سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

تحریر : طلحہ ہاشمی


سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

 یوں کہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کا کوئی ثانی نہیں تو بات غلط نہ ہوگی۔ البتہ کراچی میں ایم کیو ایم کی موجودگی باعثِ اطمینان ہے، کیونکہ اپوزیشن نہ ہو تو حکومت کرنے کا کیا مزا۔ ویسے سندھ حکومت عوام کے لیے کچھ نہ کچھ کرتی نظر آہی جاتی ہے۔ حکومت نے میرپورخاص میں بھی پیپلز بس سروس کا آغاز کردیا ہے، جس سے عوام کو آرام دہ سفری سہولیات میسر آئیں گی۔ اسی طرح کراچی میں پنک بس کے دو نئے روٹس کا افتتاح کردیا گیا ہے۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ ویسے ہی کم ہے اور دفاتر یا دوسری جگہوں پر کام کرنے والی خواتین کو سواری کے لیے جو مشکلات پیش آتی ہیںوہ سبھی جانتے ہیں؛چنانچہ عام بسوں کے ساتھ صوبائی حکومت کی پنک بس سروس کا منصوبہ بھی بہت مفیدہے۔ ان بسوں میں صرف خواتین ہی سفر کرسکتی ہیں، جس سے خواتین کو آرام دہ اور محفوظ سفر سے ذہنی اور جسمانی آسانی بھی میسر ہوگی۔ اس سہولت کے ساتھ اگر سڑکیں بھی اچھی بنادی جائیں تو عوام کے لیے اور آسانی ہو جائے۔ 

چند روز قبل تحریک انصاف نے کراچی میں شاہراہ فیصل پر ریلی نکالنے کی کوشش کی تو پولیس نے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا، تاہم مذاکرات کے بعد گرفتار افراد کو رہا کردیا گیا اور ریلی کا رُخ بھی شاہراہ فیصل سے موڑ دیا گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ بلااجازت ریلی نہیں نکالی جانی چاہیے اور سڑک بھی بند نہیں ہونی چاہیے لیکن ریلی تو نکالنے کی اجازت دی جانی چاہیے، کسی کو تو بڑے بڑے جلسوں کی اجازت ہے اور کوئی ایک ریلی نکالے تو شہر بھر کی پولیس جان کو آجاتی ہے، یہ تو انصاف نہ ہوا۔دوسری جانب ایم کیوایم کی مرکزی ایڈہاک کمیٹی کا اجلاس حال ہی میں ہوا جس میں طے کیا گیا کہ ملازمتوں میں دیہی اور شہری کوٹے پر عمل درآمد کے لیے کردار ادا کیا جائے گا۔ کمیٹی بھی بنادی گئی جو بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرے گی۔ کوٹہ مخالف تنظیم اَب کوٹے کی مانیٹرنگ کرے گی، حیرت ہے، کیا وقت آگیا ہے۔ یہاں ایم کیو ایم کے رہنما مصطفی کمال کا بھی کچھ ذکر ہونا چاہیے کہ انہوں نے تو قومی اسمبلی میں بہت سے لوگوں کے دل کی بات کہہ دی ہے اور وہ یہ کہ ملکی معیشت کو سود سے پاک ہونا چاہیے۔ اگر اندرون سندھ کے حالات کی بات کی جائے تو چند روز قبل کے ایک واقعے نے ملک بھر کی توجہ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ ہوا کچھ یوں کہ پولیس نے حساس ادارے کی اطلاع پر کارروائی کی اور شکار پور جانے والی ایک گاڑی سے بھاری اسلحہ برآمد کر لیا۔ اس گاڑی کو پولیس پروٹوکول بھی حاصل تھا اور یہ پولیس موبائل وزیراعلیٰ کے مشیر بابل خان بھیو کو پروٹیکشن کے لیے دی گئی تھی۔ بابل خان نے سکینڈل سامنے آنے پر اپنے عہدے سے استعفا دے دیا اور واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ امید اور دعا ہے کہ تحقیقات شفاف ہوں اور عقدہ کھلے کہ اسلحہ کہاں جارہا تھا ؟ کیونکہ سوشل میڈیا اور پیپلز پارٹی مخالفین تو اسے کچے کے ڈاکوؤں سے جوڑ رہے ہیں ۔

