یادرفتگاں: ساغر صدیقی
تعارف: 1928ء میں انبالہ میں پیدا ہونے والے ساغر صدیقی کااصل نام محمد اختر تھا۔ تیرہ چودہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا ۔شروع میں قلمی نام ناصر حجازی تھا جسے بعد میں بدل کر ساغر صدیقی کر لیا۔ 1944ء میں پہلی بار امرتسر میں ہونے والے ’’آل انڈیا مشاعرہ‘‘ میںشرکت کی اور خوب پذیرائی پائی۔ اس کے بعد شاعری ساغر کیلئے وجہ شہرت کے ساتھ وسیلہ روزگار بھی بن گئی ۔تقسیمِ ہند کے بعد وہ لاہور آ گئے۔ لطیف انور گورداسپوری سے شاعری میں اصلاح لی۔ متعدد فلموں کیلئے گیت بھی لکھے۔ان کی تصانیف میں ’’زہر آرزو،غم بہار، شب آگہی، شیشہ دل، لوح جنوں، سبز گنبد، مقتل گل اورکلیات ساغر ‘‘ شامل ہیں۔ جنوری 1974ء میں وہ فالج میں مبتلا ہو گئے۔ زندگی کے آخری ایام داتا دربار کے سامنے فٹ پاتھ پر گزرے ،19 جولائی 1974ء کو اسی فٹ پاتھ پر ان کا انتقال ہوا۔ انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودہ خاک کیا گیا۔ ہر سال ان کے مزار پر عرس کا انعقاد ہوتا ہے۔
فقیر منش درویش شاعر کہلانے والے ساغر صدیقی اپنی بے رونق اور سنسان زندگی کی صفیں لپیٹ کر 19جولائی 1974ء کو اپنی شخصیت کے تمام اچھے برے نقوش ، تمام راز اور تمام اَسرار اپنے دامن میں سمیٹ کر چپ چاپ قبر کی آغوش میں جا کر سو گئے۔ قدرت نے ساغر کو ایک بہترین ذہن عطا کیا تھا، جس سے وہ ایسے لافانی شعر تخلیق کرتے تھے جو ظلمات شام میں ستارے بن کر چمکتے تھے۔ ساغر کے فکر و خیال کے یہ روشن ستارے ’’غم بہار، لوح جنوں، شیشۂ دل، شب آگہی‘‘ وغیرہ میں اب بھی جگمگا رہے ہیں اور اپنی تابانی سے مرنے والے کا نام تاابد روشن رکھیں گے۔
1928ء میں انبالہ میں پیدا ہونے والے محمد اختر (ساغرصدیقی)نے بچپن میں بدترین غربت دیکھی ۔ محلے کے ایک بزرگ نے انہیں ابتدائی تعلیم دی۔ کچھ بڑے ہوئے تو دل اپنے شہر انبالہ سے اچاٹ ہو گیا تو تیرہ چودہ برس کی عمر میںامرتسر کی راہ لی اور لکڑی کی کنگھیاں بنانے والی ایک دکان پر ملازمت کر لی ۔ اس دوران شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ شروع میں ناصر حجازی کے نام سے لکھتے تھے جسے بعد میں بدل کر ساغر صدیقی کر لیا۔ 1944ء میں انہیں پہلی بار امرتسر میں ہونے والے ’’آل انڈیا مشاعرہ‘‘ میںکسی کی وساطت سے شرکت کرنے کا موقع ملا اور وہاں انہوں نے خوب پذیرائی پائی۔ اس کے بعد شاعری ساغر کیلئے وجہ شہرت کے ساتھ ساتھ وسیلہ روزگار بھی بن گئی ۔
تقسیمِ ہند کے بعد وہ لاہور آ گئے۔ 1947ء سے 1952ء تک کا زمانہ ان کیلئے سنہرا دور ثابت ہوا۔ اسی عرصے میں کئی روزناموں، ماہوار ادبی جریدوں اور ہفتہ وار رسالوں میں ساغر کا کلام بڑے نمایاں انداز میں شائع ہوتا رہا۔ فلمی دنیا نے ساغر کی مقبولیت دیکھی تو متعدد فلمسازوں نے ان سے گیت لکھوائے، انہوں نے تقریباً35فلمی گیت لکھے ۔1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے دوران انہوں نے کچھ ترانے بھی لکھے، نعتیں بھی کہیں جو ’’سبز گنبد ‘‘ کے نام سے مجموعے کی صورت میں طبع ہوئیں۔ ساغر کی غزلوں کے 5 مجموعے ان کی زندگی میں شائع ہوئے۔ ’’زہر آرزو‘‘ 1960ء میں ، ’’غم بہار‘‘ 1964ء میں ، ’’لوح جنوں‘‘1970ء میں ، شیشہ دل ‘‘ اور ’’شب آگہی‘‘ 1972ء میں منظر عام پر آئے۔ ساغر کی وفات کے بعد ان کی غزلوں کا مجموعہ ’’مقتل گل‘‘ شائع ہوا، اس کا نام انہوں نے خود تجویز کیا تھا۔
