’’اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘
آج ہر مفکر دانشور اور ہر باضمیر انسان حسینی شہادت کے فیوض کے سمندر میں غرق نظر آتا ہے
شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا تھا !
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ؓ ابتدا ہیں اسماعیل ؑ
اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام کے مہینے سے ہوتا ہے اور اختتام ذوالحجہ پر جبکہ قربانیوں سے لبریز داستان حرم کی ابتدا ذوالحجہ میں ہورہی ہے اور اسے کمال ہجری سال کے آغاز محرم میں حاصل رہا ہے۔ مسلمان پہلے مہینے سے لیکر آخری مہینے تک ان قربانی کی یادگاروں کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں اور ان قربانیوں کی یاد زندہ ہونے کے طفیل اسلام کے گرد جذبوں کا ایک ایسا حصار قائم ہے جسے شیطانی قوتیں صدیوں سے جاری اپنے حملوں کے باوجود نہیں گراسکیں اور کبھی گرابھی نہیں سکتیں ۔قربانی ہی وہ جذبہ اور عمل ہے جو نہ صرف حج کے مناسک بلکہ حرمین الشریفین اور نظام الہٰی کی حفاظت کا ضامن ہے ۔ اسی لئے شہید محسن نقوی نے کہا تھا!
سامان عاقبت اسی تدبیر سے کریں
آغاز سال نو غمِ شبیرؓ سے کریں
حضرت اسماعیل ؑکی قربانی کی یاد رکھنے کا انتظام اللہ نے خود فرمایااور قربانی کی سنت کو حج کے دوران واجب عمل قرار دے دیا گیا اور امام حسین ؓکی وہ قربانی جسے مفسرین نے قربانی ابراہیم ؑو اسماعیل ؑکی تفسیرقرار دیا ہے کی یاد بھی نظام الہٰی کے تحت باقی اور جاوداں ہے کہ اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا: ’’ہم نے (اسماعیل) کا فدیہ ذبح عظیم کو قرار دیا‘‘ (سورہ الصافات: 107)۔امام حسینؓ حضرت اسماعیلؑ کے فدیہ کی صورت ذبح عظیم قرار پائے ۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے۔
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنئی ذبح عظیم آمد پسر
حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد 1384محرم گزر چکے ہیں۔ ہر محرم کے قریب آتے ہی ایسے لگتا ہے جیسے نبیﷺ کے لاڈلے نے آج ہی اسلام کے تحفظ کیلئے آج ہی مدینہ چھوڑا ہو۔ہر عاشق رسول ؐ کی آنکھوں میں اشکوں کی لڑی بندھ جاتی ہے۔ ہر صاحب درد رسول ﷺکے گھرانے کی قربانی کا ذکر سن کر ایک ولولہ ایک جذبہ ایک قوت حاصل کرتا ہے۔ امام حسین ؑ کی یاد ایک المیہ داستان نہیں بیمار اقوام کیلئے نسخہ اکسیر ہے ۔
بقولِ مولانا ابوالکلام آزاد ’’جس واقعہ نے اسلام کی دینی، سیاسی اور اجتماعی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر ڈالا ہے، وہ ان (امام حسینؓ) کی شہادت کا عظیم واقعہ ہے۔ بغیر کسی مبالغہ کے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے کسی المناک حادثہ پر نسلِ انسانی کے اس قدر آنسو نہیں بہے ہیں امام حسین ؓکے جسم خونچکاں سے دشتِ کربلا میں جس قدر خون بہا تھا، اس کے ایک ایک قطرہ کے بدلے دنیا اشک ہائے ماتم و الم کا ایک ایک سیلاب بہا چکی ہے۔‘‘
عالم اہلسنت جلال الدین سیوطیؒ سمیت تمام مفسرین نے سورہ دخان کی آیت 29کے ذیل میں لکھا کہ حضرت یحیی ؑ اور حضرت امام حسینؓ کے غم میں آسمان نے بھی خون کے آنسو بہائے ۔ اتنا ہی نہیں جتنا امام حسین ؓپرانسانوں حتیٰ کے نباتات و جمادات کے آنسو بہے اتنا ہی امام حسینؓ پر لکھا گیا، جس قدر علماء و فضلا شعراء اور اہل قلم حضرات نے کربلا کی یاد میں تاریخ کے صفحات پر روشنائی بکھیری ہے، وہ روشنائی ان آنسوئوں کے سمندر سے کسی قدر بھی کم نہیں ہے۔ امام حسینؓ کی شہادت پر جتنا لکھا گیا اور جو پڑھ کر سنایا جاتا ہے وہ ایک مکمل درس گاہ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔امام حسینؓ عزم و عمل کا استعارہ بن چکے ہیں ۔بقول مولانا ظفر علی خان !
