7ستمبر یوم تحفظ ختم نبوتﷺ اسلام اور پاکستان کا متفقہ آئینی فیصلہ
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانا یعنی آپﷺ کو آخری نبی اور رسول ماننا ضروری ہے۔ آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا۔ آپﷺ ہی آخری نبی ہیں۔ اسلام میں عقیدہ ختم نبوت اساسی اور بنیادی حیثیت رکھتا ہے جو شخص اس عقیدہ کو نہیں مانتا وہ قطعاً مسلمان کہلانے کے قابل نہیں لیکن اس اُمت میں بہت سے بدباطن اور کذابوں نے نبی کریمﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کیا اور عقل کے مارے بدبختوں نے ان کی اس بات کو مان لیا۔
برصغیر میں مرزا غلام احمد قادیانی کذاب نے دعویٰ نبوت کیا اور کچھ لوگ اس کے پیروکار بن گئے، بین الاقوامی کفریہ طاقتوں بالخصوص برطانوی سامراج کی پشت پناہی حاصل ہونے کی وجہ سے مالی طور پر مضبوط ہوئے اور لوگوں کو لالچ، دھونس دھمکی اور ورغلا کر ارتدادی مہم کو آگے بڑھانے میں مصروف ہوئے۔
ضرورت اس بات کی تھی کہ اب اس فتنے کو قانونی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے۔ اس بارے کئی تحریکیں اٹھیں اور اپنا اپنا کام کیا لیکن بعض تحریکیں بعض تاریخوں کو ’’تاریخ ‘‘ بنا دیتی ہیں، جیسے 1953ء کی تحریک ختم نبوت نے 7 ستمبر 1974ء کو تاریخ بنایا۔ اسلامیانِ پاکستان نے حصولِ آزادی وطن کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اس کلمہ کے الفاظ و معانی اور حقیقت میں رد و بدل کر سکے؟ یہاں کے مسلمان غربت، کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری اور اقتصادی بحرانوں کو سہہ سکتے ہیں لیکن اسلامی نظریات بالخصوص ناموس رسالت اور ختم نبوت جیسے عظیم الشان اور حساس موضوع پر مداہنت سے کام نہیں لے سکتے۔ اس دعوے کی ایک دلیل 7 ستمبر 1974ء کا وہ تاریخ ساز فیصلہ ہے جو عوامی طاقت نے جمہوری و سیاسی زبان سے صادر کیا۔ اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں 22 مئی 1974ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے کچھ طلبہ معلوماتی و تفریحی سفر کیلئے چناب نگر کے راستے پشاور جا رہے تھے کہ چناب نگر ریلوے سٹیشن پر قادیانیوں نے اپنا کفریہ لٹریچر تقسیم کرنے کی کوشش کی، جس پر طلبہ نے اس لٹریچر کو لینے سے انکار کیا اور ایمانی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے ختم نبوت زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے۔
29 مئی 1974ء کو طلبہ کا یہ قافلہ واپس ہونے لگا تو نشتر آباد اسٹیشن (جو کہ چناب نگر اسٹیشن سے پہلے آتا ہے) پر قادیانی اسٹیشن ماسٹر نے چناب نگر کے قادیانی اسٹیشن ماسٹر کو بتلایا کہ فلاں بوگی طلبہ کی ہے۔ چنانچہ خلافِ ضابطہ چناب نگر ریلوے سٹیشن پر گاڑی روک لی گئی، سیکڑوں مسلح افراد جس میں قادیانیوں کے قصر خلافت کے معتمدین، تعلیم الاسلام کالج کے طلباء، اساتذہ اور بعض قادیانی دکانداروں نے لاٹھیوں، سریوں، ہاکیوں، کلہاڑیوں اور برچھیوں کے ساتھ حملہ کر کے 30 نہتے طلبہ کو شدید زخمی کر دیا۔ اس واقعہ کا پورے ملک میں زبردست ردِعمل ہوا۔ 30 مئی1974ء کو لاہور اور دیگر شہروں میں ہڑتال ہوئی۔ 31 مئی 1974ء کو اس سانحے کی تحقیقات کیلئے صمدانی ٹربیونل کا قیام عمل میں آیا۔ 3 جون 1974ء کو مجلس عمل کا پہلا اجلاس راولپنڈی میں منعقد ہوا۔ 9 جون1974ء کو مجلس عمل کا کنوینئر لاہور میں مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کو مقرر کیا گیا۔ 13 جون1974ء کووزیر اعظم نے مسئلہ قومی اسمبلی کے سپرد کیا۔ 16 جون 1974ء کو مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا فیصل آباد میں اجلاس ہوا جس میں حضرت بنوریؒ کو امیر منتخب کیا گیا۔
