’’HERO CITY‘‘سینٹ پیٹرز برگ

تحریر : عائشہ اکرم


سینٹ پیٹرز برگ دُنیا کے خوبصورت شہروں میں سے ایک ہے۔ یہ شہر مشہور دریائے نیوا، جو بحیرۂ بالٹک میں گرتا ہے، کے کنارے پر آباد ہے۔ انقلاب روس کے بعد 1924 ء میں اس شہر کا نام اشتراکی حکومت نے لینن گراڈرکھ دیا تھا، جو 1991 ء میں سوویت یونین کے ٹکڑے ہونے کے بعد دوبارہ سینٹ پیٹرز برگ کر دیا گیا۔

یہ عظیم شہر دو سو سال تک روس کا دارالحکومت رہا۔ انقلاب روس کے بعد 1917 ء میں ماسکو کو روس کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ یہ ماسکو کے بعد روس کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اس کی آبادی تقریباً 50 لاکھ ہے اور پورے یورپ میں استنبول، لندن اور ماسکو کے بعد چوتھا بڑا شہر ہے۔ اس کا رقبہ 1440 مربع کلو میٹر ہے۔

 اس شہر میں مشرقی اور مغربی دُنیا کی ثقافت کا ایک حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ یہ بحیرۂ بالٹک پر روس کی بہت بڑی بندرگاہ ہے۔

 دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں نے اس شہر پر قبضہ کیے رکھا جواڑھائی سال تک جاری رہا۔ اس بنا پر جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد اس شہر کو ’’HERO CITY‘‘ کے منفرد اعزاز سے نوازا گیا۔

 قطب شمالی کے قریب ہونے کی وجہ سے وسط مئی سے لے کر وسط جولائی تک تمام رات شفق نظر آتی رہتی ہے۔ اسی لیے اس کو سفید راتوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔ اس کا ٹمپریچر پورے سال میں منفی 35 اور گرمیوں کے موسم میں 34C کے درمیان رہتا ہے جبکہ دریائے نیوا کا پانی سردیوں کے موسم میں نومبر دسمبر سے اپریل تک منجمد رہتا ہے۔ 

٭…٭…٭

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

متوازن غذا ضروری ہے!

’’مما! آج کیا پکایا ہے؟‘‘ عائشہ سکول سے واپس آئی تو آتے ہی بے تابی سے پوچھا، اسے شدید بھوک لگی تھی۔

مغرور اونٹ کی کہانی

کسی جنگل میں ایک مغرور اونٹ رہتا تھا۔ اسے اپنے لمبے قد اور چال ڈھال پر بڑا ناز تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں۔ اس کا جہاں جی چاہتا منہ اْٹھا کر چلا جاتا اور سب جانوروں سے بدتمیزی کرتا رہتا۔ کوئی جانور اگر اسے چھیڑتا تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتا۔ اس کے گھر کے قریب چوہے کا بل تھا اور اونٹ کو اس چوہے سے سب سے زیادہ نفرت تھی۔ وہ اس چوہے کو نہ جانے کیا کیا القابات دیتا رہتا لیکن چوہا ہنس کے ٹال دیتا تھا۔ جنگل کے سب جانور ہی اونٹ سے اس کے تکبر کی وجہ سے تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ اسے اس کے کیے کی سزا ملے مگر ابھی تک اونٹ کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔

پہیلیاں

ہو اگر بخار کا مارا کیوں نہ چڑھے پھر اُس کا پارہ (تھرما میٹر)

بکری میری بھولی بھالی

بکری میری بھولی بھالی بکری میری بھولی بھالی کچھ تھی بھوری کچھ تھی کالی

ذرامسکرایئے

ماں : گڈو ! میں نے پلیٹ میں کیک رکھا تھا ، وہ کہاں گیا؟ گڈو : امی مجھے ڈر تھا کہ کیک کہیں بلی نہ کھا جائے ، اس لیے میں نے کھا لیا۔ ٭٭٭

کیا آ پ جانتے ہیں؟

٭:صرف کولاس (koalas) اور انسان ہی دنیا کے وہ جاندار ہیں جن کے فنگر پرنٹس ہوتے ہیں۔ ٭:آکٹوپس(octupus) کے تین دل ہوتے ہیں۔