60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

تحریر : عرفان سعید


بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

پیپلز پارٹی کے صادق عمرانی، علی مدد جتک،ظہوربلیدی،بخت کاکڑ،سردار سرفراز ڈومکی اور سردار زادہ فیصل جمالی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سردار عبد الرحمان کھیتران، عاصم کرد گیلو، محترمہ راحیلہ حمید درانی،سلیم کھوسہ،شعیب نوشیروانی اور نور محمد دومڑ،جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے نوابزادہ طارق مگسی اورضیالانگو کو بھی وزارت ملی ہے۔چارمشیروں کو بھی بلوچستان کابینہ کا حصہ بنایا گیا ہے، ان میں پیپلزپارٹی کے علی حسن زہری،باباغلام رسول، مسلم لیگ (ن) کے نسیم الرحمان اور رکن اسمبلی ربابہ بلیدی شامل ہیں۔ مشیران میں سے تین ، علی حسن زہری،نسیم الرحمان اور باباغلام رسول کو اسمبلی کے باہر سے لیا گیا ہے۔ 13 وزرااور چار مشیروں کو محکمے بھی الاٹ کردیے گئے ہیں، تاہم بلوچستان عوامی پارٹی کے نوابزادہ طارق مگسی کو تاحال کسی محکمہ کا قلمدان نہیں سونپا گیا۔

 کابینہ کی تشکیل کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز احمد بگٹی نے گزشتہ دنوں ایک پریس کے دوران کہا کہ صوبے میں جاری بدامنی اوردہشت گردی کے خاتمے کیلئے اپوزیشن اور قبائلی زعماکو اعتماد میں لیکر، پارلیمنٹ کے ذریعے مذاکرات کیلئے شرائط طے کرکے پرامن بلوچستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے، قومی شاہراہوں کو پرامن اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے اور گڈگورننس قائم کرنے کیلئے 60نکاتی اصلاحات لانے کے کام کا آغاز کردیا ہے تاکہ حکومت کی رِٹ کو قائم کرکے بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ صوبائی حکومت اور کابینہ مکمل ہونے کے بعد  محکموں کی بہتری کیلئے 60 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا تیار کیا گیا ہے اور اس کا مقصدصوبے میں بہترین گورننس کو یقینی بنانا، تعلیم، صحت، داخلہ، زراعت، لائیو سٹاک اورآبپاشی سمیت تمام محکموں کو بہتر بنانااور قومی شاہراہوں سمیت صوبے میں امن یقینی بنانا ہے۔انہوں نے کہا کہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت اور ریاست پر عائد ہوتی ہے اس لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر سکیورٹی پلان کا جائزہ لینے کی ہدایت بھی کی ہے ۔وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ کوشش ہے  کہ معاملات کو بہتر بنانے اورحالات کی بہتری کیلئے ،پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپوزیشن کی جماعتوں اور قبائلی زعماکو آن بورڈ لیکر آگے بڑھیں اور ناراض لوگوں سے مذاکرات کی شرائط طے کی جائیں۔ اس کیلئے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے ،جس میں سردار عبدالرحمن کھیتران، علی مدد جتک،میر شعیب نوشیروانی اورمیر ضیالانگوکو شامل کیا گیا ہے جو سیاسی جماعتوں سے رابطے کرکے اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیکر تمام سٹیک ہولڈر زکی مشاورت سے حکمت عملی طے کریں گے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ حالات کی بہتری اور مسائل کے حل کیلئے حکومت ،پارلیمنٹ اور عدلیہ سمیت ہرادارے اور ذمہ دار کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ جو دہشت گردانہ اور پرتشدد واقعات ہورہے ہیں ان کا تدارک کر کے بلوچستان کے مسائل کا حل یقینی بنایا جاسکے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ پورے ملک میں ہے ،اس کے حل کیلئے بننے والے کمیشن نے 80فیصد کیسز کو حل کر لیا ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ کوئی بھی شخص لاپتہ ہو، لیکن اس حوالے سے حقائق پر مبنی شواہد سامنے آنے چاہئیں نہ کہ حکومت اور ملکی اداروں پر الزام تراشی کی جائے۔ جب تک کسی بھی لاپتہ شخص کی تصدیق نہ ہو اس کے حوالے سے کسی کو بھی موردِالزام ٹھہرانا مناسب نہیں۔ بعض ایسے افراد بھی ہیں جو دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پائے گئے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی ریاست کی ذمہ داری ہے، تعین کرنا ہوگا کہ لاپتہ کس نے کیا ہے، بعض لاپتہ افراد اب بھی علیحدگی پسند تنظیموں کے لیے کام کر رہے ہیں۔وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کرنے والوں کی پناہ گاہیں آج بھی افغانستان میں موجود ہیں اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی فنڈڈ تنظیمیں بلوچستان میں دہشت گردی کر رہی ہیں اور کئی بے گناہ افراد کو انہوں نے قتل کیا۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بے گناہ افراد کے قاتلوں کیخلاف جنگ میں معاشرے کے ہر طبقے کو ساتھ دینا ہوگا۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی کرنے والوں کو افغانستان سے معاونت ہورہی ہے اور بلوچستان میں موجود  گروپوں کو بھی وہیں سے معاونت حاصل ہوتی ہے۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں قیام امن کے لیے ہوم ورک کرکے وفاق کے پاس جائیں گے اوروفاق کو قیام امن کیلئے لانگ ٹرم پالیسی بنانے کا کہیں گے۔ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ نوشکی جیسے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کر رہے ہیں،اس کیلئے شاہراہوں پر چیک پوسٹوں  کا قیام ضروری ہے۔وزیر اعلیٰ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم شاہراہوں کوسفر کیلئے محفوظ بنائیں گے۔وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان میں کب تک لوگوں کی مارا ماری ہوتی رہے گی، اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئے مؤثر حکمت عملی بناکر وفاق کے ذریعے مذاکرات سے راستہ  تلاش کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ اور قبائلی زعما اس حوالے سے حکمت عملی طے کریں کہ مذاکرات کن شرائط پر ہوں گے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم مشاورت کے ذریعے آگے بڑھنا چاہتے ہے اور کوئی 10سے25سال کیلئے پلان ترتیب دے کر آگے بڑھیں گے ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کا ویژن اور کچھ کردکھانے کا جذبہ قابلِ ستائش ہے۔ انہیں چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑے گا مگر ایک چیز انہوں نے واضح کردی ہے کہ وہ بیرون ملک بیٹھے ناراض بلوچ رہنماؤں کے پاس جانے کی بجائے بلوچ نوجوانوں اور عوام کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور انہیں ان کے جائز حقوق دلانے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔

