یادرفتگاں:خالد علیگ:جداگانہ لب ولہجہ کے شاعر
تعارف : پاکستانی مایہ ناز شاعرو صحافی خالد علیگ کا اصل نام سید خالد احمد شاہ تھا۔ وہ 1925ء میں اُتر پردیش (بھارت) میں پیدا ہوئے ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان آ گئے۔ وہ پیشہ کے اعتبار سے سِول انجینئر تھے اورملازمت کے سلسلے میں اوکاڑہ، لاہور، سکھر، میرپور خاص اور دیگر شہروں میں قیام کیا۔ 1960ء میں وہ کراچی منتقل ہو گئے اور پھر تاعمر اسی شہر میں قیام پذیر رہے۔ انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز لکھنؤ کے جریدے ’’تنویر‘‘ سے کیا تھا۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے ۔وہ ہمیشہ انجمن ترقی پسند مصنّفین کی صف اوّل میں شامل رہے۔
خالد علیگ ایک خوش گوشاعر تھے۔ وہ ہمیشہ ترقی پسند نظریہ سے وابستہ رہے۔ انہوں نے ہر دور میں مزاحمتی شاعری کی جو ان کی شناخت بن گئی۔ ان کا شعری مجموعہ غزال ’’دشت سگاں ‘‘کے نام سے اشاعت پذیر ہوا ۔ 15 اگست 2007ء کو کراچی میں ان کا انتقال ہوا۔
جو مقبولیت خالدؔ علیگ کو حاصل تھی، وہ غیر معمولی کہی جا سکتی ہے ۔خالد علیگ کا آبائی تعلق ضلع فرخ آباد، یوپی کے قصبے قائم گنج سے تھا۔ انہوں نے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کیا تھا، اسی حوالے سے’’ علیگ‘‘ اُن کے نام جزو لانیفک بن گیا اور وہ اسی نام سے جانے پہچانے گئے۔ وہ تقسیم ہند کے بعد پہلے اوکاڑہ میں قیام پذیر ہوئے، پھر لاہور میں کچھ عرصہ گزرا، لاہور کے بعد وہ سندھ منتقل ہو گئے اور پہلے نواب شاہ میں سکونت اختیار کی۔ پی ڈبلیو ڈی میں بحیثیت سول انجینئر اپنی ملازمت کے باعث سندھ کے مختلف حصوں میں رہے جن میں سکھر کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔
1960ء میں خالدؔ علیگ ملازمت ترک کر کے کراچی آ گئے اور یہیں کے ہو کر رہے گئے۔ ملازمت ترک کرنے کا سبب طبقۂ اقتدار کے خلاف اُن کا مزاحمانہ اور باغیانہ اظہار اور مظلوم عوام بالخصوص محنت کشوں کے کازسے وابستگی تھا۔ خالدؔ علیگ کو صحافت سے بھی اپنے عہد جوانی سے دلچسپی تھی ۔
اُنھوں نے بھرپور ادبی اور صحافتی زندگی گزاری،اِن دونوں میدانوں میں انہوں نے اپنے آفاقی نظریات کو پیش کرنے میں کبھی کسی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیا۔ وہ مختلف اخبارات سے منسلک رہے، جراتِ اظہار اور بے باکی کے باعث صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا اور ایک انقلابی شاعر کی حیثیت سے بھی جو شہرت و مقبولیت حاصل کی، وہ کم ہی لوگوں کے حصّے میں آئی۔انہوں نے تمام عمر اعلیٰ انسانی اقدار کو عزیز رکھا۔ اْنہیں مزاحمتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، مشکل ترین حالات سے بھی گزرے، پس ِ دیوارِ زنداں بھی گئے، لیکن پائے استقامت میں کبھی لرزش نہیں آئی۔ ہمیشہ وہی لکھا، جو دیکھا اور محسوس کیا۔ اْن کا یہ شعر دیکھیے!
