شہادت حضرت سیدنا عثمان غنی ؓ
آپ ؓ کا نام عثمان، کنیت ابو عبداللہ اور ابو عمر، لقب ذوالنورین، والد کا نام عفان، والدہ کا نام ارویٰ تھا۔ سلسلہ نسب، والد کی طر ف سے یہ ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص ابن امیہ بن عبدشمس بن عبد مناف بن قصی القرشی۔ والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب یہ ہے: ارویٰ بنت کریزبن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی القرشی۔ حضرت عثمان غنی ؓ کا سلسلہ پانچویں پشت میں عبدمناف پر آنحضرت ﷺسے مل جاتا ہے۔
حضرت عثمان ؓکی نانی بیضاء ام الحکیم حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کی سگی بہن اور رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ اس لئے آپؓ ماں کی طرف سے حضرت سرور کائنات ﷺ کے قریشی رشتہ دار ہیں۔ آپؓ کو ذوالنورین (دو نوروں والا) اس لئے کہا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپؓ کے نکاح میں آئیں۔
حضرت عثمان غنی ؓعام الفیل کے چھ برس بعد پیدا ہوئے، آپ ابتدائے اسلام ہی میں ایمان لے آئے تھے۔ آپ ؓان حضرات میں سے ہیں جن کو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اسلام کی دعوت دی تھی۔ آپؓ نے اسلام کیلئے دوبار ہجرت کی۔ پہلی ہجرت حبشہ کی طرف اور دوسری مدینہ طیبہ کی جانب۔
آپؓ کی شادی قبل نبوت ،رسول اللہﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ ؓ سے ہوئی، جن کا غزوہ بدر کے موقع پرانتقال ہوا اور ان کی تیمار داری کے باعث آپؓ غزوہ میں شرکت نہیں فرما سکے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت رقیہ ؓکے انتقال کے بعد آپؓ کی شادی اپنی دوسری صاحبزادی اُم کلثوم ؓسے فرمادی۔ جن کا انتقال مدینہ منورہ میں نوہجری میں ہوا۔ سوائے حضرت عثمان ؓ کے اور کسی شخص کو یہ فخر حاصل نہیں ہے کہ یکے بعد دیگرے کسی نبی کی دو بیٹیاں عقد میں آئی ہوں ،اسی مناسبت سے آپؓ کا لقب ذوالنورین تھا۔ آپؓ اوّل مہاجرین اور عشرہ مبشرہ میں شمار ہوتے ہیں۔ آپؓ ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے قرآن شریف جمع کیا ۔
قبول اسلام اور مصائب و آلام:حضرت عثمان غنی ؓکی عمر کا چونتیسواں سال تھا کہ مکہ میں توحید کی صدا بلند ہوئی۔ گوملکی رسم ورواج اور عرب کے مذہبی تخیل کے لحاظ سے حضرت عثمان غنیؓ کیلئے یہ آواز نامانوس تھی، تاہم وہ اپنی فطرت عفت، پارسائی، دیانتداری اور راستبازی کے باعث اس داعی حق کو لبیک کہنے کیلئے بالکل تیار تھے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ ؓکی دعوت پر آپ ؓاسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوئے۔ سرور کائناتﷺ نے حضرت عثمان ؓکو دیکھ کر فرمایا ’’عثمان ؓ! خدا کی جنت قبول کر، میں تیری اور تمام خلق کی ہدایت کیلئے مبعوث ہوا ہوں‘‘۔ حضرت عثمان ؓ کا بیان ہے کہ زبان نبوت کے ان سادہ جملوں میں خدا جانے کیا تاثیر تھی کہ میںبے اختیار کلمہ شہادت پڑھنے لگا۔ (اصابہ، جلد 8، تذکرہ سعدی بنت کریز)
حضرت عثمان غنی ؓکے اسلام قبول کرنے کے بعد آپ ؓکے چچا حکم بن ابی العاص نے آپؓ کو پکڑ کر ایک کمرے میں بند کردیا اور کہا کہ تم نے آبائی مذہب ترک کرکے ایک نیا مذہب اختیار کرلیا ہے۔ جب تک تم اس نئے مذہب کو نہیں چھوڑو گے میں تمہیں آزاد نہیں کروں گا ۔ یہ سن کو حضرت عثمان غنی ؓنے فرمایا، چچا! خدا کی قسم میں مذہب اسلام کبھی نہیں چھوڑوں گا۔(سیر الصحابۃ، ج1، ص152،تاریخ الخلفاء ص337)
