پروین شاکر لطیف جذبات کی شاعرہ

تحریر : محمد ارشد لئیق


پوری شاعری عشق و عاشقی کے جذبات سے مختلف کیفیت کا احساس دلاتی ہے، زبان سادہ ، سلیس اور جملے پیوست ہیں

  تعارف  :

پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں،ان کے والد سید ثاقب حسین بھی شاعر تھے اور شاکر تخلص کر تے تھے۔اسی نسبت سے وہ شاکر لکھتی تھیں۔پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انتہائی کم عمری میں ہی انہوں نے شعر گوئی شروع کردی تھی۔

 انگریزی ادب اور لسانیات میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں اور 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی بی آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوم کے طورپر خدمات انجام دیں۔1990ء میں ٹرینٹی کالج (جو امریکا سے تعلق رکھتا تھا) سے تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

 1976ء میں اُن کی شادی اپنے خالہ زاد ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی اور 1978ء میں ان کا بیٹا مراد علی پیدا ہوا۔ 1987ء میں ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی۔

وہ لطیف جذبات کو لفظوں کا پیرہن دینے والی خوشبوؤں کی شاعرہ تھی۔ان کے پانچ شعری مجموعے ’’خوشبو‘‘،’’صد برگ‘‘،’’خود کلامی‘‘، ’’کف آئینہ‘‘ ہیں، بعد میں ’’ماہ تمام‘‘ کے نام سے ان کا کلیات شائع ہوا۔ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کی کتاب ’’خوشبو‘‘پرانہیں آدم جی ایوارڈ اور پھر حکومت کی طرف سے ’’پرائیڈ آف پرفارمنس ‘‘سے نوازا گیا۔

پروین شاکر اس دنیا میں صرف42سال تک رہ سکیں۔26 دسمبر 1994ء کو جب وہ اپنی کار میں دفتر جا رہی تھیں تو ایک بس نے انہیں ٹکر مار دی۔ اسلام آباد کی جس سڑک پر ان کا حادثہ ہوا، اس سڑک کو انہیں کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر انہیں کچھ اور وقت ملا ہوتا تو وہ موجودہ خواتین کے شعری سرمائے میں مزید خوشگوار اضافہ کرسکتی تھیں۔

جب ہم اردو ادب کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں شعراء کے ساتھ ساتھ شاعرات کے نام بھی ملتے ہیں جن کوپڑھے بغیر شاعری کی روایت کو نہیں سمجھا جاسکتا۔ قدیم زمانے میں شعر کہنے والی عورتیں بیگمات ،شہزادیاں اور بالا خانہ کی خواتین ہوا کرتی تھیں۔ کچھ عرصے بعد معاشرے کی عام عورتیں بھی اس صف میںشامل ہوگئیں، جنہیں معاشرے نے کافی دیر میں قبول کیا۔ خواتین نے جس طرح ادب میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا وہ قابل صد آفریں ہے۔ خواتین شاعرات نے مسائل کے ساتھ ساتھ ادبی رجحانات و رویئے کو بھی پوری طرح اپنی شاعری میں جگہ دی۔

خواتین ادب کا شعری حصہ پروین شاکر کی شاعری کے بغیر ادھورا سا معلوم ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اردو کی شاعرات میں پروین شاکر کی آوز سب سے منفرد ہے۔ پروین کی شاعری ہمارے اپنے عہد کی شاعری ہے۔ ان کے یہاں مختلف طرح کے تجربات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ شاعری کے میدان میں انہوں نے خصوصاً غزل اور نظم پر زیادہ توجہ دی۔ اس کے علاوہ پابند، آزاد اور نثر نظموں پر بھی طبع آزمائی کی۔ پروین نے اپنی تخلیق میں نئی نئی تشبیہات و استعارات لا کر اردو شاعری کے دامن کو اور وسیع کیا۔ ان کی شاعری بنیادی طور پر عشق کے جذبات و تجربات کی شاعری ہے اور دوسری بڑی خوبی ان کی اپنی انفرادیت ہے۔ پروین نے آسان اور عام فہیم زبان میں شاعری کی ، انہیں کئی زبانوں کا علم تھا۔ ان کی شاعری میں انگریزی، ہندی، عربی اور فارسی الفاظ کا استعمال اور تراکیب ملتی ہیں۔ انہوں نے غزل کی مروجہ زبان سے ہٹ کر اپنا شعری سفر شروع کیا اور غزل کی روایتی ہیئت کو برقرار رکھتے ہوئے روایتی زبان و بیان سے انحراف کیا اور اپنی ایک خاص پہچان بنائی۔ انہیں سب خوبیوں کی وجہ سے پروین ہمیشہ یاد کئے جانے کی مستحق ہیں۔

