ن۔م۔راشد کی شاعری کا اجمالی جائزہ

تحریر : محمد ارشد لئیق


تعارف: ن م راشد یکم اگست 1910ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد راجہ فضل الٰہی چشتی ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکلولز تھے۔ انھوں نے 1926ء میں میٹرک، 1928ء میں انٹر میڈیٹ اور 1930ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ انہوں نے آئی سی ایس/ پی سی ایس میں بھی قسمت آزمائی کی لیکن ناکام رہے۔ اسی عرصہ میں انہوں نے منشی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا۔ ایم اے کرنے کے بعد وہ اپنے والد کے ساتھ مختلف شہروں میں رہے اور خاصا وقت شیخوپورہ اور ملتان میں گزارا۔ 1934ء میں تاجور نجیب آبادی کے رسالہ ’’شہکار‘‘ کی ادارت کی۔ ملتان میں کمشنر کے دفتر میں بطور کلرک بھی ملازمت کی۔ 1935ء میں ان کی شادی ہوئی۔ 1939ء میں ان کا تقرر آل انڈیا ریڈیو میں بطور نیوز ایڈیٹر ہوا اور اسی سال پروگرام اسسٹنٹ بنا دیئے گئے، پھر انھیں ڈائریکٹر آف پروگرام کے عہدہ پر ترقی دے دی گئی۔ 1941ء میں ان کا تبادلہ دہلی کر دیا گیا۔1942 میں فوج میں عارضی کمیشن حاصل کر کے سمندر پار چلے گئے۔1943ء سے 1947ء تک وہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز ڈایریکٹریٹ انڈیا کے تحت عراق، ایران، مصر، سری لنکا میں رہے۔ فوج کی مدت ملازمت کے خاتمہ پر وہ آل انڈیا ریڈیو میں واپس آ گئے اور لکھنئو اسٹیشن کے ریجنل ڈائریکٹر بنا دیئے گئے۔ ملک کی تقسیم کے بعد اسی عہدہ پر وہ ریڈیو پاکستان پشاور پر مامور کئے گئے۔ ایک سال پشاور میں اور ڈیڑھ سال لاہور میں گزارا پھر 1949ء میں ان کو ریڈیو پاکستان کے صدر دفتر کراچی میں ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز بنا دیا گیا۔1950ء سے 1951ء تک پشاور اسٹیشن کے ریجنل ڈائریکٹر کے عہدہ پر کام کیا۔ 1952 میں وہ اقوام متحدہ میں شامل ہوئے اور نیو یارک، جکارتہ،کراچی اور تہران میں اقوام متحدہ کے شعبہ اطلاعات میں کام کرتے رہے۔1961ء میں بیوی کے انتقال کے بعد 1963ء میں دوسری شادی کی۔ شاعری کے علاوہ راشد کے دوسرے شوق گھڑسواری، شطرنج،کشتی رانی تھے۔ مشاعروں میں بہت کم شریک ہوتے تھے۔راشد کا انتقال 1975 میں دل کی حرکت رک جانے سے انگلینڈ میں ہوا۔ن م راشد کے چار شعری مجموعے ’’ماورا‘‘( 1942)، ’’ایران میں اجنبی‘‘ (1955)، ’’لا انسان‘‘(1969) اور ’’گماں کا ممکن‘‘ (1977) شائع ہوئے۔ ایران میں قیام کے دوران انھوں نے 80 جدید فارسی شعرا کے کلام کا ترجمہ ’’جدید فارسی شاعر‘‘ کے نام سے مرتب کیا۔ فیض نے ’’نقش فریادی‘‘ کا دیباچہ راشد سے ہی لکھوایا تھا۔

گو کہ اس میں شک نہیں کہ ن م راشداپنے ہم عصروں میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں اور اس دور کے اہم ترین شاعروں میں سے ایک ہیں۔آزاد نظم پر انہیں بھرپور دسترس حاصل تھی ، زمانی اعتبار سے بھی اور معیار کے اعتبار سے بھی۔ راشد کے بارے میں یہ تاثر ان کا مجموعہ کلام ’’لا۔انسان‘‘ کے مطالعے کے بعد قائم ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں ایک ارتقائی کیفیت بھی ہے ۔ ان کی ابتدائی شاعری یعنی ’’ماورا‘‘ کی شاعری محدود معنوں میں رومانوی ہے۔

ان کے دوسرے دور کی شاعری یعنی ’’ایران میں اجنبی‘‘ کی شاعری میں ان کے سیاسی افکار کا عکس بھی ہے۔’’ایران میں اجنبی‘‘ کا دوسرا حصہ جسے راشد نے ’’کانتو‘‘ کہا ہے اور جسے اکثر راشد کے انٹرنیشنل وژن سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، اس حصے کی بہترین نظم ’’تماشا گہِ لالہ زار‘‘ ہے جس میں ان کا رجائی نقطۂ نظر کافی نمایاں ہے۔

