مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


انسانی برادری کی حیثیت سے ایک انسان پر دوسرے انسان کے کچھ حقوق و فرائض عائد ہوتے ہیںجن سے عہدہ برآ ہونا ہر مسلمان کا مذہبی فرض ہے۔ مثلاً عدل و انصاف، صداقت و سچائی ، محبت و الفت ، ہمدردی و خیر خواہی، شفقت و مہربانی اور عفو ودرگزر کا مظاہرہ کرنا اور ظلم و ستم ،جھوٹ و فریب، قہر و جبر اور تنگی وسختی سے معاشرۂ انسانی کو پاک و صاف رکھناہمارا قومی ومذہبی فرض ہے۔

چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’لوگوں سے تم اچھی بات کرو‘‘ (سورۃ البقرۃ:83)۔ یہ انسانیت کا فرض ہے جس میں کسی دین و مذہب کی تخصیص نہیں ہے تاکہ دین و مذہب اور نسل و قومیت کی اختلاف اس منصفانہ برتاؤ سے باز نہ رکھ سکے۔

 ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’ اور کسی قوم کی عداوت تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل و انصاف نہ کرو، تم عدل و انصاف کرو کہ یہ بات تقویٰ کے زیادہ قریب ہے‘‘(سورۃ المائدۃ: 8)۔ اِس آیت کی تفسیر میں علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ’’جو چیزیں شرعاً مہلک یا کسی درجہ میں مضر ہیں اُن سے بچاؤکرتے رہنے سے جو ایک خاص نورانی کیفیت انسان کے دل میں راسخ ہوجاتی ہے اُس کا نام تقویٰ ہے۔ تقویٰ کے اسبابِ قریبہ و بعیدہ بہت سے ہیں ۔ تمام اعمالِ حسنہ اور خصالِ خیر کو اُس کے اسباب میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ’’عدل وقسط‘‘ یعنی دوست و دُشمن کے ساتھ یکساں انصاف کرنا اور حق کے معاملہ میں جذباتِ محبت و عداوت سے قطعاً مغلوب نہ ہونا یہ خصلت حصولِ تقویٰ کے مؤثر ترین اور قریب ترین اسباب میں سے ہے۔ اِس لئے ’’ہو اقرب للتقویٰ‘‘ فرمایا (یعنی یہ عدل جس کا حکم دیا گیا تقویٰ سے نزدیک تر ہے) کہ اُس کی مزاولت کے بعد تقویٰ کی کیفیت بہت جلد حاصل ہوجاتی ہے۔(تفسیر عثمانی: ج 01ص 140)

 اس لئے کہ جب انسان دوسرے لوگوں کے حق میں عدل و انصاف سے کام نہیں لیتا تو پھر اُس کے دل میں اُن لوگوں کے بارے میں حسد و کینہ اور بغض و نفرت کا بیج پڑجاتا ہے اس لئے نبی اکرم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت مالک بن انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’آپس میں ایک دوسرے سے نہ بغض رکھو، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو اور نہ ہی ایک دوسرے سے منہ موڑو بلکہ آپس میں اللہ کے بندے بھائی بن کر رہو‘‘(صحیح بخاری :6065)۔اس لئے کہ جب انسان دوسرے لوگوں کے بارے میں حسد و کینہ اور بغض و نفرت کا شکار ہوتا ہے تو اُس کے دل میں اُن لوگوں کے بارے میں ظلم و ستم اور قہر و جبر کی آگ بھڑکنے لگتی ہے جس سے وہ اُن پر ظلم و ستم ڈھاتا ہے اور اُنہیں اپنے قہر و جبر سے دوچار کرتا ہے، اس لئے آنحضرت ﷺنے فرمایا: ’’جو شخص رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا‘‘یعنی جو شخص دوسرے لوگوں پر شفقت و مہربانی والا سلوک نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ بھی اُس پر رحم اور شفقت نہیں فرماتے ‘‘(صحیح بخاری:7376)۔

 صرف یہی نہیں بلکہ سرور کائنات نبی اکرم ﷺ نے تو جانوروں کے ساتھ بھی ہمدردی و خیر خواہی کا حکم فرمایا ہے اور اس پر بھی اجر و ثواب کے فضائل بتائے ہیں۔ چنانچہ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) نبی اکرم ﷺ حضرت ام مبشر انصاریہ رضی اللہ عنہا کے کھجور کے باغ میں تشریف لائے تو آپ ﷺنے اُن سے دریافت فرمایا کہ یہ کھجور کا درخت کس نے لگایا ہے؟ کیا کسی مسلمان نے لگایا ہے یا کسی کافر نے؟ تو اُنہوں نے عرض کیا (کسی کافر نے نہیں) بلکہ ایک مسلمان نے لگایا ہے تو آپﷺنے ارشاد فرمایا: ’’ جو مسلمان کوئی درخت لگائے گا یا کھیتی بوئے گا اور اُس سے کوئی انسان یاجانور کوئی چیز بھی کھائے گا تو وہ اُس کیلئے صدقہ ہو گا (صحیح بخاری: 1552)۔