ساغر صدیقی نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی اور ان کا کلام مقبول ہوا۔ ساغر صدیقی نے کئی شعری مجموعے تخلیق کئے۔ بنیادی طور پر وہ غزل کے شاعر تھے۔ان کی شاعری میں یاسیت اور قنوطیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، اس کے علاوہ ہمیں عصری صداقتوں کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ساغر کی شاعری میں ہمیں شعری طرز احساس تو ملتا ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ حیران کن ہے کہ انہوں نے جمالیاتی طرز احساس کو بھی برقرار رکھا۔
اپنی وفات سے تقریباً بیس بائیس برس پہلے ساغر ایک اچھے خاصے صحت مند نوجوان تھے۔ ان کی رگوں میں زندگی کا جواں خون رقص کرتا تھا۔ ان کے چہرے پر تازگی، آنکھوں میں نوراور آواز میں ایک لوچ تھا۔ وہ ہر ادبی محفل کی جان سمجھے جاتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے اپنی جان کو کچھ ایسا روگ لگا لیا کہ ان کی صحت اور جوانی برباد ہو کر رہ گئی، وہ خود کہتے ہیں!
غم فروزاں ہو گئے ہیںہر خوشی لٹنے کے بعد
کتنی دلکش ہو گئی ہے زندگی لٹنے کے بعد
1952ء کے بعد ساغر کی زندگی خراب صحبت کی بدولت ہر طرح کے نشے کا شکار ہو گئی۔ عالم مدہوشی میں بھی مشقِ سخن جاری رہتا اور ساغر غزل، نظم، قطعہ اور فلمی گیت ہر صنف سخن میں شاہکار تخلیق کرتے جاتے۔ اردو زبان کا یہ شاعر تلخی ایّام اور زمانے کی ستم ظریفی کا شکار رہا۔ اسی لیے رنج و غم، درد و الم، ناامیدی، حسرت و یاس اور دوراں کا فریب ساغر صدیقی کے کلام میں نمایاں ہے۔کہتے ہیں ساغر نشّے کیلئے رقم دینے والوں کے لیے کلام لکھ کر دینے لگے تھے جو وہ اپنے نام سے شائع کرواتے تھے۔
ساغر کے اشعار
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
اب کہاں ایسی طبیعت والے
چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
آہن کی سرخ تال پہ ہم رقص کر گئے
تقدیر تیری چال پہ ہم رقص کر گئے
پنچھی بنے تو رفعت افلاک پر اڑے
اہل زمیں کے حال پہ ہم رقص کر گئے
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجئے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجئے
منزل نہیں ہوں خضر نہیں، راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجئے
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
فقیہ شہر نے تہمت لگائی ساغر پر
یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے
یاد رکھنا ہماری تربت کو
قرض ہے تم پہ چار پھولوں کا
غم کے مجرم خوشی کے مجرم ہیں
لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں
دشمنی آپ کی عنایت ہے
ہم فقط دوستی کے مجرم ہیں
ساغر کے فلمی گیت
٭…موجیں تڑپ رہی ہیں،کنارے اداس ہیں(انوکھی داستان)
٭…میرے ٹوٹے من کی بات زمانہ کیا جانے(شالیمار)
٭…آگ من کو لگائیں نظارے،سجنوا ہمارے بسیں پردیس(باپ کا گناہ)
٭…کوئی اپنی نشانی دے گیا، دل لے گیا(دو آنسو)
٭…دل کو ملا دل دار(باغی)
٭…اب شمع اکیلی جلتی ہے، اور روٹھ گئے ہیں پروانے(غلام)
٭…چاندچمکا تھا پیپل کی اوٹ میں(انجام)
٭…محفلیں لٹ گئیں، جذبات نے دم توڑ دیا(سرفروش)
٭…دیکھے زمانہ میرا نشانہ
٭…میری زلفوں کی لٹ بڑی جادوگر