بنیادی طور پر راشد ایک دانش اور شاعر ہیں اور ان کے دوسرے اور تیسرے دور کی شاعری پر ان کی دانشورانہ فکر حاوی ہے۔ ان کی شاعری میں تواریخ، اساطیر، مذہبی کتابوں، دانشورانہ تصورات اور عصری صورتِ حال کے حوالے اکثر جگہ نظر آتے ہیں، جس نے کہیں کہیں ان کی شاعری کو کافی بوجھل بنا دیا ہے۔ اس کی وجہ فارسی اور عربی کے نامانوس الفاظ کی کثرت بھی ہے۔راشد نے بنی نوع انسان کی عظمت اور سربلندی کے خواب دیکھے لیکن وہ انفرادیت کے قائل اور اجتماعیت سے بیزار ہیں اور کمیونزم کو وہ ’ہمہ اوست‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ:

مجھے روسیوں کے سیاسی ہمہ اوست سے کوئی رغبت نہیں ہے مگر

ذرے ذرے میں انسان کے جوہر کی تابندگی کی تمنا ہمیشہ رہی ہے

لیکن ایسی جمہوریت کے بھی قائل نہیں جس میں صرف سرگنے جاتے ہیں لیکن سر کے اندر کیا ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ وہ ایسی مکمل آزادی کے مدح خواں ہیں جس میں انسان کی انفرادیت اور تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری ہو سکے۔ وہ ہر قسم کے توہمات، مذہبی کٹر پن، بے یقینی اور بے ہمتی کے خلاف ہیں اور انہیں مشرق کے مسائل کی بنیادی وجہ مانتے ہیں۔

راشد کی شاعری میں عشق اور جنون کی گنجائش نہیں اور جہاں کہیں انہوں نے عشق کا حوالہ دیا بھی ہے مثلاً ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ تو اس کی نوعیت رومیؔ، حافظؔ، غالبؔ اور اقبال ؒ کے عشق سے بہت مختلف ہے۔ شاعر کی حیثیت سے کہیں کہیں انہوں نے فن کی بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ 

راشد کی اکثر اہم نظموں کی طوالت بھی قاری کیلئے ایک دشوار مرحلہ بن جاتی ہے کہ تفصیلات کی بھرمار میں اس کے خیال کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے اور مرکزی خیال اپنی پوری شدت سے ابھر کر سامنے نہیں آتا۔ راشدنے جہاںاختیار سے کام لیا ہے، وہاں ان کی نظموں کی اثر انگیزی دو چند ہو گئی ہے اور اس کی سب سے تابندہ مثال ’’صبا ویراں‘‘ ہے جو سرا سر ایک Inspiredنظم ہے، جس کا شمار ان کی بہترین نظموں میں کیا جاتا ہے۔ یہ نظم المیہ احساس کی بہترین مثال ہے۔

سلیماں سربزانو اور سبا ویراں

سبا ویراں، سبا آسیب کا مسکن

سبا آلام کا انبار بے پایاں

گیارہ و سبزۂ و گل کے جہاں خالی

ہوائیں تشنۂ باراں

طیور اس دشت کے منقارِ زیر پر

تو سرمہ ورگلو انساں

سلیماں سر بزانو اور سبا ویراں

ایک طویل نظم’’دل میرے صحرا نورد پیرِ دل‘‘ جو راشد کے کلام میں ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور ان کی اہم ترین فلسفیانہ نظموں میں سے ایک ہے۔جس میں انسان اور کائنات کے بارے میں انہوں نے اپنی فکر اور ویژن کی عکاسی کی ہے اس نظم کا پورا اسٹرکچر علامتی ہے جس میں ریگ، صحرا، آگ اور جسم کلیدی استعارے ہیں۔ 

یہ تمنائوں کا بے پایاں الائو گرنہ ہو

ریگ اپنی خلوت بے نورو خودبیں میں رہے

اپنی یکتائی کی تحسیں میں رہے

اس الائو کو سدا روشن رکھو

راشد نے اپنے خوابوں اور آئیڈیلز کی وضاحت کیلئے اس بات پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ وہ کونسے تصورات ہیں جو ان کے خواب نہیں، بلکہ یہ ان لوگوں کے خواب ہیں جنہیں:

نے حوصلہ خوب ہے نے ہمت ناخوب

اور ذات سے بڑھ کر نہیں کوئی انہیں محبوب

اور ان کے خواب اس قسم کے خواب بھی نہیں کہ جو پروردہ انوار تو ہیں لیکن 

جس آگ سے اٹھتا ہے محبت کا خمیر اس کا شور گم

ہے کل کی خبر ان کو مگر خبر کی خبر گم

یہ خواب ہیں وہ جن کے لیے مرتبہ دیدۂ ترہیچ

دل ہیچ ہے، سر اتنے بھرپور ہیں کہ شرہیچ

اور آخر میں راشد نے اپنے خوابوں کی وضاحت کی ہے اور ان کی ایک خصوصیت تو یہ ہے کہ :

ہر خواب میں اجسام سے افکار کا، مفہوم سے گفتار کا پیوند

یعنی راشد نے زندگی کی عظمت اور انسان کا سربلندی کے خواب دیکھے ہیں اور اس ویژن میں انسان کو مکمل آزادی حاصل ہوگی اور وہ دور انسان کی ولادت کا ایک نیا جشن ہوگا۔ اور انسان اور کائنات کی عظمت ہر دل میں جاگزیں ہوگی اور زندگی توہمات، زوال پرستی اور مذہب کی بالادستی سے آزاد ہوگی اور انسان کا کلام مفہوم کو چھپانے کے بجائے اسے وضاحت سے پیش کرے گا۔اور اب اگر ہم اس نظم کے اوّلین مصرعے کی طرف اپنی توجہ مبذول کریں، یعنی:

’اے عشق ازل گیر و ابد تاب‘

جس میں عشق کو ازل گیر اور ابد تاب کہہ کر اس کی اہمیت اور مفہوم کو اور وسعت دی گئی ہے لیکن اس کی معنویت کو راشد ہی کے فلسفہ حیات کے پس منظر میں دیکھنا ضروری ہے اور ان کے ایک پاکستانی نقاد حمید نسیم کے اس خیال سے اتفاق ممکن نہیں، حمید نسیم کے الفاظ میں: ’’راشدؔ نے اپنے فعال جذبے کیلئے رومی، حافظ، سعدی، عرفی، میر، غالب اور اقبال ؒ کی اساسی علامت عشق کو اپنایا جو انگنت اور کثیر الجہات معانی اور تلازمات کا حامل ہے اور صدیوں کے مستقل استعمال کے بعد زندہ و توانا سمبل ہے‘‘

شعر و نغمہ فکر اور کلام کی اس مدت کا نتیجہ ایک ایسی خاموشی اور سناٹا ہے جس میں:

اس جہاں کا وقت جسے سو گیا، پتھرا گیا

جیسے کوئی ساری آوازوں کو یکسر کھا گیا

ایسی تنہائی کہ حسن نام یاد آتا نہیں

ایسا سناٹا کہ اپنا نام یاد آتا نہیں

اور ان اشعار کی خوبی تجزیے کی ضرورت سے بالاتر ہے۔اس نظم کی وسیع تر معنویت تو انسانی زندگی اور معاشرے میں شعر و نغمہ، تخیل، فکر اور کلام کی اہمیت ہے اور یہاں راشد نے انسان کے تخلیقی اور فکری اظہارات کی بربادی کا نوحہ پڑھا ہے۔اس نظم کا قریبی محرک غالباً پاکستان میں مارشل لاء کی صورتحال تھی، جس میں انسان کی آزادی اور خاص طور پر تخلیقی اظہارات کی آزادی پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کی گئی تھیں اور جن کے نفاذ کیلئے ہر قسم کے ظلم اور بربریت کو روا رکھا گیا تھا۔ اور یہ ہر باشعور اور باضمیر انسان کیلئے ناقابل برداشت تھا۔اور اس وحشیانہ صورتحال کی راشد نے نہایت دل گداز اور فنی طور پر لاجواب عکاسی کی ہے جو اپنی سچائی اور گہری معنویت کے باوصوف ہر باضمیر انسان کے دل کی آواز معلوم ہوتی ہے اور بے ضمیری کے اس منظر نامے میں ایک تخلیقی ذہن کی المناک پکار ہے۔

غم عاشقی میں گرہ کشا نہ خرد ہوئی نہ جنوں ہوا 

وہ ستم سہے کہ ہمیں رہا نہ پئے خرد نہ سر جنوں

 

تو آشنائے جذبہ الفت نہیں رہا 

دل میں ترے وہ ذوق محبت نہیں رہا 

پھر نغمہ ہائے قم تو فضا میں ہیں گونجتے 

تو ہی حریف ذوق سماعت نہیں رہا 

آئیں کہاں سے آنکھ میں آتش چکانیاں 

 دل آشنائے سوز محبت نہیں رہا 

 

گل ہائے حسن یار میں دامن کش نظر 

 

میں اب حریص گلشن جنت نہیں رہا 

 

شاید جنوں ہے مائل فرزانگی مرا 

 

میں وہ نہیں وہ عالم وحشت نہیں رہا 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