ادھراندرون سندھ، کچے کے ڈاکوؤں اور کراچی میں سٹریٹ کرائمز نے عوام کا خون خشک کیا ہواہے۔ کراچی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ ڈھائی سو کے قریب سٹریٹ کرائمز کی وارداتیں رپورٹ ہوتی ہیں، اور جو رپورٹ نہیں ہوتیں ان کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔تاہم صوبائی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ پہلے بھی امن بحال کیا تھا، اب بھی صوبے میں امن بحال کرکے دکھائیں گے۔ آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے مطابق اس سال، جنوری سے اب تک118 افراد کو اغوا کیا گیا، ان میں سے 94 کو بازیاب کرالیا گیا۔ جنوری 2023 ء سے اپریل 2024ء تک 63 مبینہ ڈاکو مارے گئے، 116 زخمی ہوئے، 404 گرفتار ہوئے، اب دیکھتے ہیں کہ پولیس کتنوں کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش کر کے انہیں سزا دلاتی ہے۔ کراچی سمیت صوبہ بھر میں ایک اور مسئلہ بھی سوہان روح بنا ہوا ہے اور وہ ہے منشیات کا۔ کراچی کے علاقوں لیاقت آباد، جمشید روڈ، گولیمار، شیر شاہ اور لیاری سمیت نہ جانے کتنے ایسے علاقے ہیں جہاں نشئی افراد ٹولیوں کی شکل میں سرعام منشیات استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ پولیس انہیں پکڑتی ہے، منشیات اور پیسے چھین کر چھوڑ دیتی ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ ان نشئی افراد کو شہر کی ہر وہ جگہ معلوم ہے جہاں سے ہیروئن اور دوسری منشیات مل جاتی ہیں، مگر پولیس اب تک منشیات فروشوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہے۔ صوبائی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ نے واضح کہا ہے کہ وہ ڈرگ مافیا کا خاتمہ چاہتے ہیں تاکہ صوبے سے نشے کی لعنت کا خاتمہ ہو، مگرپولیس اس میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ دہشت گرد بھی ایک بار پھر ملک میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں، رواں ہفتے کراچی میں غیرملکی افراد کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، جوخوش قسمتی سے کامیاب نہیں ہوئی۔ البتہ ذرائع کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی شناخت ہوچکی ہے اور جلد وہ انصاف کے کٹہرے میں ہوں گے۔اب کچھ ذکر شہر میں تجاوزات کا کہ شہر کا کوئی کونا تجاوزات سے محفوظ نہیں رہا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کراچی تجاوزات کیس جمعرات کو سماعت کے لیے مقرر کردیا ہے، وزیراعلی، آئی جی اوروفاق کو بھی طلب کیا ہے اور شہر سے تجاوزات کے خاتمے سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔ سنا ہے سب پریشان ہیں کہ کوئی ایسی رپورٹ بنالی جائے کہ عدالت عظمیٰ مطمئن ہوجائے‘ مگر تجاوزات کے خاتمے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کہیں دیکھنے میں نہیں آتے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

گدھے کے کانوں والا شہزادہ

ایک بادشاہ کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اسے بچوں سے بہت پیار تھا، وہ چاہتا تھا کہ اس کے ہاں بھی کوئی بچہ ہو جو سارے محل میں کھیلتا پھرے۔ آخر اس نے پریوں سے مدد چاہی۔ وہ جنگل میں گیا۔ وہاں تین پریاں رہتی تھیں۔ اس نے جب پریوں کو اپنا حال سنایا تو پریوں نے کہا کہ ایک سال کے اندر اندر تمہارے ہاں ایک شہزادہ پیدا ہوگا۔

پہاڑ کیسے بنے؟

زمین کے وہ حصے جو سمندر کی سطح سے تین ہزار فٹ سے زیادہ اونچے ہیں، پہاڑ کہلاتے ہیں۔ بعض پہاڑ ہماری زمین کے ساتھ ہی وجود میں آئے، یعنی کروڑوں سال پہلے جب زمین بنی تو اس پر بعض مقامات پر ٹیلے سے بن گئے جو رفتہ رفتہ بلند ہوتے گئے۔ بعض پہاڑ زمین بننے کے بہت عرصے بعد بنے۔ یہ ان چٹانوں سے بنے ہیں جو زمین کے اندر تھیں۔ جب یہ چٹانیں زمین کی حرارت سے پگھلیں تو ان کا لاوا زمین کا پوست( چھلکا) پھاڑ کر اوپر آ گیا اور پھرٹ ھنڈا ہو کر پہاڑ بن گیا۔

ذرامسکرائیے

باجی (ننھی سے)’’ تم آنکھیں بند کرکے مٹھائی کیوں کھا رہی ہو؟‘‘ ننھی’’ اس لئے کہ امی نے مٹھائی کی طرف دیکھنے سے منع کیا ہے‘‘۔ ٭٭٭

پہیلیاں

(1) نہ مٹی ہے نہ ریت ایسا ہے اک کھیت

انمول موتی

٭…سچائی ایسی دوا ہے جس کی لذت کڑوی لیکن تاثیر شہد سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔

شائستہ گفتگو

٭ …شائستگی سے گفتگو کرنے میں کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ شائستہ گفتگو کے نرم الفاظ کسی مریض کے لئے زندگی کا پیغام بن سکتے ہیں۔