دعاذریعہ نجات
دُعا عربی زبان کا ایک عام لفظ ہے۔ لغت میں اس کے معنی ’’پکارنا‘‘ اور مدد طلب کرنا ہیں اور اصطلاح شرع میں اپنے آپ کو انتہائی حقیر و ذلیل ،کمتر وفقیر سمجھتے ہوئے انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ اﷲرب العزت کے حضورکسی کام کے کرنے یانہ کرنے کی التجا کرنا دعا کہلاتا ہے۔
دعا اﷲ اورنبی کریم ﷺ کی نظر میں:
دعا کے بارے میں ایک آیت اور اس کے شان نزول کا ذکر کیا جا رہا ہے ،جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ کس قدر اہم عبادت ہے۔ جلیل القدر مفسر علامہ ابن کثیر ؒ اپنی سند سے نقل کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا ،کیا ہمارارب ہم سے قریب ہے کہ ہم اس سے (دعا کے وقت ) سرگوشیاں کریں یا ہمارا رب ہم سے دورہے کہ چیخ چیخ کر پکاریں؟ آپ ﷺ نے اس کی بات کاکوئی جواب نہ دیا اور خاموش رہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ’’جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں(کہ میں ان سے قریب ہوں یا دور)سومیں قریب ہوں،جب کوئی مجھ سے دعا مانگے تو دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں، لہٰذاچاہیے کہ وہ میراحکم مانیں اور مجھ پر یقین لائیں،تاکہ نیک راہ پر آئیں ‘‘۔شاید معمولی غور و فکر کے بعدہی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ایک آیت میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں سے کس قدرمحبت اور شفقت کتنے پیارے اندازمیں کیاہے کہ جب سوال اﷲکے رسولﷺ سے کیاگیاکہ اﷲ قریب ہے یادُورتو اﷲنے یہ نہیں فرمایاکہ ’’اے نبی !آپؐ فرما دیجئے بلکہ براہ راست فرمایا’’میں توقریب ہوں، کوئی پکارنے والاجب مجھے پکارتاہے تو جواب بھی دیتا ہوں تو مجھے پکارواور مجھ پر ہی ایمان لاؤ‘‘۔اسی طرح قرآن کی ایک دو نہیں، بیشمار آیات میں اﷲتعالیٰ اپنے سے مانگنے کانہ صرف حکم دیتا ہے بلکہ نہ مانگنے پر سخت ناراضگی کا اظہاربھی فرماتا ہے۔
عظمت دُعااور اس کا مقام
حضرت نعمان بن بشیر ؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا ’’دُعا عین عبادت ہے‘‘ پھر آ پﷺ نے سند کے طور پر یہ آیت پڑھی ’’تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو،میں قبول کروں گا اور تم کو دوں گا۔جو لوگ میری عبادت سے متکبرانہ روگردانی کریں گے ان کوذلیل و خوارہوکرجہنم میں جانا ہو گا‘‘ (معارف الحدیث)۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا ’’دُعا عبادت کا مغز (اصل جوہر)ہے‘‘(ترمذی)۔
حضرت ابو ہریرہ ؓفرماتے ہیں رسول اکرم ﷺنے فرمایا ’’اﷲکے یہاں کوئی عمل دعاسے زیادہ عزیزنہیں‘‘ (ترمذی) لہٰذا معلوم ہو ا کہ اﷲکے نزدیک جب یہی سب سے افضل ہے تو اﷲکے لطف وعنایت اور رحمت کو کھینچنے کی سب سے زیادہ طاقت دعا ہی میں ہے۔حضرت ابن عمرؓسے منقول ہے کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا : ’’تم میں سے جس کیلئے دُعا کا دروازہ کھل گیا اس کیلئے رحمت کے دروازے کھل گئے اور اﷲ کو دعاؤں میں سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندے اس سے عافیت کی دعاکریں‘‘ (ترمذی )۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ہی روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا ’’جو اﷲسے نہ مانگے اﷲ اس سے ناراض ہوتا ہے‘‘(ترمذی )۔یقینا رحمت وشفقت کی اس سے بڑھ کرکوئی انتہانہیں ہو سکتی۔