کھانا کھانے کے آداب
اسلام اپنی رُوشن اور مبارک تعلیمات کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔و ضع قطع، بود و باش، رہن سہن حتیٰ کہ کھانے پینے تک کے متعلق اسلام نے انسان کو اپنی تعلیمات سے مستفید رکھاہے ۔ اسلام کی رہنمائی بہترین اور رہبری کامل ہے۔ذیل میں ہم اسلام کی انہیں مبارک تعلیمات کی رُوشنی میں کھانے پینے کے متعلق اسلامی آداب اسوۂ رسول ﷺ کی رُوشنی میں پیش کررہے ہیں:
1:۔ہمیشہ ہاتھ دھوکر دائیں ہاتھ سے کھانا پینا چاہیے ۔ حضرت ابراہیمؓ بیان کرتے ہیں کہ: ’’حضور اکرمﷺ کھانے ، پینے ، وضو اور اِن جیسے کاموں کیلئے اپنا دایاں ہاتھ استعمال کرتے تھے ‘‘(کنز العمال: 8/45)۔
2:۔ کھانا ہمیشہ اپنے سامنے سے کھانا چاہیے ، پورے برتن میں ہاتھ گھمانا اور دوسرے کے منہ کے سامنے سے کھانا ٹھیک نہیں۔ حضرت جعفر بن عبد اللہ بن حکم بن رافع ؒ کہتے ہیں کہ ’’ میں بچہ تھا، کبھی اِدھر سے کھارہا تھا ، کبھی اُدھر سے۔ حضرت حکمؓ مجھے دیکھ رہے تھے۔ اُنہوں نے فرمایا: ’’ اے لڑکے! ایسے نہ کھاؤ جیسے شیطان کھاتا ہے! حضرت نبی اکرمﷺ جب کھانا کھاتے تھے تو آپﷺ کی اُنگلیاں آپ ﷺ کے سامنے ہی رہتی تھیں‘‘(یعنی اِدھر اُدھر سے نوش نہیں فرماتے تھے ) (کنز العمال: 8/46)۔
3:۔کھانا ہمیشہ زمین پر بیٹھ کر کھانا چاہئے! لیکن اگر کبھی کرسی وغیرہ پر بیٹھ کر کھانا پڑجائے تو بھی ایسی ہیئت اختیار کرنی چاہیے کہ جیسے آدمی زمین پر بیٹھا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ : ’’حضور اکرم ﷺ زمین پر بیٹھ کر کھانا نوش فرماتے تھے ‘‘ (کنز العمال: 44/8)۔
4:۔کھانا کھانے سے پہلے پوری بسم اللہ ضرور پڑھنا چاہیے تاکہ شیطان کھانے میں شریک نہ ہو سکے۔ چنانچہ حضرت اُمیہ مخشی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’نبی کریم ﷺ نے دیکھا کہ ایک آدمی کھانا کھا رہا ہے ، اُس نے کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھی، کھانے کا بس ایک لقمہ ہی باقی رہ گیا تھا۔ جب اُسے منہ کی طرف اُٹھانے لگا تواُس نے ’’بسم اللہ اولہ وآخرہ‘‘ کہا ۔ اِس پر حضور اکرم ﷺ نے تبسم فرمایا اور کہا : ’’ اللہ کی قسم! شیطان تمہارے ساتھ کھاتا رہا، پھر جب تم نے بسم اللہ پڑھی تو جو کچھ اُس کے پیٹ میں تھا اس کی بھی اُس نے قے کر دی‘‘ (ابو داؤد ، نسائی)۔
5:۔کھانے کی برائی نہیں کرنی چاہیے! اسی طرح کھانے میں کبھی کوئی عیب اور نقص نہیں نکالنا چاہیے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں: ’’حضور اکرمﷺ کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالتے تھے‘‘(تفسیر ابن کثیر:68/2)
6:۔ کھاناہمیشہ تین اُنگلیوں سے کھانا چاہیے، اور کھانا کھانے کے بعد اُنگلیاں چاٹ لینی چاہئیں کہ یہ سنت رسول ﷺہے۔ حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں : ’’ نبی کریم ﷺ جب کھانا کھا لیتے تو اپنی تین اُنگلیاں چاٹ لیا کرتے تھے‘‘ (شمائل ترمذی) ۔
7:۔کھانے پینے میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنی چاہیے! بہت زیادہ کھانانہیں کھانا چاہیے کہ اِس سے جسم خراب اور طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے، اور نماز وغیرہ عبادات میں سستی اور کاہلی پیدا ہوجاتی ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں : ’’ بہت زیادہ کھانے پینے سے بچو کیونکہ اِس سے بدن خراب ہو جاتا ہے، کئی قسم کی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں اور نماز میں سستی آ جاتی ہے۔ لہٰذا کھانے پینے میں میانہ روی اختیار کرو! میانہ روی سے جسم زیادہ ٹھیک رہتا ہے اور اِسراف (فضول خرچی) سے انسان زیادہ دور رہتا ہے ‘‘ (کنز العمال: 8/47)۔
8:۔ غلاموں، نوکروں اور اپنے ماتحت کام کرنے والے لوگوں کو اپنے ساتھ بٹھاکر کھانا کھلانا چاہیے۔ حضرت ابو محذورہ ؓ فرماتے ہیں : ’’ میں حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں حضرت صفوان بن اُمیہ ؓ ایک پیالہ لے کر آئے اور حضرت عمر ؓ کے سامنے رکھ دیا۔ حضرت عمر ؓ نے مسکینوں کو اور آس پاس کے لوگوں کے غلاموں کو بلایا ،ان سب نے حضرت عمرؓ کے ساتھ یہ کھانا کھایا ۔ پھر حضرت عمرؓ نے بیان کیا: ’’ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں پر لعنت کرے جو اِس بات سے اعراض کرتے ہیں کہ اُن کے غلام اُن کے ساتھ کھاناکھائیں‘‘۔ حضرت صفوان ؓ نے کہا : ’’ہمیں اُن کے ساتھ کھانے سے اِنکار نہیں‘‘ (کنز العمال: 8/48) ۔
9:۔کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک مارنا مکروہ اور منع ہے۔ حضرت مسلمؓ کہتے ہیں: ’’(ایک مرتبہ) حضرت علی ؓنے پینے کی کوئی چیز منگوائی۔ میں اُن کیلئے پاس پانی کا ایک پیالہ لایا اور اُس پیالہ میں پھونک ماردی تو حضرت علی ؓ نے اُسے واپس کردیا اور فرمایا: ’’ تم پی لو!‘‘ (یعنی تمہیں اِس میں پھونک نہیں مارنی چاہیے تھی) (طبقات ابن سعد: 4/346)۔
10:۔ کھانا جس پلیٹ یا برتن میں کھایا جا رہا ہو اگر اُس میں ختم ہوجائے اور مزید کھانا لایا جائے تو نیا برتن استعمال کرنے کے بجائے پہلے سے زیر استعمال برتن میں ڈال لیا جائے۔ حضرت امام مالکؒ بیان کرتے ہیں : ’’ مجھے بتایا گیا ہے کہ حضرت ابن عمرؓنے ایک مرتبہ ’’ جُحفہ‘‘ نامی مقام پر پڑاؤ ڈالا تو ابن عامر بن کریزؒ نے اپنے نان بائی سے کہا کہ: ’’ تم اپنا کھانا حضرت ابن عمر ؓ کے پاس لے جاؤ۔‘‘وہ پیالہ لے کر گیا۔ حضرت ابن عمر ؓنے فرمایا : ’’ رکھ دو‘‘۔ وہ نان بائی دوسرا پیالہ لے کر گیا اور پہلا پیالہ اُٹھانے لگا۔ حضرت ابن عمر ؓنے کہا : ’’کیا کرنے لگے ہو؟‘‘۔ اُس نے کہا: ’’میں اِس پیالے کو اُٹھانے لگا ہوں ‘‘۔ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا: ’’ نہیں، بلکہ دوسرے پیالے میں جو کچھ ہے وہ پہلے ہی میں ڈال دو‘‘۔ چنانچہ وہ نان بائی جو بھی لاتا (حضرت ابن عمرؓ ) اُسے پہلے پیالے میں ڈلواتے۔ حضرت ابن عامر ؒ نے نان بائی غلام سے کہا: ’’ یہ تمہارے سردار حضرت ابن عمرؓ ہیں ‘‘ (حلیۃ الاولیاء: 1/301)۔