استقامت فی الدین مومن کا جوہر حیات
’’جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم رہے تو ان کے پاس فرشتے یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ تم کچھ خوف اورغم نہ کرو بلکہ اس کی جنت کی بشارت سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم دنیا اور آخرت میں تمہارے مددگار ہیں اور تمہارے لئے جنت میں ہر قسم کی نعمتیںہوں گی، جس کیلئے تمہاری خواہش ہو گی،(اللہ) غفور رحیم کی طرف سے تمہاری مہمانی ہو گی‘‘ (سورہ حمٰ سجدہ: 30تا32)
اس کائنات ہست و بود میں بسنے والا ہر انسان کسی نہ کسی فکر و فلسفہ دین و مذہب یا نظریہ پر ایمان و ایقان رکھنے والا ہے۔ ان میں اکثر الہامی مذاہب کے پیروکار ہیں مثلاً اسلام عیسائیت یا یہودیت۔ اس کے برعکس دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی غیر الہامی مذاہب کی پیروکار بھی ہے جیساکہ ہندومت، بدھ مت ،مجوسی یا دیگر کفریہ و مشرکانہ عقائد کی حامل اقوام یا قبائل ہیں۔بہر کیف ہر انسان فطری طور پر اپنے آپ کو رب کائنات کے ساتھ تعلق استوار رکھنے کی سعی و جہد میں مصروف عمل دکھائی دیتا ہے۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ کون سا مذہب یا عقیدہ و فلسفہ مبنی برحقیقت ہے یا کون سا فلسفہ ابطال پر مبنی ہے۔ البتہ امر واقعہ یہ ہے کہ انسان جس نظریہ پر گامزن ہے وہ اسے ہی حق شناسی کا ذریعہ جانتا ہے لہٰذا وہ اپنی زندگی اسی کے مطابق گزارنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
روئے زمین کی سب سے بڑی صداقت رب تعالیٰ کی کبریائی خالقیت و مالکیت ہے جسے ہر کوئی ضرور تسلیم کرتاہے خواہ زبان سے اقرار نہ کرے۔ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کے سامنے دنیاوی و اخروی فلاح ،کامیابی و کامرانی کا وہ نظریۂ حیات عطا کرتا ہے جس پر مستقل مزاجی سے گامزن رہنے والا نہ صرف آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی زندگی کے عیش و عشرت کے حصول میں کامیاب ہو سکتا ہے بلکہ اس دنیاوی زندگی کو بھی پرسکون و مطمئن انداز میں تسلیم و رضا کے سانچے میں ڈھال کر کامیاب بناسکتاہے۔ جس طرح کسی بھی مذہب کے ماننے والے کیلئے مستقل مزاجی کا تقا ضا کیاجاتا ہے بعینہ اسلام بھی اپنے ماننے والوں سے اس عظیم اظہار عبدیت کا مطالبہ کرتاہے کہ جب انسان اللہ ہی کو اپنا ملجا و ماویٰ تسلیم کرے تو پھر حق بندگی کا تقاضا ہے کہ ایسا بندہ بس اپنے رب کا ہی ہو کر رہے اور استقامت فی الدین کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی کے ہرمعاملے اور لمحات میں اپنے خالق ومالک کا غلام بن کر رہے اور اپنے رب کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر کہیں تاک جھانک نہ کرے۔ تب ایسے مومن بندوں کیلئے ان کے رب کی طرف سے خوشخبریاں ہیں کہ ان کا مالک انہیں ایسی جنتوں کا حقدار بناتا ہے جن کی آسائشات و لذات کا دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
کسی بھی کام کے سرانجام دینے میں مسلسل جدوجہد اور کوشش کرنے کا نام استقلال یا استقامت کہلاتا ہے اور استقامت کے بغیر دین و دنیا کا کوئی کام نہیں کیا جا سکتا اور ہر اس کام کو جسے حق سمجھا جائے صحیح طو رپر حاصل کرنے کیلئے صعوبتیں برداشت کی جائیں تاہم صحیح بات سے انحراف نہ کیا جائے اور نہ ہی منہ پھیرا جائے خواہ اس راہ میں کتنی ہی تکالیف کیوں نہ آئیں، اسی کو استقامت کہتے ہیں۔