پروین کو بہت کم وقت ملا۔ وہ صرف بیالیس سال تک ہی باحیات رہیں۔اردو ادب سرمایہ میں پروین نے جو اضافہ کیا ہے وہ انہیں کا حصہ تھا۔ انفرادیت کے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو قدیم و جدید شعرا کے درمیان ایک اہم کڑی مانا جاسکتا ہے۔ اس کڑی کے پیوستگی کا تعلق ہندوپاک کے ان اہم شعراء سے ہے جنہوں نے اس دور میں شاعری کو پروان چڑھایا۔ پروین کی انفرادیت اور مختلف خیالات نے شعری ادب کے دامن کو اور وسیع کردیا جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

پروین کے گل کی خوشبو ، عام خوشبو سے الگ اپنی شناخت قائم رکھنے میں ہوتی ہے۔ یہ خوشبو قاری کو ہی نہیں شاعری ادب کے اس سرمایہ کو بھی معطر کرتے ہوئے نئی روح بخش دی۔ یہی خوشبو کبھی ہوائوں کے ساتھ محبوب کے آنے کی دستک دیتی ہے تو کبھی امید کے روشن چراغ کو گل کردیتی ہے۔

پروین کی پوری شاعری عشق و عاشقی کے جذبات سے مختلف کیفیت کا احساس دلاتی ہے۔ زبان سادہ ، سلیس اور جملے پیوست ہیں ان کی شاعری کا ایک پہلو احتجاج بھی ہے جو مردوں کے استحصال کے خلاف ہوتا ہے۔ عورتوں کو معصومیت اور ان کی پاک محبتوں کا ناجائزفائدہ اٹھانے اور پھر اس کی پرواہ نہ کرنے کے خلاف ہے۔ پروین نے ہی نہیں ان کی ہم عصر شاعرات نے بھی اس موضوع پر آواز بلند کی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں جس تخیل پروازی کا مظاہرہ کیا ہے وہ دوسروں کے یہاں کم ہی ملتا ہے۔ پروین نے غزل ، نظم اور مختصر نثر بھی لکھی ہے۔

 پروین نے اپنے محبوب کو جس جس انداز میں پیا رکیا۔ اسے منانے کی کوشش کی اور امید و یاس کی جو نوعیت پیش کی وہ اردو شاعری میں قابل تعریف ہے۔ پروین نے اپنی شاعری میں اردو ، ہندی ، انگریزی، عربی اور فارسی کے الفاظ سے بھی اپنی کیفیت کو بیان کیا ہے۔

پروین شاکر ایک ساتھ عورت بھی ہیں ، بیوی بھی ہیں اور ماں بھق، ان تینوںروپوں میں رو کر انہوں نے سبھی کا حق ادا کیا ہے۔ جہاں عورت ہیں۔ مردوں کے استحصال کے خلاف احتجاج کرتی ہیں۔ جہاں بیوی ہیں شوہر سے محبت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور جہاں ماں ہیں وہاں بچوں سے پیار کرنے ، ہنسنے مسکرانے اور طفلانہ انداز میں بات کرنے کا احساس دلاتی ہیں۔ مختلف مختلف رویوں میں پرویز ہر جگہ فٹ نظر گآتی ہیں جس کی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے اندر احتجاج کے ساتھ ساتھ ممتاکا پیار بھی ہے، وہ اپنی انہیں انفرادیت سے شعری دنیا میں اہمیت رکھتی ہیں۔ اردو شاعری میں پرویز شاکر کو جو مقام ملا حقیقت میں وہ اس کی مستحق تھیں۔ 

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھُلا ہی دیں گے 

لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے 

کو بہ کو پھیل گئی۔۔۔۔

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی

اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا

بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی

تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے

تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی

اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا

روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی

اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے

جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