حدّتِ فکر میں ہے، شعلہ افکار میں ہے
روشنی مجھ میں نہیں ہے، مرے کردار میں ہے
خالدؔ علیگ سچائی اور محبت کا پیکر تھے۔ اُن کی شخصیت اور شاعری کا خمیر انہی دونوں عناصر سے اٹھا تھا۔ وہ دوستوں سے ٹوٹ کر پیار کرتے تھے اور اُن کے دوست اُن کے دام محبت میں برضا و رغبت اسیر رہتے ہوئے فخر اور انبساط کے جذبات سے سرشار تھے۔ میں بھی اُن خوش نصیبوں میں ہوں جنہیں خالدؔ بھائی کی محبت کا امرت رس میسر رہا۔ سو میں نے اپنے ان جذبات اور احساسات کا اظہار ایک نظم میں کیا ہے جس کا پہلا بند یہ ہے:
کتاب زیست تھی جس کی محبتوں کی کتاب
ہر ایک باب تھا جس کا حدیث عشق کا باب
خلوص فکر و نظر کی وہ اک علامت تھا
وہ ایک شخص کہ تھا مکتب وفا کا نصاب
مارشل لاء کی مخالفت کی پاداش میں انہیں قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ ویسے ان کی پوری زندگی میں بروقت سچائی کے اظہار کی ایک مضبوط روایت بڑے تسلسل کے ساتھ پائی جاتی ہے، کیونکہ ان کا موقف اس ضمن میں واشگاف انداز میں اس شعر میں بیان ہوا ہے:
جب دھڑلے سے نہ کر سکتا ہو، خالدؔ! دل کی بات
کیا ضروری ہے کہ شاعر قافیے گانٹھا کرے
اُن کی آٹھ دہائیوں پر محیط زندگی ہر قسم کی مصلحت پسندی اور مصالحت آمیزی سے مبرا تھی اور یہ طرۂ امتیاز اُن کے فن کا طرۂ امتیاز ہے۔ اُن کے لہجے اور آہنگ میں بدترین آمریت کے ادوار میں بھی کبھی دھیما پن نہیں آیا۔ اُن کی شاعری میں بلند آہغنگی کا عنصر ہمیشہ غالب عنصر رہا جسے اُن کی شاعری اور فن کا وصف خاص کہنا چاہیے اور اس باب میں ان کی انفرادیت تسلیم شدہ ہے۔ اس حوالے سے یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
ادب حیات کا اندازِ خودنمائی ہے
ادب حیات کے مانند اک اکائی ہے
سمجھ سکیں اسے اے کاش اہل علم و ادب
یہ بندگی نہیں، دراصل خود خدائی ہے
مذکورۂ بالا اقتباس میں خالدؔ علیگ نے اپنی شاعری اور شخصیت کے دونوں پہلوئوں پر بڑی بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ سچائی جو ان کے فکر و شعور کا سرچشمہ تھی۔ اس سچائی کے سر چشمے سے جہاں انسانیت دوستی کے دھارے پھوٹتے تھے، وہیں ظلم و استحصال اور سماجی ناانصافی کے خلاف صدائے احتجاج و مزاحمت کی گونج بھی اُن کی شاعری میں سنائی دیتی ہے جو دلوں کو گرماتی، جدوجہد کی قندیلیں روشن کرتی اور امید کی مشعلیں جلائے رکھتی ہے۔
خالدؔ علیگ کی شاعری میں حسن و عشق کے جلوے دیکھنے کو شاید ہی ملیں، مگر محبت کے جلوے اُن کی ذات اور شاعری میں فراوانی کے ساتھ دیکھنے کو ملیں گے۔ یہ محبت اُس محبت سے مختلف نظر آئے گی جو عام طور پر اردو شاعری میں سب سے بڑے موضوع کی حیثیت سے نظر آتی ہے یعنی غمِ جاناں کے روپ میں۔ خالد علیگ کی شاعری میں یہ محبت غم انساں کی صورت میں جلوہ افروز ہوئی ہے جس کی وسعتیں اور حدود بحر بے کراں کی طرح ہیں۔
وہ تو کچھ سوز دروں وجہ فغاں بنتا ہے
ورنہ ہر شخص کی آواز کہاں سب سے جدا
خالد علیگ کا یہ منفرد اسلوب، یہ جداگانہ لب و لہجہ اور الفاظ کا دل نشیں در وبست اردو اور انگریزی ادب کے گہرے مطالعے کا ثمر ہے۔ ان کی لفظیات اور اُن کے وضع کردہ استعاروں، تراکیب اور امیجری میں اردو کی کلاسیکی شاعری کا رچائو اپنے بھرپور حسن اور بانکپن کے ساتھ موجود ہے۔ اُن کا جمال سخن جلال احساس سے ہم آمیز ہوتا ہے تو ان کے اشعار کا تاثر دو آتشہ ہو جاتا ہے۔ غزل اور نظم کے علاوہ اُن کی مقبولیت کا ایک سبب اْن کی قطعہ نگاری بھی تھی۔ان کا آخری قطعہ ملاحظہ ہو جو ان کی زندگی کا ماحاصل سمجھا جاسکتا ہے۔
دیوار بن کے ظلم کے آگے اڑے گا کون
ارباب جہل و جبر کے پیچھے پڑے گا کون
میں اپنی جنگ لڑ بھی چکا، ہار بھی چکا
اب میرے بعد میری لڑائی لڑے گا کون
مسلم شمیم معروف شاعر ہیں ، اپنی غزلوں
کے حوالے سے وہ ادبی حلقوں میں اپنا
ایک مقام رکھتے ہیں، ان کے متعدد
شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں