فراق گورکھپوری:جمالیات کا شاعر
اردو کے شاعر، ادیب اور مترجم پروفیسر رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری گورکھپور کے ایک ممتاز کائستھ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی گورکھ پر سادہ عبرت شہر کے مشہور وکیل تھے۔ اردو، فارسی اور سنسکرت کی ابتدائی تعلیم فراق نے اپنے والد سے حاصل کی۔ 1917ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا اور 1919ء میں وہ سول سروس کیلئے منتخب ہوئے۔
پروفیسر رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری اپنی زندگی کے بہت ابتدائی برسوں ہی سے ’فراق‘ تخلص اختیار کر کے شاعری کرنے لگے تھے۔ انہوں نے کچھ دن اپنے والد اور پھر کچھ دن وسیم خیر آبادی سے مشورۂ سخن کیا۔ مغربی ادب کے مطالعے کی وسعت نے انہیں رسمی غزل گوئی پر قانع نہ رہنے دیا اور بہت جلد انہوں نے اپنی راہ نکالنے کی سی کی اور اس سلسلے میں اردو، ہندی، انگریزی اور دیگر زبانوں کے کلاسیکی ادب خصوصیت کے ساتھ ہندوستانی دیو مالائی روایتوں سے استفادہ کیا اور اس طرح وہ جدید اردو غزل کے اہم ترین بنیاد گزاروں میں شمار ہو گئے۔
فراقؔ اگرچہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے لیکن ان کے کارناموں میں افسانہ، تنقید، نظم اور رباعی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے انگریزی سے بہت کامیاب تراجم بھی کئے اور جدید شاعری میں فلسفیانہ خود سوانحی نظم کی بھی طرح ڈالی۔ وہ ان شعرا میں سے ہیں جنہوں نے شعوری طور پر اردو غزل کو فارسی کے غیر ضروری اثر سے آزاد کرنے کی کوشش کی اور اس میں ہندوستانی رنگ اور فضا کو سمونے کی سعی کی۔ ان کے مجموعہ رباعیات ’’روپ‘‘ کی رباعیوں نے ہندوستانی تہذیب اور ہندوستانی روایات کو اردو شاعری کا زندہ اور تخلیقی حصہ بنا کر پیش کیا۔ حکومت ہند نے فراقؔ کو ہندوستانی ادب اور تہذیب کی خدمت کے اعتراف کے طور پر ’’پدم بھوشن‘‘ کا اعزاز عطا کیا۔ شعری مجموعے ’’گلِ نغمہ‘‘ (1959ء) پر انہیں ’’ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا ان کے اہم شعری مجموعے درج ذیل ہیں۔’’روح کائنات‘‘ (1945ء)،’’رمزو عنایات‘‘ (1946ء)، ’’روپ‘‘(رباعیات)، ’’ پچھلی رات‘‘شامل ہیں۔
پروفیسر رگھوپتی سہائے فراقؔ گورکھپوری اردو کے پہلے ادیب ہیں جنہیں 1969ء میں ’’گیان پیٹھ‘‘ انعام سے نوازا گیا۔ ان کی نثری کتابوں میں ’’اردو کی عشقیہ شاعری‘‘ خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ تنقیدی مضامین کے انتخاب ’’انداز‘‘ میں انہوں نے اردو کے بعض کلاسیکی شعرا کے کلام کا بہترین جائزہ پیش کیا ہے۔ فراق کے خطوط کا مجموعہ’’من آنم‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔
فراقؔ گورکھپوری اردو شاعری، خصوصیت سے غزل کے سفر ارتقا کی راہ میں سنگ میل کا درجہ رکھتے تھے، اور وہ آسمان ادب کے ان چند سیاروں میں سے ایک تھے جو بیسویں صدی میں فضائوں میں ابھرے اور 1970ء کی دہائی کے ابتدائی حصے میں آنکھوں سے اوجھل ہو گئے، مگر آسمان ادب اب بھی ان کی خلاقیت کی روشنی سے منور ہے اور عرصۂ دراز تک ادب کا اُفق ان کی فکرو نظر کی تاب ناکی سے روشن و تاباں رہے گا۔ اسے تاریخ ادب کا المیہ کہیے یا حادثاتی اتفاق کہ اس عہد میں آسمان ادب کے دو اور سیارے آنکھوں سے اوجھل ہوئے، یعنی جوش ملیح آبادی اورفیض احمد فیضؔ۔ ماضی قریب میں آسمان ادب کا ایک اور سیاہ آنکھوں سے اوجھل ہوا یعنی جناب سید علی سردار جعفری۔ یہ سیارے اس کہکشاں کے حصے تھے جو ترقی پسند تحریک کے حوالے سے آسمان ادب پر ابھرے تھے۔ جن میں سیکڑوں ستارے مذکورہ کہکشاں کے جزو لانیفک تھے۔ یہ کہکشاں ان سیاروں سے محروم ہو گئی ہے ۔ واضح رہے کہ ان سیاروں کا سلسلہ ہست و بود بیسویں صدی میں آسمان آدب کے سب سے بڑے سیارے علامہ اقبال ؒ سے ملتا ہے۔ بقول آل احمد سرور:
’’ہم جب اقبال، جوش، فیض اور فراق کا نام لیتے ہیں تو گویا اقدار کی اہمیت کی روایت اور تسلسل کو یاد کرتے ہیں جو مشترکہ تہذیب انسان دوستی اور زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی سے عبارت ہے، اسی روایات کے ایک در شہوار فراق بھی تھے۔ فراق کا شمار ان اہم فنکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے فن کی فضا بدلی۔ ان کی شاعری قوت ِ شفا کا مظاہر ہونے کے بجائے ایک بیدار ذہن کی پیداوار نظر آئی‘‘۔
ان کی شاعری اردو کی تمام شعری روایات کی پاس داری کے ساتھ افق فن پر جلوہ گر نظر آتی ہے۔ خود فراق کا کہنا ہے: ’’میں نے اپنی غزلوں میں یہ چاہا ہے کہ اپنے ہر اہل وطن کو ہندوستان کا اور ہندوستان کے مزاج اور روح عصر کا صحت مند تصور دے سکوں۔ میں نے چاہا ہے کہ میری شاعری اسی دھرتی کی شاعری رہے۔ یعنی یہ دھرتی بولتی ہوئی، رقص کرتی ہوئی سنائی اور دکھائی دے جو کروڑوں سال پرانی ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ اپنے آپ کو نیا کرتی رہتی ہے۔ وہ دھرتی جو سدا بہار اور سدا سہاگن ہے‘‘۔
فراق نے ہندوستان اور ہندوستان کے مزاج اور روح عصر کا صحت مند تصور دینے کیلئے ایک طرف اردو کو ہندی زبان کی لفظات اور صوتیات کا بیش بہا خزانہ عطا کیا اور دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہندی شاعری کی کلاسیکی روایات کے اثرات ان کے پورے کلام میں روح کی طرح جاری و ساری ہیں۔ ان کے شعری ذہن کی تشکیل میں ہندوستانیت اور ہندی عناصر کی فراوانی ہے۔ اظہار کی سطح پر بھی فراق نے ہندی اور سنسکرت شاعری کے تجربوں سے بھرپور استفادہ کیا ہے خصوصیت کے ساتھ فراق نے جو تشبیہات ، استعارے، علامات اور تلمیحات استعمال کی ہیں، وہ خالص ہندی شاعری سے ماخوذ ہیں۔ فراق کے خلاقانہ جوہر نے ان تشبیہات و استعارات اور علامات و تلمیحات کو نہ صرف اردو تہذیب دی بلکہ ان سے ایک فضا اور کیفیت بھی پیدا کردی جو ان کا وصف خاص تو ہے ہی، اردو شاعری کیلئے یہ خاصہ ایک اضافے کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ فراق کے اس فکری اور تخلیقی رویے کا محرک ان کا یہ نقطہ نظر رہا ہے کہ اگرچہ اردو زبان کروڑوں ہندو مسلمانوں کی مشترک زبان رہی ہے لیکن غزل ہو یا نظم، رباعی ہو یا کوئی اور صنف سخن، اس میں آغاز سے اب تک کی ہندو ثقافت اور تہذیب کا دل دھڑکتا ہوا کم ہی سنائی دیتا تھا ۔
فراقؔ ترقی پسند شاعری، ترقی پسند فکر اور نظریے کی بہترین پہچان تھے، بلکہ میرے نزدیک فراقؔ اور ترقی پسند شاعری، ترقی پسند نظریہ اور ترقی پسند تحریک مترادفات کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ اشتراکیت کے بہت پہلے حامی تھے اور بعد میں ان کی اشتراکیت پسند کی بنیاد مارکسزم قرار پایا۔ ان کی پوری شاعری جسے عرف عام میں عشقیہ شاعری کا نام دیا گیا ہے، وہ ترقی پسند جمالیات سے عبارت ہے جہاں سچائی اور خلوص کی کار فرمائی پائی جاتی ہے۔ خیالی اور افلاطونی عشق سے فراق کا کوئی تعلق نہیں۔ فراق کا پیکر جمال جو ان کی عشقیہ شاعری میں جلوہ گر نظر آتا ہے۔ فراق کے یہ اشعار اس تناظر میں بڑی معنویت کے حامل اور میرے نقطہ نظر کی تائید کرتے ہیں:
ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ، اے دوست!
ترے جمال کی رعنائیاں نکھر آئیں
یہ کھلے کھلے سے گیسو، یہ اُڑی اُڑی سی رنگت
تری صبح کہہ رہی ہے ترا رات کا فسانہ
فراق کی شاعری میں شعری جمالیات کے ساتھ سماجی جمالیات کی جلوہ سامانیاں بھی ان کے قارئین کو سحر زدہ کئے رکھتی ہیں۔ ان کی پوری شاعری، خصوصیت کے ساتھ غزل اور رباعیات میں فکر و فن کی خلاقیت کی کہکشاں ان کے قاری کی آنکھوں کو خیرہ کئے دیتی ہے۔ ان کے کمالاتِ فکر و فن کی دنیائے ادب معترف ہی نہیں بلکہ مدح خواں بھی ہے۔ ان کے اعتراف کمال کے حوالے سے حکومت ہند نے انہیں متعدد اعزازات سے نوازا ہے اور انہیں ملک و معاشرہ کا سرمایہ افتخار قرار دیا ہے ان کی عزت و توقیر سے خود لوح و قلم کی عزت و توقیر کو چار چاند لگے ہیں۔
مسلم شمیم معروف شاعر،ادیب اور معلم ہیں، آپ کی متعدد کتب شائع ہو چکی ہیں