ہجرت ِحبشہ وہجرت ِمدینہ:مکہ میں اسلام کی روز افزوں ترقی سے مشرکین قریش کا غیظ و غضب بڑھ رہا تھا۔حضرت عثمان غنی ؓبھی عام مسلمانوں کی طرح جفاکاروںکے ظلم وستم کا نشانہ بنے۔ بالآخر خود آنحضرتﷺ کے حکم سے اپنی اہلیہ حضرت رقیہ ؓکے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ یہ پہلا قافلہ تھا جو حق و صداقت کی محبت میں وطن اور اہل وطن کو چھوڑ کر جلا وطن ہوا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ اس میری امت میں عثمان ؓ پہلا شخص ہے جو اپنے اہل و عیال کو لے کر جلا وطن ہوا‘‘(اصابہ، جلد8، تذکرہ رقیہ)۔حضرت عثمان غنی ؓاس ملک میں چند سال رہے پھر اپنے وطن مکہ واپس آ گئے۔ بعد میں مدینہ کی ہجرت کا سامان پیدا ہو گیا اور رسول اللہﷺ نے اپنے تمام اصحاب کو مدینہ کی طرف ہجرت کا ایماء فرمایا تو حضرت عثمان غنیؓبھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے اور حضرت اوس بن ثابت انصاری ؓکے مہمان ہوئے (طبقات، قسم اوّل، جزو3، ص 38)۔
بطور خلیفہ انتخاب:حضرت عمرفاروق ؓ نے زخمی ہونے کے بعد حضرت ابو طلحہؓ ، اوس بن ثابتؓ اور حضرت مقداد بن الاسود ؓکو ہدایت کی کہ حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت سعد، حضرت عبدالرحمن اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہم کو ایک مکان میں جمع کرنا اور کسی کو ان کے پاس آنے جانے نہ دینا۔ تین روز کے اندر باتفاق رائے سے اپنے میں سے کسی کو خلیفہ بنالیں اور اگر اختلاف آراء ہو تو کثرت رائے پر عمل کیا جائے۔ یوں صحابہ کرام ؓ کی باہمی مشاورت کے بعد حضرت عثمان غنیؓ کو خلیفہ منتخب کیا گیا۔
نظام خلافت:اسلامی حکومت کی ابتداء شوریٰ سے ہوئی، حضرت عمر فاروق ؓنے اسے مکمل اور منظم کیا۔ حضرت عثمان غنی ؓنے بھی اس نظام کو اپنے ابتدائی عہد میں قائم رکھا لیکن آخرمیں بنو امیہ کے استیلاء نے اس میں برہمی پیدا کر دی۔ تاہم جب کبھی آپؓ کی کسی معاملہ کی طرف توجہ دلائی جاتی تو آپؓ فوراً اس کے تدارک کی سعی ضرورکرتے، نیک مشوروں کو قبول کرنے میں تامل نہ فرماتے۔
حکام کی نگرانی:خلیفہ وقت کا سب سے اہم فرض حکام اورعمال کی نگرانی ہے ۔حضرت عثمان غنیؓاگرچہ طبعاً نہایت نرم تھے، تحمل، بردباری اور چشم پوشی آپ کا شیوہ تھا، لیکن ملکی معاملات میں انہوں نے احتساب اور نکتہ چینی کو اپنا طرز عمل بنایا۔ سعد بن ابی وقاصؓ نے بیت المال سے رقم ادھار لی جسے وہ واپس نہ کرسکے۔ حضرت عثمان غنیؓ ؓنے سختی سے باز پرس کی اور معزول کردیا۔ نگرانی کا عام طریقہ یہ تھا کہ دریافت حال کیلئے دربار خلافت سے تحقیقاتی وفودروانہ کئے جاتے تھے ،جو تمام ممالک محروسہ میں دورہ کرکے عمال کے طرز عمل اور رعایا کی حالت کا اندازہ کرتے تھے۔
ملکی نظم ونسق:فاروق اعظم ؓ نے ملکی نظم ونسق کا جودستوار العمل مرتب کیا تھا۔ حضرت عثمان غنی ؓ نے اس کو بعیٖنہ باقی رکھا اور مختلف شعبوں کے جس قدر محکمے قائم ہوچکے تھے، ان کو منظم کرکے ترقی دی۔ یہ اسی نظم ونسق کا اثر تھا کہ ملکی محاصل میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔ حضرت عمرفاروق ؓکے عہد میں مصر کا خراج 20 لاکھ دینار تھا، لیکن عہد عثمانی میں اس کی مقدار 40 لاکھ تک پہنچ گئی۔
ملکی انتظام اور رعایا کی آسائش دونوں لحاظ سے اس امر کی ضرورت تھی کہ دارالخلافہ کے تمام راستوں کو سہل اور آرام دہ بنایا جائے، چنانچہ حضرت عثمان غنی ؓ نے مدینہ کے راستہ میں جگہ جگہ پر چوکیاں، سرائیں اور چشمے تیار کروائے۔اس کے ساتھ مختصر بازار بھی بسایا گیا، نیز شیریں پانی کا ایک کنواں بنایا گیا۔
بند مہزور:خیبر کی سمت سے کبھی کبھی مدینہ میں نہایت ہی خطرناک سیلاب آیا کرتا تھا، جس سے شہر کی آبادی اورمسجد نبوی ﷺکو نقصان پہنچنے کا احتمال رہتا تھا۔اس لئے حضرت عثما ن غنیؓ نے مدینہ سے تھوڑ ے فاصلہ پر ایک بند بندھوایا اور نہر کھدوا کر سیلاب کا رخ دوسری طرف موڑ دیا۔ اس بند کا نام ’’بند مہزور‘‘ ہے۔ رفاہ عامہ کی تعمیرات میں یہ خلیفہ ثالث کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔
مسجد نبویﷺکی تعمیر و توسیع:مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر میں حضرت عثمان ذوالنورین ؓکا کردار نمایاں ہے۔ عہد نبویﷺ میں جب مسلمانوں کی کثرت کے باعث مسجد کی وسعت ناکافی ثابت ہوئی تھی تو اس کی توسیع کیلئے حضرت عثمان غنی ؓ نے قریب کا قطعہ زمین خرید کر بارگاہ نبوت میں پیش کیا تھا۔ 24 ھ میں توسیع کا ارادہ کیا لیکن مسجد کے گرد وپیش میںمکانات تھے اور لوگ انہیں چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ پانچ سال اس کشمکش میں گزر گئے۔ بالآخر 29ھ میں حضرت عثمان غنیؓ نے جمعہ کے روز ایک نہایت ہی موثر تقریر فرمائی اور نمازیوں کی کثرت اور مسجد کی تنگی کی طرف توجہ دلائی۔ اس تقریر کا اثر یہ ہوا کہ لوگوں نے خوشی سے اپنے مکانات دے دئیے۔
فوجی انتظامات:حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے عہد میں جس اصول پر فوجی نظام قائم کیا تھا، حضرت عثمان غنی ؓ نے اسے ترقی دی۔ تمام صدر مقامات میں علیحدہ مستقل افسروں کے ماتحت کردیا۔ اس عہد کے مکمل فوجی نظام کا اندازہ اس سے ہوسکتاہے کہ امیر معاویہ ؓ شام میں رومیوں کے مقابلہ کیلئے فوجی کمک کی ضرورت ہوئی تو ایران اور آرمینیہ کی فوجیں نہایت عجلت کے ساتھ بروقت پہنچ گئیں۔
مذہبی خدمات:نائب رسول اللہﷺکا سب سے اہم فرض مذہب کی خدمت اور اس کی اشاعت وتبلیغ تھا۔اس لئے حضرت عثمان ذوالنورینؓ کو اس فرض کے انجام دینے کا ہر لحظہ خیال رہتا تھا، چنانچہ جہاد میں جو قیدی گرفتار ہوکر آتے تھے ان کے سامنے خود اسلام کے محاسن بیان کرکے ان کو دین متین کی طرف دعوت دیتے تھے۔ حضرت عثمان ؓخود بالمشافہ مسائل فقہیہ بیان کرتے تھے اور عملاً اس کی تعلیم دیتے تھے۔
حضرت عثمان غنی ؓ کا سب سے زیادہ روشن کارنامہ قرآن مجید کو اختلاف وتحریف سے محفوظ کرنا اور اس کی عام اشاعت ہے۔ اختلاف قرأت پر حضرت حذیفہؓ کے توجہ دلانے پر حضرت عثمان غنیؓ نے ام المومنین حضرت حفصہؓ سے عہد صدیقی کا مرتب ومدون کیا ہوا نسخہ لے کر حضرت زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر اور سعید بن العاص رضی اللہ عنہم سے اس کی نقلیں کراکے تمام ممالک میں اس کی اشاعت کی، اور ان تمام مختلف مصاحف کو جنہیں لوگوں نے بطور خود مختلف املائوں سے لکھا تھا، صفحہ ہستی سے معدوم کردیا۔
شہادت کی تیاری:باغیوں کے محاصرہ کو چالیس دن گزر گئے تھے۔ آپؓ تک سامان خورونوش پہنچانا مشکل تھا۔ جس دن شہادت کا واقعہ پیش آیا وہ جمعہ کا دن تھا۔ آپؓ نے روزہ رکھاہوا تھا۔ اس حالت میں نیند کا غلبہ ہوگیا۔ سوکر اٹھے تو اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ رسول اللہﷺ ، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما تشریف فرماہیں اور مجھے کہہ رہے ہیں عثمانؓ جلدی کرو، ہم تمہارے ساتھ افطار کے منتظر ہیں۔ آپؓ کے گھر میں بیس غلام موجود تھے۔ ان سب کو آزاد کر دیا اور تلاوت قرآن پاک میں مصروف ہوگئے۔
حضرت عثمانؓ کی مظلومانہ شہادت: مصنف ’’ البدایہ ‘‘حضرت عثمان ؓ کی شہادت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان غنیؓ کے دروازہ پر حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہمااور کئی دوسرے حضرات پہرہ دے رہے تھے۔ باغیوں نے حملہ کیااور انہیںزخمی کر کے گھر کے اندر داخل ہو گئے۔ ایک نے پیشانی مبارک پر لوہے کی لٹھ ماری اور آپؓ زمین پر گر پڑے ۔ دوسرے نے تلوار کا وار کیا اور تیسرے نے نیزہ سے حملہ کیا۔ اسی حالت میں آپ ؓکی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ یہ عظیم حادثہ جمعہ کے دن عصر ومغرب کے درمیان 18 ذی الحجہ 35ھ کو پیش آیا۔