کیل مہاسے!خوبصورتی کے دشمن

تحریر : ڈاکٹر بلقیس


ایکنی یا کیل مہاسے قدیم اور عام جلدی بیماری ہے۔ یہ تکلیف دہ مرض عموماً آغاز جوانی میں ہارمونز میں عدم توازن کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور تیس سال کی عمر کے بعد بہت کم ہوتا ہے تاہم بعض لوگوں میں عرصہ دراز تک یہ مسئلہ رہتا ہے۔ تقریباً80فیصد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کم یا زیادہ شدت کے ساتھ ایکنی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ایکنی کو عمر کا طبعی تقاضا سمجھ کر علاج معالجہ کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو کہ قطعی غلط ہے۔ اگر ایکنی کا بروقت مناسب علاج نہ کیا جائے تو مزید پیچیدگیاں پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے۔

ایکنی کیسے بنتی ہے؟:ہماری جلد میں چکنائی پیدا کرنیوالے غدود پائے جاتے ہیں۔ یہ غدود بالوں کے فولیکل کے ساتھ پائے جاتے ہیں جو ہتھیلی اور تلوے کے سوا سارے جسم میں ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جسم کے ان دو حصوں میں پسینہ تو آتا ہے مگر چکنائی نہیں ہوتی۔ یہ غدود ایک قسم کی چکنائی پیدا کرتے ہیں۔ ایکنی یا کیل مہاسے جلد پر اس جگہ بنتے ہیں جہاں یہ چربیلے غدود محرک اور سی بم کی بہت زیادہ مقدار خارج کرتے ہیں۔ یہ آئل مردہ خلیوں کے ساتھ مل کر جلد کے مساموں کو بند کر دیتا ہے اور یہ جگہ بیکٹیریا کی نشوونما کیلئے بہت موزوں ہوتی ہے جو سوجن، سرخی اور پیپ کا باعث بنتے ہیں۔

ایکنی کی پہلی حالت میں جلد پر کالے رنگ کی تل نما چیز نمودار ہوتی ہے جو کہ حقیقت میں سی بم گلینڈ کا مواد ہوتا ہے جو جلد پر موجود مساموں کو بند کر دیتا ہے۔ جیسے جیسے ایکنی بڑھتی ہے وہ Pimplesکی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس حالت میں اگر کیلوں کو انگلیوں سے دبا کر نکالا جائے تو ایکنی اور زیادہ سوزش زدہ ہو جائے گی۔  ایکنی ختم ہو جانے پر جلد پر داغ چھوڑ جاتی ہے۔

اسباب: کیل مہاسوں کا ایک بڑا اور اہم سبب بلوغت کے آغاز پر ہار مونز پیدا کرنے والے غدودوں کی تیز سرگرمی ہے۔ اس کی دیگر وجوہات میں خرابی خون، جلد میں چکنائی کی زیادتی، ضعف ہضم، دائمی قبض، بواسیر، حفظان صحت کے اصولوں سے دوری، غذا میں بے اعتدالی جیسے گرم، مرغن، فاسٹ فوڈز، چائے، کافی اور میٹھی غذائوں کا بکثرت استعمال نیز خواتین میں علاوہ دیگر اسباب ایام حیض کی خرابی اس کے اسباب میں شامل ہیں۔ جذباتی اور ذہنی دبائو کا بھی جسمانی ہارمونی نظام سے گہرا تعلق ہے اس لئے ذہنی دبائو سے ایکنی بڑھ جاتی ہے جیسے بعض لوگوں میں امتحانات میں کیل مہاسے بڑھ جاتے ہیں۔ بعض ادویہ بھی کیل مہاسوں کا سبب بنتی ہیں اور کچھ اندرونی امراض بھی ایکنی کا باعث بنتے ہیں۔ 

علامات: ایکنی کی صورت میں جلد پر بلیک ہیڈز یا وائٹ ہیڈز، سرخ یا سفید چھوٹی چھوٹی پھنسیاں نکل آتی ہیں ۔ ان پھنسیوں کو دبانے پر ان سے پیپ جیسا مواد خارج ہوتا ہے اور اس جگہ گڑھا پڑ جاتا ہے اور آرام آنے کے بعد چہرے پر سیاہ رنگ کا داغ نمودار ہو جاتا ہے۔ایکنی کی سب سے زیادہ پائی جانیوالی قسم بلیک ہیڈز ہے جس سے متاثر ہونے والی جگہوں میں ناک، پیشانی، رخسار، ٹھوڑی، سینہ اور پشت ہے۔ 

علاج: کیل مہاسوں کے علاج کیلئے ضروری ہے کہ جسم کو ان فاسد اور زہریلے مادوں سے پاک کیا جائے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ متوازن غذا کا استعمال کیا جائے اور پانی کا استعمال زیادہ کریں۔ ثقیل، گرم اور تلی ہوئی اشیاء انڈا مچھلی اور تیز مرچ مصالحہ جات سے احتیاط کی جائے ۔ چاکلیٹ، کیک، پیسٹری، چائے، کافی، کولا مشروبات وغیرہ ایکنی کا موجب بنتے ہیں لہٰذا ان سے پرہیز کیا جائے اور زندگی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں۔

روایتی موثر طریقہ علاج:ایلوویرا جراثیم کش خصوصیت کی وجہ سے چہرے کے دانوں، کیل مہاسوں اور داغ دھبوں کو دور کرنے کیلئے اہم کردار ادا کرتی ہے چہرے پر لگانے کیلئے اس کے پتوں کو کاٹ کر گودا نکال لیں اور 15منٹ کیلئے لگائیں۔

شہد اور دارچینی میں قدرت نے ایسی خصوصیات رکھی ہیں کہ یہ ہر قسم کے بیکٹیریا کو زائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایکنی کیلئے شہد دو چمچ اور دارچینی پائوڈر ایک چمچ مکس کرکے چہرے پر لگائیں۔لہسن کو چھیل کر اس کا رس دن میں دو مرتبہ متاثرہ مقام پر لگانے سے کیل اور پھنسیاں داغ چھوڑے بغیر تحلیل ہو جاتے ہیں۔ اگر دو تریاں روزانہ نگل لی جائیں توخون صاف ہو گا ایکنی اور دیگر جلدی امراض سے نجات ملے گی۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