 اسی طرح ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ایک شخص کا واقعہ بیان کیا ۔ جس نے ایک جانور کے ساتھ نیک سلوک کیا تھا کہ اس کو اس کے کام پر ثواب ملا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہﷺ! کیا جانوروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے میں بھی ثواب ملتا ہے؟، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’ ہر زندہ جگر والی چیزکے ساتھ نیک سلوک کرنے میں ثواب ہے‘‘(صحیح بخاری :2234)۔

ایک مرتبہ حضور ﷺنے حضرت ابوذر غفاری ؓ سے ارشاد فرمایا کہ جہاں بھی ہو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو ، برائی کے بعد بھلائی کرنا برائی کو مٹادیتا ہے اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا‘‘ (جامع ترمذی:1987) ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور پاک ﷺ نے ہمیں پانچ باتیں گنوائیں، جن میں سے ایک یہ تھی کہ: ’’ تم لوگوں کیلئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو تو تم (کامل) مسلمان بن جاؤ گے‘‘ (جامع ترمذی: 2305)۔زکوٰۃ اور واجبی صدقات و خیرات کے ساتھ اسلام نے گو مسلمان فقراء و مساکین کو ہی مخصوص قرار دیا ہے تاہم نفلی و استحبابی صدقات و خیرات میں اسلام نے غیر مسلم فقراء و مساکین کی بھی رعایت رکھی ہے۔

 حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں غیر مسلم ذمی فقراء و مساکین کے حقوق و فرائض کا خوب خیال رکھا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق ؓنے ایک نابینا بوڑھے کو دیکھا کہ وہ ایک دروازے پر کھڑے ہو کر بھیک مانگ رہا ہے، تو حضرت عمر ؓ نے جاکر پیچھے سے اُس کے بازو پر ہاتھ مارا اور پوچھا کہ تمہیں بھیک مانگنے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے؟ اُس نے کہا کہ: ’’ جزیہ ادا کرنے ، اپنی ضرورت پوری کرنے اور اپنی عمر کی وجہ سے بھیگ مانگتا ہوں‘‘ ۔ حضرت عمر ؓنے اُس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے گھر لے آئے اور اپنے گھر میں سے اس کو کچھ دیا اور پھر اس کو بیت المال کے خزانچی کے پاس یہ کہلواکر بھیجا کہ اس کو اور اس جیسے دوسرے لوگوں کو دیکھو! اللہ کی قسم! اگر ہم اس کی جوانی کی کمائی تو کھائیں لیکن اس کے بوڑھا ہونے پر اس کی مدد نہ کریں تو ہم انصاف کرنے والے نہیں ہوسکتے‘‘ (الفاروق 299)۔ 

حضورِ اقدس ﷺنے ایک یہودی خاندان کو صدقہ دیا۔ ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے دو یہودی رشتہ داروں کو تین ہزار کی مالیت کا صدقہ دیا۔ امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے غیر مسلم رشتہ دار کا قرض معاف کرنے کو ثواب کا کام بتایا ہے۔ حضرت ابومیسرہؓ، حضرت عمرو بن میمونؓ اور حضرت عمرو بن شرحبیل رحمہم اللہ صدقہ فطر سے عیسائی راہبوں کی مدد کیا کرتے تھے۔

تفاسیر میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب مذہبی اختلافات کی بناء پر غریبوں کی مدد سے کنارہ کشی کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فوراً یہ آیت  اتاردی : ’’ان کو راہ پر لے آنا آپ کے اختیار میں نہیں ، اللہ جس کو چاہتا ہے راہ پر لاتا ہے اور جو بھلائی سے خرچ کرو وہ تمہارے ہی لئے ہے‘‘ (سورۃ البقرہ: 272)یعنی جو نیک کام کرو گے اُس کا ثواب ملے گا۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک صحابی کو کسی شخص نے بکرے کی سری ہدیہ کے طور پر دی، اُنہوں نے خیال فرمایا کہ میرے فلاں ساتھی زیادہ ضرورت مند ہیںاور اُن کے گھروالے زیادہ محتاج ہیں، اس لئے اُن کے پاس بھیج دی،اُن کو ایک تیسرے صاحب کے متعلق یہی خیال پیدا ہوا اور اُ ن کے پاس بھیج دی۔غرض اس طرح سات گھروں میںپھر کر وہ سری سب سے پہلے صحابی کے گھر لوٹ آئی( کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال : ج 03،ص176)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