دوسری جانب بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی دو خالی نشستوں پر ضمنی انتخاب اور ایک نشست پر ری پولنگ کا مرحلہ بھی مکمل ہوچکا۔ صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 20 وڈھ خضدار، جو کہ بی این پی کے سربراہ سردار اخترمینگل کی جانب سے صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑنے کے بعد خالی ہوئی تھی، پر بی این پی ہی کے امیدوار جہانزیب مینگل نے کامیابی حاصل کر لی ۔ ان کے مدمقابل جھالاوان پینل کے شفیق مینگل تھے۔جبکہ جام کمال کی جانب سے چھوڑی جانے والی نشست ، پی بی 22لسبیلہ پر اُن کے داماد اور مسلم لیگ (ن) کے امیدوار زرین مگسی کامیاب ہوئے۔ پی بی 50 قلعہ عبداللہ پر ری پولنگ کے بعد اے این پی کے انجینئر زمرک خان اچکزئی دوبارہ اس نشست پر کامیاب ہوگئے، ان کے مد مقابل پی کے میپ کے میروائس اچکزئی تھے جنہیں پی ٹی آئی اور جے یوآئی کی حمایت حاصل تھی ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

گدھے کے کانوں والا شہزادہ

ایک بادشاہ کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اسے بچوں سے بہت پیار تھا، وہ چاہتا تھا کہ اس کے ہاں بھی کوئی بچہ ہو جو سارے محل میں کھیلتا پھرے۔ آخر اس نے پریوں سے مدد چاہی۔ وہ جنگل میں گیا۔ وہاں تین پریاں رہتی تھیں۔ اس نے جب پریوں کو اپنا حال سنایا تو پریوں نے کہا کہ ایک سال کے اندر اندر تمہارے ہاں ایک شہزادہ پیدا ہوگا۔

پہاڑ کیسے بنے؟

زمین کے وہ حصے جو سمندر کی سطح سے تین ہزار فٹ سے زیادہ اونچے ہیں، پہاڑ کہلاتے ہیں۔ بعض پہاڑ ہماری زمین کے ساتھ ہی وجود میں آئے، یعنی کروڑوں سال پہلے جب زمین بنی تو اس پر بعض مقامات پر ٹیلے سے بن گئے جو رفتہ رفتہ بلند ہوتے گئے۔ بعض پہاڑ زمین بننے کے بہت عرصے بعد بنے۔ یہ ان چٹانوں سے بنے ہیں جو زمین کے اندر تھیں۔ جب یہ چٹانیں زمین کی حرارت سے پگھلیں تو ان کا لاوا زمین کا پوست( چھلکا) پھاڑ کر اوپر آ گیا اور پھرٹ ھنڈا ہو کر پہاڑ بن گیا۔

ذرامسکرائیے

باجی (ننھی سے)’’ تم آنکھیں بند کرکے مٹھائی کیوں کھا رہی ہو؟‘‘ ننھی’’ اس لئے کہ امی نے مٹھائی کی طرف دیکھنے سے منع کیا ہے‘‘۔ ٭٭٭

پہیلیاں

(1) نہ مٹی ہے نہ ریت ایسا ہے اک کھیت

انمول موتی

٭…سچائی ایسی دوا ہے جس کی لذت کڑوی لیکن تاثیر شہد سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔

شائستہ گفتگو

٭ …شائستگی سے گفتگو کرنے میں کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ شائستہ گفتگو کے نرم الفاظ کسی مریض کے لئے زندگی کا پیغام بن سکتے ہیں۔