حضرت خدیجہ ؓ کے بارے میں احادیث مبارکہ

تحریر : روزنامہ دنیا


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کسی پر اتنا رشک نہیں کرتی جتنا حضرت خدیجہؓ پر، حالانکہ وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پا چکی تھیں، لیکن میں آپ ﷺ کو ان کا (کثرت سے) ذکر فرماتے ہوئے سنتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو حکم فرمایا کہ خدیجہ کو موتیوں کے محل کی بشارت دے دیجیے۔

جب آپ ﷺکوئی بکری ذبح فرماتے تو اُن کی سہیلیوں کو اتنا گوشت بھیجتے جو اُنہیں کفایت کر جاتا‘‘ (یہ حدیث متفق علیہ ہے)،(صحیح بخاری، الرقم: 3605، صحیح مسلم، کتاب: فضائل الصحابۃ، باب: فضائل خدیجۃ اُم المؤمنین، الرقم: 2435، احمد بن حنبل، الرقم: 24355) 

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام آ کر عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ ﷺ! یہ خدیجہؓ ہیں جو ایک برتن لے کر آرہی ہیں جس میں سالن اور کھانے پینے کی چیزیں ہیں، جب یہ آپﷺ کے پاس آئیں تو انہیں ان کے رب کا اور میرا سلام کہیے اور انہیں جنت میں موتیوں کے محل کی بشارت دیجئے، جس میں نہ کوئی شور ہو گا اور نہ کوئی تکلیف ہو گی‘‘(متفق علیہ)، (صحیح بخاری، الرقم: 3609، صحیح مسلم، الرقم: 2432، ابن ابی شیبۃ، الرقم: 32287)

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت مریم ہیں اور (اسی طرح) اپنے زمانے کی سب سے بہترین عورت خدیجہؓ ہیں‘‘ (یہ حدیث متفق علیہ ہے)، (صحیح بخاری، الرقم: 3604، صحیح مسلم، الرقم: 2430، ابن ابی شیبۃ، الرقم:32289)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں دوسری شادی نہیں فرمائی یہاں تک کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا‘‘ (اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے)،(صحیح مسلم، الرقم: 2436، حاکم المستدرک، الرقم: 4855) 

 حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تمہارے (اتباع و اقتداء کرنے کے) لئے چار عورتیں ہی کافی ہیں۔ مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلدؓ، فاطمہؓ بنت محمد ﷺ اور فرعون کی بیوی آسیہ‘‘ (اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے)، (سنن الترمذی، کتاب: المناقب، باب: فضل خدیجۃ، 5 / 702، الرقم: 3878، احمد فی المسند، 3 / 135، الرقم: 12414، ابن حبان فی الصحیح، 15 / 464، الرقم: 7003، و الحاکم فی المستدرک، 3 / 171، الرقم: 4745)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب مکہ مکرمہ والوں نے اپنے قیدیوں کا فدیہ بھیجا تو حضرت زینب (بنت رسول اللہﷺ) نے بھی ابوالعاص کے فدیہ میں مال بھیجا جس میں حضرت خدیجہؓ کا وہ ہار بھی تھا جو انہیں (حضرت خدیجہؓ کی طرف سے) جہیز میں ملا تھا، جب ابو العاص سے ان کی شادی ہوئی تھی۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو فرط غم سے آپ ﷺ کا دل بھر آیا اور آپ ﷺ پر رقت طاری ہوگئی، فرمایا: اگر تم مناسب سمجھو تو اس (حضرت زینب) کے قیدی کو چھوڑ دیا جائے اور اس کا مال اسے واپس دے دیا جائے؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس (ابو العاص) سے عہد و پیمان لیا کہ زینب کو آنے سے نہیں روکے گا، چنانچہ رسول اللہﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ اور ایک انصاری کو بھیجا کہ تم یاجج کے مقام پر رہنا یہاں تک کہ زینب تمہارے پاس آ پہنچے۔ پس اسے ساتھ لے کر یہاں آ پہنچنا‘‘ (اس حدیث کو امام ابوداود اور احمد نے روایت کیا ہے)، (سنن ابودائود، کتاب: الجہاد، الرقم: 2692، احمد فی المسند، 6 / 276، الرقم: 26405، الطبرانی فی المعجم الکبیر، 22 / 428، الرقم: 1050.)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور نبی اکرمﷺ  کے پاس آئے، حضرت خدیجہؓ بھی اس وقت آپ ﷺ کے پاس موجود تھیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ حضرت خدیجہؓ پر سلام بھیجتا ہے۔ اس پر حضرت خدیجہؓ نے فرمایا: بیشک سلام اللہ تعالیٰ ہی ہے اور جبرائیل علیہ السلام پر سلامتی ہو اور آپﷺ پر بھی سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں‘‘(اس حدیث کو امام نسائی نے السنن الکبریٰ میں اور امام حاکم نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے)، (النسائی فی السنن الکبری، 6 / 101، الرقم: 10206، و الحاکم فی المستدرک، 3 / 206، الرقم: 4856.)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