھ نہ ہوتا۔ خوش قسمتی سے ان لوگوں کے جھونپڑی نما گھر کے سامنے ایک تالاب تھا جس میں مچھلیاں موجود تھیں ۔

وہ آدمی روزدو تین مچھلیاں پکڑ کر لے جاتا،جنہیں پکا کر وہ دونوں کھالیتے۔وہ آدمی ہر وقت پریشان رہتا تھا کیونکہ اس کی بیوی ہمیشہ اس سے لڑتی جھگڑتی تھی کہ وہ یہاں گاؤں میں رہ کر روز مچھلیاں نہیں کھا سکتی۔ شوہرنے اسے کئی بار سمجھایا کہ اللہ تعالی ٰ جتنا دیتا ہے اسی میں شکرادا کرنا چاہئے لیکن اس کی بیوی پر ان باتوں کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ 

ایک دن شوہر بے چارہ تالاب کے کنارے پہنچا تاکہ کچھ مچھلیاں پکڑ کر اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ بھر سکے۔جب اس نے مچھلی پکڑنے کیلئے جال پانی میں ڈالا تو اسے ایسا لگا کہ جال کہیں اٹک گیا ہے۔ وہ جال کھینچنے لگا لیکن جال اسے بہت بھاری لگا پھر بھی اس نے جیسے تیسے کر کے جال نکال لیا۔ جب اس نے جال نکالا تو حیران و پریشان رہ گیا کیونکہ جال میں ایک بڑی عجیب وغریب مچھلی پھنسی ہوئی تھی۔ اس نے حیران ہو کر اپنے دل میں سوچا کہ اتنے چھوٹے تالاب میں اتنی بڑی مچھلی ؟وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک اس مچھلی نے پری کا روپ دھار لیا۔ یہ دیکھ کر وہ پریشان بھی ہوا اور اُسے قدرے خوف بھی محسوس ہوا۔اس سے پہلے کہ وہ ڈر کر بھاگ جاتا پری نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسے کچھ نہیں کہے گی بلکہ وہ تو اس کی شکر گزار ہے کہ اس نے اسے پانی سے آزاد کیا۔ اس نے پری سے پوچھا کہ وہ مچھلی کیسے بنی، تو پری نے اسے کہانی سُنائی کہ ایک جادوگر اس سے شادی کرنا چاہتا تھا، لیکن میں اس سے شادی کرنا چاہتی تھی نہ اسے پسند کرتی تھی۔ جب یہ بات جادو گر کوپتہ چلی تو اس  نے غصے میں آکر مجھے مچھلی بنا کر پانی میں قید کرلیا۔پری بولی ’’اگر مجھے تم یہاں سے نہ نکالتے تو شاید میں زندگی بھر اس پانی میں قید رہتی‘‘۔ 

جب پری اپنی پوری کہانی سُنا چُکی تو اس آدمی کا ڈر ختم ہو گیا، تب اس نے پری کو اپنی غربت اور لڑا کا بیوی کی داستان سنائی تو پری نے اس سے کہا کہ فکرمت کروتم نے مجھے پانی سے آزاد کر کے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ اس لئے میں تمھاری تین خواہشات پوری کردوں گی۔ پری نے اسے یہ بھی بتا یا کہ دھیان رکھنا مجھے کوئی غلط خواہش پوری کرنے کو نہ کہنا۔یہ سنتے ہی وہ بہت خوش ہوا اور جلدی سے جا کر اپنی بیوی کو ساری بات بتائی تو وہ بھی بہت خوش ہوئی۔پری کو دیکھ کر اس کے من میںلالچ جاگ اُٹھی۔پری نے جب ان سے پہلی خواہش پوچھی تو بیوی نے جلدی سے کہا ’’ ہمیں بہت سار ے پیسے چاہئے۔اتنے پیسے کہ ہمیں زندگی بھر کوئی کام نہ کرنا پڑے‘‘۔

 یہ سن کر پری نے کہا کہ ’’تم دونوں اپنے گھر جاؤ اور گھر میں داخل ہونے سے پہلے آنکھیں بند کرلینا،جب گھر کے اندر قدم رکھ لو تب آنکھیں کھولنا۔وہ دونوں خوشی خوشی گھر کی جانب چل پڑے ۔گھر میں داخل ہو کر انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی، کیونکہ پری نے ان کی پہلی خواہش پوری کر دی تھی اور ان کے سامنے بے شمار دولت پڑی تھی۔ لالچی عورت پھر بھی بہت افسرد ہ ہو کر بولی کہ ’’ہم نے اس سے صرف پیسے مانگے ہیں ، بہت بڑاشہر والا گھر توہمارے پاس اب بھی نہیں ہے‘‘۔