حضرت عبد اﷲبن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا ’’اﷲسے اس کا فضل مانگو کیونکہ اﷲکویہ بات محبوب ہے کہ اس کے بندے اس سے دعاکریں اور مانگیں اور اس بات کا انتظارکرنا کہ وہ بلا اور پریشانی کواپنے کرم سے دُور فرمائے گا اعلیٰ درجے کی عبادت ہے (ترمذی) ۔درحقیقت بات یہ ہے کہ بندوں کے مقامات میں سب سے بلند عبدیت کا مقام ہے اور دعا چونکہ عبدیت کا جوہر اور خاص مظہر ہے (بشرطیکہ دعا کرتے وقت انسان کا ظاہر و باطن عبدیت میں ڈوبا ہوا ہو) اس لئے دعا کو اس قدر اہمیت دی گئی اور افضل ترین عبادت کہا گیا ہے۔ نبی کریمﷺ چونکہ اس مقام عبدیت کے امام تھے، اس لئے آپﷺ کے احوال میں سب سے غالب و صف اور حال دعا کا ہے۔ اسی وجہ سے آپﷺ کے ذریعے اُمت کو روحانی دولتوں کے جو عظیم خزانے ملے ہیں ان میں سب سے بیش قیمت خزانہ ان دعائوں کا ہے، جو مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ سے خود آپ ﷺ نے کیں یا امت کو ان کی تلقین فرمائی۔
مقبولیت اور نافعیت
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’دعا کا رآمد ہوتی ہے(ضرور فائدہ پہنچاتی ہے) ان حوادث(مصیبت اور بلائوں) میں بھی جو نازل ہو چکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، پس اے اللہ کے بندو! دعا کا خوب اہتمام کرو‘‘(معارف الحدیث) سبحان اللہ! کتنا بڑا احسان ہے اللہ کا کہ دعا کو ایسا فائدہ مند بنایا کہ اس کو مصیبتوں اور پریشانیوں کا بھی حل بنا دیا، جن کا انسان فی الحال سامنا کر رہا ہے اور ان پریشانیوں کے دور کرنے میں بھی موثر بنایا جو مستقبل میں کبھی پیش آئیں گی۔
اب دعا کی مقبولیت اور اللہ کے نزدیک اس کے مقام کے بارے میں ایک اور حدیث پڑھئے: حضرت سلمان فارسیؓ سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول اکرم ﷺے فرمایا: ’’تمہارا پروردگار بہت زیادہ حیا(شرم) اور کرم فرمانے والا ہے، ان کو اپنے بندے سے شرم آتی ہے کہ جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دعا کیلئے اٹھائے تو انہیں خالی لوٹا دے‘‘ (ابو دائود)۔ اب دعا کے مقام اور نافعیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں اس لئے نبی اکرمﷺ نے دعا کو مومن کا خاص ہتھیار فرمایا ہے اور ہر جگہ ذریعہ نجات بتایا ہے۔حضرت جابر ؓ سے روایت ہے رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ’’ کیا میں تمہیں وہ عمل بتائوں جو تمہارے دشمنوں سے تمہارا بچائو کرے اور تمہیں بھر پور روزی دلائے؟ وہ یہ ہے کہ اپنے اللہ سے دعا کیا کرور ات میں اور دن میں کیونکہ ’’دعامومن کا ہتھیار ہے‘‘۔
آداب دُعا
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا: ’’ جب اللہ سے مانگواوردعا کرو تو اس یقین کے ساتھ کرو کہ وہ ضرور قبول کرے گااور عطا فرمائے گا۔اور خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول نہیں کرتا، جس کا دل(دعا کے وقت) اللہ سے غافل اور بے پروا ہ ہو‘‘(ترمذی)۔ اگر دعا بے دھیانی سے کی جائے تو اس کی مثال ایسی ہو گی کہ ایک شخص بادشاہ کے سامنے اپنی فریاداور درخواست پیش کرتے وقت بھی کبھی آسمان کو دیکھے، کبھی زمین کوتو کیا خیال ہے کہ بادشاہ اس کی فریاد سن کر پورا کرے گایا ناراض ہوکر سزا دے گا؟۔
دعاکی قبولیت کا اہم نسخہ
