سپریم کورٹ،نئی روایات کے ساتھ

ملک کی سب سے بڑی عدالت میں بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ نئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حلف لینے کے بعد کئی نئی روایات قائم کر دی ہیں۔ عہدہ سنبھالنے کے پہلے ہی روز اپنے اختیارات کا فیصلہ 15 رکنی فل کورٹ کے سپرد کر دیا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت تو مکمل نہ ہو سکی مگر چیف جسٹس آف پاکستان نے نئے بینچز دو سینئر ججز کے مشاورت سے تشکیل دینے شروع کر دیئے ہیں جو ایک واضح پیغام ہے کہ عدالت عظمیٰ میں ہونے والی اس تبدیلی کے بعد عدالتی معاملات اب ماضی کے برعکس چلیں گے اور صرف چیف جسٹس کی مرضی سے بینچز نہیں بنیں گے۔ نئے چیف جسٹس کی آمد کے بعد سبھی سیاسی جماعتوں نے ان کا خیر مقدم کیا اور اپنی اپنی تشریح کے مطابق عدل کے ایوان سے انصاف کی توقع کیلئے بیانات جاری کئے۔ شہباز شریف نے کہا کہ اب عدل کی روایات کا ڈنکا بجے گا تو مریم نواز نے کہا کہ امید ہے اب سے عدل کے ایوانوں میں انصاف کی واپسی ہو گی ۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھی بیان جاری کیا کہ آئین کی بالا دستی کی خاطر چیف جسٹس آف پاکستان کو مکمل تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) عدلیہ سے یہ توقع لگائے بیٹھی ہے کہ شریف خاندان بالخصوص میاں نواز شریف کے خلاف بننے والے کیسز ایک ایجنڈے کے تحت بنائے گئے تھے، اب ان کے خاتمے کا وقت آچکا ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف عدلیہ کی جانب اس لیے دیکھ رہی ہے کہ نہ صرف ان کے سربراہ کا مستقبل عدالتی فیصلوں سے جڑا ہے بلکہ ملک میں آئندہ انتخابات 90 روز کے اندر کرانے کی درخواستیں بھی سپریم کورٹ آف پاکستان پہنچ چکی ہیں۔ آنے والے چند ماہ انتہائی دلچسپ ہوں گے جب عدالتی محاذ پر ان تمام معاملات پر فیصلے ہو رہے ہوں گے۔
سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور کے آخری روز سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے ان ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا جس کے بعدسابق چھ وزرائے اعظم میاں نواز شریف، شہباز شریف، یوسف رضا گیلانی ، راجہ پرویز اشرف، شوکت عزیز اور سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے مقدمات دوبارہ کھلنے جارہے ہیں۔ مگر اس میں سب سے زیادہ مشکل صورتحال میاں نواز شریف کیلئے ہے جہاں توشہ خانہ کیس تو دوبارہ کھلے گا ہی مگر ان کے وہ کیسز جن میں انہیں سزا ہو چکی ہے میں آسان ریلیف نہیں مل سکے گا۔ اگر نیب ترامیم ختم نہ ہوتیں تو سابق وزیر اعظم کو دنوں کیسز میں ملنے والی سزائیں ختم ہو سکتی تھیں کیونکہ ان ترامیم میں آمدن سے زائد اثاثوں کی تعریف تبدیل جبکہ بارِ ثبوت ملز م کی بجائے نیب پر ڈال دیا گیا تھا۔ ایسے میں العزیزیہ اور ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کیس میں ہونے والی سزائیں اور نااہلی ختم کرانے کیلئے میاں نواز شریف کو کیس میرٹ پر لڑنا ہوگا اور واپس آکر سب سے پہلے خود کو سرنڈر کرکے عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہو گا۔ میاں نواز شریف کی لیگل ٹیم نے انہیں مطمئن کیا ہے کہ وطن واپسی پر کیس میرٹ پر لڑ کر وہ اس سے بری ہو جائیں گے۔21 اکتوبر کو میاں نواز شریف کی واپسی سے قبل ان کی حفاظتی ضمانت کیلئے بھی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور( ن) لیگ ان کی واپسی پر مینار پاکستان پر بڑے جلسے کا پلان بنا رہی ہے۔ اگر ضمانت نہیں ملتی اور میاں نواز شریف گرفتار ہو جاتے ہیں تو اس جلسے کو احتجاجی جلسے کا رنگ دے دیا جائے گا ، اس طرح (ن) لیگ اپنی انتخابی مہم کاآغاز کرے گی ۔