30 جون 1974ء کو قومی اسمبلی میں ایک متفقہ قراردادپیش ہوئی جس پر غور کیلئے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی میں تبدیل کردیا گیا۔ 5اگست سے23 اگست1974ء تک مرزا ناصر پر قومی اسمبلی میں جرح ہوئی۔ 20 اگست 1974ء کوصمدانی ٹربیونل نے اپنی رپورٹ سانحہ ربوہ کے متعلق وزیر اعلیٰ کو پیش کی۔ 22 اگست 1974ء کو رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی گئی۔ 24 اگست1974ء کو وزیر اعظم نے فیصلہ کیلئے 7 ستمبر کی تاریخ مقرر کی۔ 27، 28 اگست 1974ء کو لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح ہوئی۔ یکم ستمبر 1974ء کو لاہور باد شاہی مسجد میں ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی۔ 5، 6 ستمبر 1974ء کو اٹارنی جنرل نے قومی اسمبلی میں عمومی بحث کی اور مرزائیوں پرجرح کا خلاصہ پیش کیا۔
اس ساری کارروائی میں قومی اسمبلی نے اڑھائی ماہ کے عرصے میں 28 اجلاس بلائے اور 96گھنٹوں پر مشتمل نشستیں ہوئیں۔ تمام مسالک کی مذہبی و سیاسی قیادت نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس میں کردار ادا کیا۔ مولانا مفتی محمود اور ان کے رفقاء کار نے قادیانیوں کا لٹریچر جمع کیا۔ مولانا سید محمد یوسف بنوری، مولانا محمد حیات، مولانا عبدالرحیم اشعر، مولانا تاج محمود، مولانا محمد شریف جالندھری ؒ نے قادیانی کا مذہبی و سیاسی عزائم پر مبنی لٹریچر اکٹھا کیا۔ اس محنت میں قادیانیوں کی مذہبی حصے کی ترتیب و تدوین مفتی محمد تقی عثمانی(سابق جسٹس سپریم کورٹ وفاقی شرعی عدالت) نے جبکہ سیاسی حصے کی ترتیب مولانا سمیع الحق شہیدؒ نے کی۔
7 ستمبر1974ء کو قومی اسمبلی میں دستور کی دفعہ 106 میں قادیانی و لاہوری گروپ کو اقلیتوں کی فہرست میں شامل کیا گیا اور دفعہ 260 میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا، جس میں یہ طے کیا کہ ’’ ہر فرد جو حضور ﷺ کے بعد کسی مدعی نبوت کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں‘‘۔
مرکزی وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے بل پیش کیا۔ ان کے بعد مفکر اسلام مولانا مفتی محمود قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے اٹھے اور بل کی مکمل تائید کی اور اس اقدام پر وزیر اعظم اور ارکان حزب اقتدار کو خراج تحسین پیش کیا۔ تقریبا ً پانچ بجے سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی نے قائد ایوان ذوالفقار علی بھٹو کو اظہار خیال کی دعوت دی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے آدھا گھنٹہ تقریر کی، اس کے بعد بل کی ووٹنگ کا مرحلہ شروع ہوا۔ مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کیلئے 130 ووٹ آئے اور قادیانیوں کی حمایت میں ایک ووٹ بھی نہ آیا۔ قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے یہ بل پاس کیا اور مرزائیوں کو ہمیشہ کیلئے غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔
7 ستمبر 1974 ء شام 30:7 بجے سینٹ کا اجلاس ہوا، مرکزی وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے قومی اسمبلی کا منظور شدہ بل سینٹ میں پیش کیا۔ ایوان میں دوبارہ رائے شماری ہوئی۔ قومی اسمبلی کی طرح سینٹ میں بھی سارے ووٹ مرزائیوں کے خلاف آئے۔رات 8بجے ریڈیو پاکستان نے یہ خبر نشر کی کہ مرزائیوں کو قومی اسمبلی اور سینٹ نے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا ہے۔ یوں 7ستمبر 1974ء کے سورج کے ڈوبنے کے کچھ لمحے بعد جعلی اور جھوٹی نبوت کا فتنہ بھی ڈوب گیا اورعقیدہ ختم نبوت کاماہتاب آج بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان پر اپنی کرنیں بانٹ رہا ہے اور انشا اللہ بانٹتا ہی رہے گا۔