پروین شاکر کی شاعری میں فنی وفکری عناصر
موضوعات کے اعتبار سے شاعری میں کوئی نئی بات نہیں، اسلوب بیان کا نیاز انداز انہیں اوروں سے مختلف کرتا ہے
پرویز نے جب شاعری کے میدان میں قدم رکھا تو اس وقت کچھ خواتین شاعرات اپنی تخلیقی جلوے بکھیر چکی تھیں اور عوام میں مقبول عام تھیں۔ ایسے وقت میں پروین کیلئے قدم جمانا بہت ہی مشکل تھا مگر پروین نے ان سب کے درمیان اپنی انفرادیت بنائی۔ انہوں نے اپنے اسلوب اور لب و لہجے کو مختلف طرز دی جس کی وجہ سے انہیں ہم عصر شاعرات میں منفرد سمجھا گیا۔
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے ہیں
لڑکیاں بیٹھی ہیں پائوں ڈال کے
روشنی ہونے لگی تالاب میں
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
پروین کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خوبصورت اور نازک خیالات کو شاعری کے ذریعے ادا کر کے اردو ادب کے دامن کو وسیع کیا اور اس میں نئی جہت کا اضافہ بھی کیا۔ کہتی ہیں ک
وہ میرے پائوں کو چھونے جھکا تھا جس لمحے
جو مانگتا اسے دیتی امیر ایسی تھی
شاعری کیلئے فکر و جذبات میں توازن قائم رکھنا بے حد ضروری ہے۔ اگر ہم غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پیشتر شاعرات فکر سے زیادہ جذبات کو ترجیح دیتی ہیں۔ پروین کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے یہاں بھی اسی طرح کے فکر و فن ملتے ہیں۔ موضوعات کے اعتبار سے ان کی شاعری میں کوئی نئی بات نہیں ، مگر جذبات کی شدت ، اسلوب بیان کا نیاز انداز انہیں اوروں سے مختلف کرتا ہے اور یہی انداز بیان قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں مدد کرتا ہے۔ ہجر، وصال، صبح و شام ، بے وفائی کے کرتب ، شک و شبہات جیسی باتیں زیادہ تر شاعرات کے یہاں مل جاتی ہیں، مرد کا وجود ہی عورت کو اپنی ذات کا وہ خاص اور اٹوٹ حصہ ہے جس کے بغیر عورت ایک قدم بھی نہیں چلتی عورت اپنی خواہشات اور دوسرے سبھی رشتوں کی وضاحت اسی سیاق میں کرتی ہیں۔ عورتوں کے نزدیک مرد کی ذات ستم گر اور بے وفا سے زیادہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ پروین کا شعری تجربہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ مرد کے بغیر ایک قدم بھی چلنا ان کیلئے مشکل ہے۔ خواہ وہ مرد ان کا محبوب ہو یا شوہر یا پھر سرپرست۔
پروین نے احمد ندیم قاسمی کو اپنی شاعری میں ’’مہربان بادل‘‘ یعنی سرپرست کہا ہے۔ ان کی موجودگی پروین کی زندگی میں کیا مقام رکھتی تھی اس کا اندازہ ان کے ان چند اشعار سے واضح ہوجاتا ہے۔
چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خوشبو
ہوا کے ساتھ سفر کا مقابلہ ٹھہرا
وہ مہرباں سایہ دار بادل
عذاب کی رت بھی چھوڑ کر مجھ کو جا چکا تھا
دور رہ کر بھی سدا رہتی تھی
مجھ کو تھامے ہوئے باہیں اس کی