انتہائی بے مروتی کی بات ہے کہ مصیبت اور پریشانی کے وقت کسی سے مدد طلب کی جائے اور اس کے سامنے فریاد کرکے اس کی ہمدردیاں حاصل کی جائیں اورخوشی کے موقع پراپنے معاون اور غم گسار کو بھول جایا جائے اور پھر جب دوبارہ مصیبت آئے تو ایک بار پھر اس کے سامنے اپنی خدمات پیش کی جائیں۔ اس لئے سرکار دو جہاں ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ’’ جوکوئی یہ چاہے کہ پریشانی کے وقت اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے تو اس کو چاہئے کہ عافیت اور خوشحالی کے زمانے میں کثرت سے دعا کیا کرے ‘‘ (الترمذی)
دعا میں جلد بازی:فطری طور پر انسان جلد باز واقع ہوا ہے اور دعا میں جلد بازی اور عجلت طلبی اور کسی کام کو جلد کروانے میں ایک عنصر حکم اور بڑائی کا ہے، جو اللہ کے سامنے سخت بے ادبی اورنادانی ہے۔حضرت ابو ہریرہ ؓسے منقول ہے کہ رسول پاک ؐنے فرمایا’’ تمہاری دعائیں (اللہ کے نزدیک) اس وقت تک قابل قبول ہوتی ہیں جب تک کہ جلدبازی سے کام نہ لیا جائے۔(جلد بازی یہ ہے ) کہ بندہ کہنے لگے کہ میں نے تو دعا کی تھی مگر وہ قبول ہی نہیں ہوئی۔‘‘ (بخاری و مسلم)ہم اکثر بزرگوں سے سنتے رہتے ہیں’’ اللہ کے یہاں دیر ہے (وہ بندے ہی کی کسی بھلائی اور مصلحت سے) اندھیر نہیں‘‘
دعا قبول کیوں نہیں ہوتی؟اب دعا کرنے والوں کی عمومی پریشانی اور ایک اہم سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ،ترجمہ:’’ تم دعا کرو، میں قبول کروں گا۔‘‘ تو اس وعدہ قبولیت کے باوجود ہماری دعا قبول کیوں نہیں ہوتی؟ کہ اللہ تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا ‘‘۔ تو اس کی چند وجوہ ہیں، جو احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔بے توجہی،عجلت پسندی،خوشحالی میں خدا کو بھول جانا، حرام چیزوں کا استعمال وغیرہ۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’ لوگو! اللہ پاک ہے اور وہ صرف پاک ہی کو قبول کرتا ہے اور اس نے اس بارے میں جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیا ہے، وہی اپنے سب مومن بندوں کو دیا ہے۔پیغمبروں کیلئے اس کا ارشاد ہے’’ اے رسولو! تم کھائو پاک اور حلال غذا اور عمل کرو صالح۔میں خوب جانتا ہوں تمہارے اعمال‘‘۔ اور اہل ایمان کو مخاطب کر کے اللہ نے فرمایاہے’’اے ایمان والو!تم ہمارے رزق سے حلال اور طیب کھائو(اور حرام سے بچو)۔ ‘‘اس کے بعد حضور اکرمؐ نے ذکر فرمایا ایک ایسے آدمی کا، جو طویل سفر کرکے (کسی مقدس مقام پر) ایسی حالت میںجاتا ہے کہ اس کے بال پراگندہ ہیں اور جسم اور کپڑوں پر گردو غبار ہے(آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر دعا کرتا ہے)یا اللہ، اے میرے پروردگار کہہ کہہ کر دعا کرتا ہے اور حالت یہ ہے اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام ہے، اس کا لباس بھی حرام ہے اور حرام غذا سے اس کی نشو و نما ہوئی ہے تواس آدمی کی دعا کیسے قبول ہوگی؟(رواہ مسلم)۔
دعا کا قبول نہ ہوناصرف اس وجہ سے ہے کہ وہ مکمل طور پر حرام چیزوں میں ڈوبا ہوا تھا،اس لئے دعا کی قبولیت اور اس میں اثر پیدا ہونے کیلئے ضروری ہے کہ حرام چیزوں سے پرہیز کیا جائے۔