کرتی رہے گی پیش شہادت حسین ؓکی
آزادی حیات کو یہ سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول
ہر محقق مفکر مفسر دانشور نے امام حسین ؓکی عظمت کو سلام پیش کیا ہے آپ ؓکے حق پر ہونے تائید کی ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے امام حسینؓ کو سلام پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ امام حسینؓ نے شہادت قبول کر لی، پیاس برداشت کی لیکن ظالموں کے سامنے سرنہ جھکایا۔مہاتما گاندھی کا کہنا ہے: میں نے کتاب کربلا کے مختلف صفحات پر غور کیا تو مجھ پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اگرہندوستان کو ایک فاتح ملک بنانا ہے تو ہمیں امام حسینؓ کو اپنے لیے نمونہ عمل قرار دینا ہوگا۔
امریکی مورخ واشنگٹن (Ironic Wshington ) قیام امام حسین ؓکے حوالے سے رقمطراز ہیں: عرب کی خاردار ریتلی صحرامیں تیز دھوپ کے سائے میں حسینؓ کی روح لازوال ہوگئی ۔جرمن دانشور ماربن (Monsieur Marbin) کا کہنا ہے: تاریخ بشریت میں کوئی بھی آپؓ جیسی فداکاری کا نہ آج تک مظاہرہ کرسکا ہے اور نہ کبھی کرسکے گا۔ سکاٹس فلاسفرکارلائل تھامس (Thomas Carlyle) کا کہنا ہے: حسین ؓنے اپنے کم اصحاب کے ذریعے جو کامیابی حاصل کی وہ میرے لیے حیرت کا باعث ہے۔مشہور تاریخ دان (Gibbon) کا کہنا ہے: آنے والی صدیوں میں مختلف ممالک میں واقعہ کربلا کی منظر کشی اور حسین ؓکی شہادت کی وضاحت سنگ دل ترین قارئین کے دلوں کو موم بنانے کا سبب بنے گی۔ گویا غیر مسلم بھی سمجھ رہے ہیں اور جان چکے ہیں کہ یزیدیت اگر مودی کے روپ میں ہو یا نیتن یاہوو امریکی استعمار کے روپ میں، اس کا سر جھکانے کیلئے حسینیت ہی کارگر ترین نسخہ ہے۔
آج ہر مفکر دانشور اور ہر باضمیر انسان حسینی شہادت کے فیوض کے سمندر میں غرق نطر آتا ہے ۔نبی کریم ﷺنے ام المومنین حضرت اُم سلمیٰؓ کو کربلا کی مٹی دے کر شہادت حسین ؓ کی خبر سنائی تھی تو حضرت جبرائیلؑ نے قربانی ٔاسماعیلؑ کے وقت حضرت ابراہیمؑ کے سامنے امام حسین ؓکی شہادت کا تذکرہ کیا تھا۔انہی سنتوں کے باعث ذکر حسینؓ آج بھی پوری کائنات میں باقی ہے ۔یہ ذکر انسانی طاقت و صلاحیت کوتوانائی اور طاقت بخشتا ہے ، دلوں کو سوز حریت بخشتا ہے اور کشمیر ہو یا فلسطین وہاں مائیں ہنس ہنس کر اپنے بیٹوں کو شہادت کے میدانوں میں روانہ کرتی ہیں اس کے پیچھے جو جذبہ کار فرما ہے وہ کربلا ہے ۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذکر شہادت حسینؓ امت مسلمہ کیلئے ایک نعمت اور آب حیات کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جب جب محرم کا چاند نکلے گا امام حسین ؓکا ذکر مزید تروتازہ ہو جائے گا ۔شہادت کی داستان میں مزید تاثیر پیدا ہوجا ئے گی۔ ظالموں کے سامنے حرف انکار بلند کرنے کی جرات میں مزید اضافہ ہوگا، اسلام پر مر مٹنے کا جذبہ فداکاری مزید جوان ہوتی رہے گی۔مفکرین اور مجاہدین امام حسین ؓکی بارگاہ میں یہ نذرانہ عقیدت پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
ترا کرم کہ بھرا گھر لٹا دیا تو نے
تیری عطا سے ہے لبریز آج کا سۂ دیں
سجدہ تیرا دلیل بقائے دوام ہے
جب تک خدا کا نام ہے تیر ابھی نام ہے