 دوسرے دن جب پری تالاب کے کنارے پہنچی تو میاں بیوی اس کا پہلے سے انتظار کر رہے تھے۔جب بیوی نے پری کو دیکھا تو وہ خوشی سے جھوم اٹھی اور پری کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کہا کہ ہمیں آج ایک بہت بڑا گھر چاہئے۔پری نے پھر وہی بات دُہرائی کہ اپنے گھر جا کر آنکھیں بند کر لو ۔وہ دونوں واپس لوٹے اور گھر میں داخل ہونے سے پہلے آنکھیں بند کر لیں، کچھ دیر بعد آنکھیںکھولیں تو انہوں نے اپنے آپ کو ایک بہت خوبصورت اور بڑے گھر میں پایاجو کہ محل سے کم نہ تھا۔ تیسرے دن جب پری آئی تو اس نے کہا کہ تم لوگ اپنی تیسری خواہش بھی بتا دو تا کہ میں اپنی دنیامیں واپس چلی جاؤں۔لالچی عورت نے کافی دیر تک سوچا کہ اب کیا مانگوں ، میرے پاس تو سب کچھ ہے۔ میرے پاس تو بہت سارے پیسے اور بہت بڑا گھر ہے اس لیے اب میں پری سے کیا مانگوں۔ کافی دیر سوچ بچار کے بعد اس کے دماغ میں ایک بری خواہش نے جنم لیا اوراس نے پری سے کہا ہمارے پاس سب کچھ ہے ،آج تم ایک ایسا جادو کرو کہ ہم جب چاہیں کوئی بھی روپ دھار کر دوسروں کے سامنے جا سکیں۔

یہ سنتے ہی پری کے پر کھل گئے کیونکہ یہ ایک بری خواہش تھی۔ پری نے ان دونوں سے کہا اپنے گھر میں جا کر اپنی آنکھیں بند کر لو دونوں نے گھر جاکر اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ جب دونوں اپنی آنکھیں کھولتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں اپنے اُسی پُرانے بوسیدہ گھر میں پڑے ہیں۔ یہ دیکھ کرلالچی عورت رونے لگی کہ دھوکا ہو گیا۔ بیوی کے چلانے سے ہی اس کے میاںکو یاد آتا ہے کہ پری نے مجھے پہلے سے ہی کہا تھا کہ کوئی بری خواہش مت کرنا۔ شوہر بیوی کو ملامت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تمھاری ہی وجہ سے ہمارے پاس جو تھا وہ بھی نہ رہا۔ یہ سن کر اس کی بیوی کو بہت افسوس ہوتا ہے کہ اس نے لالچ میں آکر بری خواہش کا اظہار کیا اور پری ان دونوں کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر چلی گئی۔بیوی کے ایک غلط ارادے نے ان دونوں کو ساری زندگی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ۔

بچو! اسی لیے کہتے ہیں کہ خواہش چاہے بڑی ہویا چھوٹی لیکن بری نہ ہو۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔

الزامات لگاتے رہو،کام نہ کرو!

سندھ کی سیاست بڑی عجیب ہے، یہاں ایک دوسرے پر الزامات اور پھر جوابی الزامات کا تسلسل چلتا رہتا ہے۔ اگر نہیں چلتی تو عوام کی نہیں چلتی۔ وہ چلاتے رہیں، روتے رہیں، ان کی پکار سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ پیپلز پارٹی میں البتہ ایک صلاحیت دوسری تمام سیاسی جماعتوں سے زیادہ ہے، اور وہ یہ کہ کم از کم عوام کو بولنے کا موقع تو دیتی ہے۔ شاید وہ اس مقولے پر عمل کرتی ہے کہ بولنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے، اور عوام بھی تھک ہار کر ایک بار پھر مہنگائی اور مظالم کا سامنا کرنے کیلئے خود کو تیار کرلیتے ہیں۔ پہلے بات کرتے ہیں سیاست کی۔

خیبر پختونخوا کے دوہرے مسائل

خیبرپختونخوا اس وقت بارشوں،مہنگائی، چوری رہزنی اور بدامنی کی زد میں ہے ۔حالات ہیں کہ آئے روز بگڑتے چلے جارہے ہیں۔

بلوچستان،صوبائی کابینہ کی تشکیل کب ہو گی ؟

آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ صوبائی حکومت اور کابینہ کی تشکیل تین ہفتوں تک کردی جائے گی اور انتخابات کی وجہ سے التوا کا شکار ہونے والے منصوبوں پر کام کا آغاز کردیا جائے گا مگر دو ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود صوبے میں اب تک صوبائی اسمبلی کے تعارفی اجلاس اور وزیر اعلیٰ کے حلف اٹھانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوسکا۔

آزادکشمیر حکومت کی ایک سالہ کارکردگی

20 اپریل کو آزاد جموں وکشمیر کی اتحادی حکومت کا ایک سال مکمل ہوجائے گا۔ گزشتہ سال آزاد جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی طرف سے سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کو نا اہل قرار دیا گیا تو مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک کے ارکان نے مشترکہ طور پر چوہدری انوار الحق کو وزیر اعظم بنالیا جو اُس وقت آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے سپیکر تھے۔ حلف اٹھانے کے بعد چوہدری انوار الحق نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آزاد کشمیر میں تعمیر وترقی، اچھی حکمرانی ، میرٹ کی بالادستی اور کرپشن کے خلاف مؤثر کارروائی کی عملی کوشش کریں گے۔