بیگم دائی تحریک پاکستان کی گمنام مجاہدہ
تحریک پاکستان کی ایک گمنام مجاہدہ خاتون کارکن بیگم دائی تھیں، جن کا اصل نام فاطمہ بیگم تھا۔ دائی نام اس لئے پڑا کہ محلے بھر کی ماں بننے والی خواتین کی رضاکارانہ طور پر دایہ بن جاتی تھیں۔ وہ قائداعظم ؒ کی شیدائی تھیں، انگریزی سے قطعی نابلد تھیں لیکن اپنے شوہر عبدالطیف کو ضد کرکے وہاں لے جاتیں جہاں قائداعظم ؒ اجتماع سے خطاب کر رہے ہوتے۔ ایک بار قائداعظم ؒ کی تقریر سننے شوہر کے ساتھ علی گڑھ چلی گئیں۔ قائداعظم ؒ کی تقریر کے دوران جب علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ نعرے لگا رہے تھے، ان کے شوہر نے پوچھا ’’بھلی لوک! تجھے کیا سمجھ آتی ہے؟‘‘ جواباً بولیں سمجھ تو نہیں آ رہی لیکن دل گواہی دے رہا ہے کہ یہ شخص جو کہہ رہا ہے، درست کہہ رہا ہے۔
بیگم دائی اپنے خاندان میں بہادر خاتون کے طور پر معروف تھیں۔ بازار میں ہندوئوں کی دکانوں سے خریداری سے لے کر امرتسر سے لاہور تک سفر کرنے کے مرحلے میں وہ خاندان کی دیگر خواتین کے ساتھ ہوتیں جن دنوں تحریک پاکستان عروج پر تھی اور لاہور، دہلی، امرتسر میں مختصر وقفوں کے ساتھ خونی فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، بیگم دائی ایک بیمار رشتے دار کی عیادت کیلئے اپنے شوہر کے ساتھ لوہاری گیٹ لاہور پہنچ گئیں۔ واپسی پر ریلوے سٹیشن پر چند شرارتی سکھوں نے ان کے ساتھ سفر کرنے والی عورتوں کو چھیڑنے کی کوشش کی۔ بیگم دائی نے ڈنڈے کے ساتھ ان کی خوب پٹائی کی۔ وہ لاہور میں خواتین کے اس اجلاس میں شامل ہونے کے لئے امرتسر سے خاص طور پر آئیں جس نے سول سیکرٹریٹ پر پاکستان کا ہلالی پرچم لہرایا تھا۔
اس گمنام مجاہدہ نے1946ء میں امرتسر میں کانگریس کے خلاف نکالے گئے مسلم خواتین کے جلوس کی صدارت کی تھی تب ان کی عمر تقریباً پچیس سال تھی اور وہ دو بچوں محبوب اور اسلم کی ماں تھیں… ان کا بیٹا اسلم پانچ برس قبل اسلام پورہ میں انتقال کر چکا ہے۔
بیگم دائی صرف تین جماعتیں پڑھی ہوئی تھیں۔ قرآن مجید انہوں نے کمسنی ہی میں پڑھ لیا تھا تاریخ اسلام سے انہیں خصوصی رغبت تھی۔ وہ علامہ راشد الخیری کی تحریروں کی مداح تھیں۔ امرتسر میں ہندو مسلم فسادات کی آگ نے زور پکڑا تو مسلمان محلوں کو اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ کی سخت ضرورت محسوس ہوئی۔ امرتسر کے ہاتھی دروازے کے معززین نے چندہ جمع کرنے کی مہم چلائی۔ چندے کے لئے پھیلائی جانے والی جھولی جب بیگم دائی کے پاس پہنچی تو اس نے اپنا سارا زیور جس کی مالیت ان دنوں بیس ہزار تھی، جھولی میں ڈال دی۔
قیام پاکستان کے ایک ہفتہ بعد بیگم دائی جب اپنے گھر آئیں تو شہید ہونے والے مسلمانوں کی لاشیں اپنے ہاتھوں سے اٹھا لائیں اور انہیں قبرستان میانی صاحب میں سپرد خاک کیا گیا۔
لاہور کے ایک ورکر کے ہاں لوہاری گیٹ کے اندر واقع بازار سوتر منڈی میں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ اقامت پذیر ہوئیں۔ ہجرت کے بعد بھی وہ خواتین کو فیض پہنچاتی رہیں اس کا نتیجہ ہے کہ وہ جس محلے میں مقیم ہیں اس کا نام انہیں کے نام سے ’’ محلہ بیگم دائی‘‘ موسوم ہوا۔ بیگم دائی کے سسرال اردو بولتے تھے جبکہ وہ خود پنجابی تھیں، ان کے ایک دیور استاد عبدالعزیز شرم معروف شاعر تھے جن کا مجموعہ کلام ’’سچیاں گلاں‘‘ کے نام سے شائع ہو کر ناپید ہو چکا ہے۔