استقلال یا استقامت کسی بھی مقصد میں کامیابی کے حصول کا واحد ذریعہ ہے۔ جن لوگوں میں ہمت و استقامت نہیں ہوتی وہ کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ سچی لگن اور اپنے مقصد پر نگاہ انسان کو ہمت و طاقت فراہم کرتے ہیں اور جب یہی عظیم وصف اللہ کی رضا جوئی کے حصول کی خاطر دین کیلئے ہوتو اسے استقامت فی الدین کے پاکیزہ عنوان سے معنون کیا جاتاہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں استقامت فی الدین کی بڑی اہمیت و فضیلت اور تاکید بیان کی گئی ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’پس آپ سیدھے استقامت سے چلئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے (اس پر آپ) اور (وہ) جس نے آپ کے ساتھ توبہ کی اور حد سے نہ بڑھو بے شک اللہ تمہارے تمام کاموں کو دیکھتا ہے‘‘ (سورہ ھود:112) ۔معلوم ہوا کہ سیدھا اور سچا راستہ اللہ ہی کا راستہ ہے اور یہی وہ راہ ہدایت ہے جس پر بندہ مومن کو استقامت کے ساتھ چلنا چاہیے چونکہ یہ رب تعالیٰ کاحکم ہے اور فوز و فلاح کا ذریعہ بھی ۔
اگر تمہارے پائے استقلال میں لغزش آئی تو جان رکھو کہ تمہارا رب تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے اور وہ تمہاری ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھے ہوئے ہے یعنی تم اپنے خالق و مالک سے اوجھل نہیں وہ تمہاری دلی کیفیات سے بھی آگاہ ہے۔ اگر تم نے حالات کی ستم ظریفیوں سے گھبرا کر کفر و الحاد کے ساتھ مفاہمت کا رویہ اپنایا اور استقامت فی الدین سے منہ موڑا تو تمہارا رب اس سے خوب واقف ہے اور ایسے بندوں کیلئے آخرت میں سوائے ندامت کے اور کچھ نہیں ہو گا۔ چنانچہ ایک مقام پر استقامت فی الدین کی نصیحت اس اندازمیں کی گئی! ’’ بے شک تمہارا معبود ایک (اللہ ) ہی ہے ،سو اس کی طرف سیدھے رہو یعنی اس پر قائم و دائم اور جمے رہو اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو‘‘(سورہ حم سجدہ:6 )
یعنی دنیا کی سب سے بڑی صداقت یہی ہے کہ پوری کائنات کا بلاشرکت غیرے خالق و مالک اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے اور وہی اس کانظام اپنی حکمت سے چلا رہا ہے لہٰذا وہی ہماری تمام تر عبادتوں کا حقدار ہے لہٰذا اسی کی طرف استقامت و استقلال کے ساتھ رجوع کئے رہو اور اسی سے اپنے بشری تقاضوں کے مطابق ہونے والی خطائوں اور معصیات سے معافی طلب کرتے رہو، وہی معاف کرنے والا بھی ہے۔ معلوم ہوا کہ ہمارا ہر طرح کا ملجا و ماویٰ اللہ تعالیٰ ہی ہے اور ہمیں ہر آن مستقل مزاجی کے ساتھ اسی کی طرف استقامت و استقلال کے ساتھ رجوع کرنا چاہیئے،یہی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس انسانی عظیم جوہر حیات کی یاد دہانی کیلئے ہر نماز کی ہر رکعت میں تکرار ہوتی ہے تاکہ ہر لمحے یہ استقامت فی الدین کا وصف عالی ہمارے دلوںمیں ہر دم جواں رہے۔ ہم ہر نماز خواہ فرض ہو یا نفل انفرادی ہو یا اجتماعی کسی بھی شکل میں ہو ہر رکعت میں اپنے رب سے یہی دعا کرتے ہیں!’’ اے اللہ ہمیں سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرما اور اس پر ہمیں قائم رکھ‘‘ (سورۃ الفاتحہ)۔