قانونی محاذ پر تو( ن) لیگ اپنا مقدمہ شائد جیت جائے مگر عوام کی عدالت میں جانے کیلئے اس کا اعتماد سمجھ سے بالاتر ہے۔ میاں نواز شریف نے وطن واپسی سے قبل بیانیہ بنانا شروع کر دیا ہے کہ ملک کی موجودہ صورتحال کی وجہ 2017ء میں ان کی حکومت کو ڈی ریل کرنا اور تحریک انصاف کی حکومت کو لانا تھا۔ (ن) لیگ پی ڈی ایم حکومت کے دور کی ناکامیوں کے باعث اسے اپنا دور ماننے کو تیار نہیں اور ساری ذمہ داری تحریک انصاف کی حکومت اور ان کے مبینہ سہولتی کرداروں پر ڈال رہی ہے مگر یہ سب اتنا آسان نہیں ۔ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عام شہری کسی طور بھی (ن) لیگ کا بیانیہ تسلیم کرتے نظر نہیں آتے۔ عوام کی معاشی مشکلات اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ جینا محال ہو چکا ہے، اور شہری اس معاشی صورتحال کا ذمہ دار پی ڈی ایم حکومت کو قرار دیتے ہیں۔ تحریک انصاف دور کی غلط معاشی پالیساں اپنی جگہ مگر کیا یہ درست نہیں کہ ایکسچینج ریٹ کے ساتھ جو سلوک اور مس مینجمنٹ پی ڈی ایم کے دور میں ہوئی اگر نہ ہوتی تو صورتحال اس قدر بدترنہ ہوتی؟ اسحاق ڈار اور مفتاح اسماعیل کی لڑائی ملکی معیشت کو لے بیٹھی۔ روپے کی تنزلی نے پٹرول اور بجلی سمیت ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔غیر یقینی صورتحال اتنی بڑھ گئی ہے کہ نوجوان ملک چھوڑنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ مگر پی ڈی ایم میں بیٹھی جماعتیں ملکی معیشت اور عوامی ایشوز پر ایسے گفتگو کر رہی ہیں جیسے وہ حکومت میں نہیں بلکہ اپوزیشن میں تھیں۔ ایک جانب جہاں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کیلئے اپنا تاثر درست کرنے اور مؤثر بیانیے کا چیلنج ہے وہیں پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان بھی تا حال سیاست کا حصہ ہے۔ اگرچہ چیئرمین تحریک انصاف نہ صرف نا اہل ہو چکے ہیں بلکہ ان کی رہائی بھی مستقبل قریب میں نظر نہیں آرہی ، اگران کا انتخابی نشان بیلٹ پیپر پر موجود رہا تو پی ڈی ایم جماعتوں کیلئے بڑی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ ایسے میں آسانی سے حکومت سازی کیلئے (ن) لیگ کا اعتماد حیران کن ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے اعتماد کو دیکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی یہ الزام لگا رہی ہے کہ لیول پلینگ فیلڈ کو مینج کیا جارہا ہے۔ پیپلز پارٹی کا شکوہ ہے کہ نگران حکومت میں شامل چند شخصیات کا تعلق (ن) لیگ سے ہے اور آئندہ عام انتخابات کے نتیجے میں حکومت سازی کیلئے (ن) لیگ کیلئے راہیں ہموار کی جارہی ہیں۔ اگرچہ آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال ابھی ختم نہیں ہوئی تاہم قانونی اور سیاسی چیلنجز درپیش ہونے کے باوجود میاں نواز شریف کی 21 اکتوبر کو وطن واپسی بتا رہی ہے کہ( ن) لیگ کو یقین ہے کہ آئندہ عام انتخابات اب زیادہ تاخیر کا شکار نہیں ہوں گے۔