ناپسندیدہ اور ممنوعہ دعائیں:جیساکہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ انسان فطری طور پرجلد باز اور بے صبرا واقع ہوا ہے،اس کا صبر اور اس کی عقل بھی کامل نہیں، اس لئے کبھی اپنی جہالت یا بے صبری سے ایسی دعائیں کر بیٹھتا ہے جو خود اس کے حق، جان و مال یا اولاد کے حق میں بری ہوتی ہیں۔ اس قسم کی تمام دعائوں سے آپ ؐنے منع فرمایا ہے۔ دی گئی چند احادیث کو غور سے پڑھئے اور نبی کریمؐ کی شفقت و رحمت کا اندازہ لگایئے۔حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا:’’ تم کبھی اپنے حق میں یا اپنی اولاد اور مال و جائیداد کے حق میں بد دعا نہ کرو، مبادا (ہو سکتا ہے) وہ وقت دعا کی قبولیت کا ہواور تمہاری وہ دعا اللہ تعالیٰ قبول فرمائے (پھر تمہیں خود اس کا نقصان برداشت کرنا پڑیگا)‘‘۔
موت کی دعا کرنامنع ہے:حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ؐنے فرمایا:’’ تم میں کوئی بھی شخص کسی سے پیش آنے والی تکلیف کی وجہ سے ہر گز موت کی تمنا نہ کرے۔‘‘اس سے زیادہ تفصیل سے دوسری جگہ ارشاد ہے:حضرت انسؓ کہتے ہیںکہ نبی کریم ؐنے فرمایا:’’ تم لوگ موت کی دعانہ کرواور نہ اس کی تمنا رکھو۔ بس اگر کوئی(پریشانی اور مصیبت کی وجہ سے موت کی) دعا کرنے پر مجبور ہی ہے، کوئی اور چارہ نظر ہی نہیں آتا، تو اللہ کے حضور میں یوں عرض کرے:’’ اے اللہ! جب تک میرے لئے زندگی بہتر ہے تومجھے زندہ رکھ اور جب میرے لئے موت بہتر ہو تو اس دنیا سے مجھے اٹھالے۔‘‘ (النسائی)
دعا قبول ہونے کا مطلب:ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اس بات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ بہت دفعہ ہمارا بچہ ہم سے کسی چیز کی ضد کرتا ہے اور اپنی فریاد کو وہ اپنے لئے سب سے بہتر خیال کرتا ہے، مگر ہم کبھی نرمی سے اسے سمجھاتے ہیں، کبھی گرمی سے منع کرتے ہیں اور زیادہ شفقت کا معاملہ کرتے ہیں تواس کی جگہ کوئی اور چیزجو بچے کے منشا حال ہو، دلا دیتے ہیں، جو اس کیلئے نقصان دہ بھی نہیں ہوتی۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی دعا مانگنے والوں کے ساتھ انتہائی شفقت کا معاملہ فرماتے ہوئے کبھی بظاہر وہ مانگی ہوئی چیز نہیں دیتے، مگرکبھی بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے، تو دیکھئے ! اللہ کا معاملہ بندوں کے بارے میں کیسا ہے۔
ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا:’’جب کوئی مومن بندہ کوئی بھی دعا کرتا ہے جس میں گناہ کی بات نہ ہو اور نہ ہی قطع رحمی ہو(رشتے ناطے کا توڑنا)تواللہ تعالیٰ اسے3 چیزوں میں سے کوئی ایک چیز ضرور دیتا ہے یا تو جو اس نے مانگا وہی چیز فوراً عطا کردی جاتی ہے یا اس کی دعا کو آخرت میں اس کیلئے ذخیرہ کر دیا جاتا ہے یا آنے والی تکلیف اس دعا کے حساب میں روک دی جاتی ہے۔‘‘صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، جب بات ایسی ہے کہ کوئی دعا بے کار نہیں جاتی تو ہم بہت زیادہ دعائیں کریں گے۔ تو رسول پاکؐ نے جواب دیا’’اللہ کے پاس اس سے بھی زیادہ (خزانے اور کرم و عنایات ) ہیں‘‘۔ (ریاض الصالحین)
اس موضوع سے متعلق ایک اور حدیث کنزالعمال جلد نمبر 2 میں مستدرک حاکم کے حوالے سے حضرت جابر ؓ سے نقل کی گئی ہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اس بندے کو جس نے دنیا میں بہت سی ایسی دعائیں کی ہوں گی جو بظاہر دنیا میں قبول نہیں ہوئی تھیں، ان دعائوں کی مد میں (بدلے میں ) جمع شدہ ذخیرہ آخرت میں جمع فرمائیں گے، تو بندے کی زبان سے نکلے گا کاش! اس کی کوئی دعا دنیا میں قبول نہ ہوئی ہوتی اور اس کا بدلہ اب ملتا۔‘‘(کنز العمال جلد 2)
٭…٭…٭