معلوم ہوا کہ سیدھی راہ کا حصول ہی کافی نہیںبلکہ تادم آخر اس پر ثابت قدمی و استقامت بھی لازم ہے وگرنہ گمراہی ہمیں بربادی سے ہمکنار کر سکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امام کائنات ﷺنے سورہ فاتحہ کی تلاوت کی بڑی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ تاکہ اہل اسلام ہر نماز میں اپنے رب سے استقامت فی الدین کی دعا کرتے رہیں اور ان کا رب انہیں اپنی توفیق و رحمت سے حق پر قائم و دائم رکھے۔ اہل اسلام کو اعلان حق اور اس پر استقامت کی بڑی تاکید کی گئی ہے، ارشاد حق تعالیٰ ہے ’’پس اسی (رب) کی طرف بلائو اور اسی پر ثابت قدم رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے اور ان نااہلوں (کفار)کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو‘‘ (سورۃ الشوریٰ : 15) ۔
گویا حق تعالیٰ شانہ کی توحید کی دعوت دینا اور اس دعوت پر سب سے پہلے خود استقامت و عزیمت کا مظاہرہ کرنا اور اس دعوت کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام پر صبرکرنا ہی اہل ایمان کا جوہر حیات ہے جو مومنانہ زندگی کو دنیاوی و اخروی کامرانی سے سرفراز کرتا ہے۔ اس لئے استقامت فی الدین کا حکم دیا گیا۔ اگر انسان متلون مزاج اور کھلنڈرے پن کا حامل ہو تو وہ دنیا کا کوئی بھی کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا۔جب دنیاوی کاموں کی ادائیگی کیلئے استقلال ضروری ہے تو دین پر چلنے اور رب کی رضا کے حصول کی خاطر استقامت و ثابت قدمی انتہائی لازمی ہے۔ قرآن پاک میں ایسے ہی ثابت قدم رہنے والوں کو یہ خوشخبری سنائی گئی ہے کہ کامیابی تمہارے ہی لئے ہے۔ قیامت کے دن جبکہ خوف و ہیبت سے سب کے دل کانپ رہے ہوں گے اس دن صاحبان استقامت کو کسی قسم کا خوف و ہراس نہ ہو گا بلکہ انہیں ہر طرح کا اطمینان حاصل ہو گا،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے! ’’بے شک جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو انہیں نہ ڈر ہو گا اور نہ وہ خوف کھائیں گے‘‘ (سورۃ الاحقاف :13)
مکہ مکرمہ صدیوں سے اہل عرب کی مرکزیت کا حامل تھا اور اسی کی تولیت کی وجہ سے قریش تمام قبائل میں عزت و شرف کے حامل گردانے جاتے تھے۔ اسی قیادت و سیادت کے نشے میں قریش نے دنیا کی سب سے بڑی سچائی کو جھٹلایا اور شفیع المذنبین ﷺ پر عرصئہ حیات تنگ کر دیا۔ یہاں تک کہ ایک دن ایسا آیا کہ جب سپہ سالار اعظمﷺ اس شہرمیں کہ جہاں ان پر اونٹ کی اوجھ ڈالی گئی گردن میں کپڑا ڈال کر گھسیٹا گیا۔ کلید بردار کعبہ نے عبادت الٰہی سے روک دیا تھا۔ اس شہر کے لوگوں نے آپ ﷺ اور آپﷺ کے جانثار ساتھیوں پر وہ کونسا ظلم تھا جو روا نہیں رکھا تھا۔اس شان کے ساتھ فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے کہ نہ کوئی جنگ ہوئی نہ ہی کسی کی گردن ماری گئی اورنہ کسی کے مال و اسباب کو لوٹا گیا حالانکہ عام طو پر ہوتا یہی ہے کہ جب کوئی فاتح کسی ملک کو فتح کرتا ہے تو مفتوحہ قوم کے افراد کا قتل عام کرتا ان کے بچوں اوربوڑھوں کو غلام بناتا عورتوں کی عصمتیں پامال کرتا اور ان کے مال و اسباب کو لوٹ لیا جاتا ہے لیکن اس حکمران کی فتح بھی عجیب و غریب تھی اور انداز جہانبانی بھی سب سے منفرد بے مثل و بے نظیر تھا۔ آپﷺ انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ رب تعالیٰ کی حمدیں اور ثنائیں بیان کرتے ہوئے اپنے وطن میں داخل ہوتے ہیں۔ اس موقع پر مکہ کے اشراف و رئوسا جو اسلام دشمنی اور رحمت عالمﷺکی عداوت میں پیش پیش تھے لرزہ براندام تھے کہ یقینا آج ہماری زندگی کا آخری دن ہے اورمحمد ﷺ کے احکامات پر ہماری گردنیں اڑا دی جائیں گی لیکن ہوا کیا۔ رحمت ا للعالمین ﷺ نے تمام اہل مکہ کیلئے امان جاری فرمادی یہاں تک کہ جو بیت اللہ میں پناہ لے لے وہ بھی مامون ہے جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوا اور جس نے اپنے گھر کے دروازے بند رکھے اوراہل اسلام کے مقابل جنگ و جدال سے باز رہا وہ محفوط و مامون ہو گیا۔
نبی رحمتﷺ کے انداز جہانبانی کی ایک اورروشن ترین مثال ملاحظہ کیجئے۔ غزوئہ احدمیں مسلمانوں کی نادانی سے اہل ایمان جیتی ہوئی بازی ہار گئے اوردشمنوں نے پلٹ کر حملہ کیا۔ اس معرکہ میں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ ؓ جن کی شجاعت و بہادری مثالی تھی کو ابوسفیان کی بیوی ہندہ کے غلام وحشی نے شہید کر دیا اور اسی پر بس نہیں کیا گیا ہندہ نے حضرت امیر حمز ہ ؓ کا کلیجہ نکال کر چبالیا۔ یہ درندگی اور انسانیت سوزی کی بدترین مثال تھی، رحمت عالمﷺ کو اپنے چچا کی اس حال میں شہادت انتہائی گراں گزری لیکن قربان جائیے اس باحوصلہ و عظمتوں کے پیکر پر کہ جب ہندہ اور وحشی اسلام قبول کر کے خدمت اقدس میںحاضر ہوئے تو آپﷺ نے انہیں معاف کر دیا ۔ یہی نہیںبلکہ جس سیاسی تدبر دفاعی حکمت عملیوں اور اندرونی و بیرونی سطح پر مدینہ منورہ کی نوزائیدہ مملکت کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی امام کائنات ﷺنے بنیادیں مضبوط و مستحکم فرمائیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
مدینہ منورہ کے استحکام کے بعد جب فتح مکہ کی صورت پورے جزیرہ نمائے عرب پر آپﷺ کی قیادت مسلم ہوچکی تھی اور آپﷺ نے اپنے رب تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ساتھ اسلام کی راہ میں مزاحم تمام قوتوں کو زیر کرلیا تو اس کے ساتھ ساتھ دیگرممالک بشمول اس وقت کی سپر پاورز قیصر و کسریٰ کو بڑی جرات و بہادری اور حسن تدبیر کے ساتھ اسلام کی دعوت دی۔آپﷺ نے ایسا طرز حکمرانی پیش فرمایا کہ عدل و انصاف کا دور دورہ تھا، مدینہ منورہ ہر طرح کی بیرونی شورشوں سے محفوط ہو چکا تھا۔ آج بھی آپ ﷺکا اسوئہ حسنہ زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں بالخصوص مسلم حکمرانوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ اگر آج بھی ہمارے حکمران اسی سیرت مصطفویﷺ پر حقیقی معنوںمیں عمل پیرا ہوجائیں تو دنیا کی ساری اقوام ان کے زیر نگیں ہو سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلم حکمرانوں کو اسوئہ محمدیﷺ پر کماحقہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور اسلام کا پرچم سربلند فرمائے۔آمین