اردو ادب میں سچے نسائی محسوسات اور جذبات کی شاعری بہت کم ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اردو شاعرات نے آنکھیں بند کر کے اردو زبان میں شاعری کے مروجہ آہنگ کو اپنا لیا۔ نسائیت سے متعلق پروین کے بارے میں ذیل اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے، یہ اقتباس ’’اردو شاعری میرسے پروین شاکر تک‘‘کتاب سے ماخوذ ہے: ’’غزل کی دنیا میں پروین شاکر ایک عہد آفرین شاعرہ بن کر آئیں اور اپنی نسائی آواز، چونکا دینے والے اسلوب سے اردو شاعرات میں ہلچل مچا دی۔ پروین شاکر کی شاعری میں صنف نازک کی بے چارگی اور بے بسی کا ایسا درد بھرا ہوا ہے جو اس ہرنی کے انداز سے بھرا ہوا ہوتا ہے جو چاروں طرف سے شکاریوں سے گھر چکی اور بے چارگی اور بے بسی سے نتھنے کو رگڑ رہی ہو۔ چونکہ غزالہ کے معنی ہرنی ہوتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری میں اس صنف سخن کو غزل کہاجانے لگا‘‘(اردو شاعری میر سے پروین شاکر تک‘‘ از قاضی مشتاق احمد)
خلیق الزماں نصرت نے لکھا ہے کہ ’’پروین شاکر کی غزلوں میں نسوانیت کی وہ چیخ چھپی ہوئی ہے جو ایک غیر مطمئن روح سے ابھری ہے۔ جو ایک طرف شاخ گل ہے تو دوسری طرف تلوار بھی ہے۔ انسانی سماج کی ایک عام عورت جو رشتوں میں بندھی ہوئی ہے۔ ایک ایسی شاخ گل ہے جس پر مرجھائے ہوئے باسی پھول لٹکے ہوئے ہیں۔ ازدواجی زندگی کی ناخوشی اور عدم توازن کے سبب ان غزلوں میں نسوانی جذبات کی حقیق عکاسی تو ملتی ہے لیکن ایسی عکاسی جو ایک با اختیار صاحب وسیلہ نسائیت کا عکس ہو۔ اس کے عہدے پر فائز ایک ایسی با اختیار تلوار کی جھنکار صاف سنائی دیتی ہے جس میں رزمیے کی نہیںمرثیے کی لے پائی جاتی ہے، جنس کی ناآسودہ تڑپ کا اظہار پایا جاتا ہے‘‘(کتاب ’’اردو شاعری میرسے پروین شاکر تک‘‘)
چند اشعار ملاحظہ ہوں!
جو بادلوں سے بھی مجھ کوچھپائے رکھتا تھا
بڑھی ہے دھوپ تو بے سائیاں چھوڑ گیا
انگلیوں کو تراش دیں پھر بھی
عادتاً اس کا نام لکھیں گی
ہاتھ میرے بھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن
بند مجھ پر جب سے اس کے گھر کا دروازہ ہوا
پروین کی شاعری جذبات سے بھری ہے اور ایک چارو ناچار لڑکی کے احساسات و جذبات کی عکاس ہے۔ وہ حوصلہ مند بھی ہے اور اپنے اطراف سے باخبر بھی۔ ’’خوشبو‘ سے ’’انکار‘‘ تک کا سفر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی خط کو پورا کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔
چاند بھی میری کروٹوں کا گواہ
میرے بستر کی ہر شکن کی طرح
گھر کا دروازہ کھلا رکھا ہے
وقت مل جائے تو زحمت کرنا
اک ہنر تھا کمال تھا
اک ہنر تھا کمال تھا کیا تھا
مجھ میں تیرا جمال تھا کیا تھا
تیرے جانے پہ اب کے کچھ نہ کہا
دل میں ڈر تھا ملال تھا کیا تھا
برق نے مجھ کو کر دیا روشن
تیرا عکس جلال تھا کیا تھا
ہم تک آیا تو بہر لطف و کرم
تیرا وقت زوال تھا کیا تھا
جس نے تہہ سے مجھے اچھال دیا
ڈوبنے کا خیال تھا کیا تھا
جس پہ دل سارے عہد بھول گیا
بھولنے کا سوال تھا کیا تھا