ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

تحریر : سلمان غنی


ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

پنجاب میں قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی بارہ نشستوں پر مسلم لیگ (ن) اور اس کی حمایتی جماعتوں کے امیدواروں کو کامیابی ملی۔ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کی بڑی وجہ اس کا اپنے ووٹرز کو پولنگ سٹیشن تک پہنچانا تھا ۔ عام انتخابات کی متنازع حیثیت کے باوجود ضمنی انتخابات میں پنجاب کے محاذ پر مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی کامیابی سے یہ تاثر نمایاں ہوا ہے کہ پنجاب میں اب بھی مسلم لیگ (ن)کو مقبولیت حاصل ہے۔ البتہ پی ٹی آئی کے امیدواروں نے ضمنی انتخابی عمل کو دھونس دھاندلی کا شاخسانہ قرار دیا اور اس پر احتجاج اور نتائج کو عدالتوں میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) اپنی اس انتخابی کامیابی کا کریڈٹ پنجاب حکومت کی کارکردگی اور خصوصاً وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کو دیتی ہے۔مگر اس کا جائزہ بھی ضروری ہے کہ تحریک انصاف خاطر خواہ کامیابی کیوں نہ سمیٹ سکی ،بظاہر اس کی ایک بڑی وجہ تحریک انصاف اور اس کی قیادت کی مشکلات ہیں۔تحریک انصاف خود کو 9مئی کے واقعات کے اثرات سے نہیں نکال سکی،دوسرے اس جماعت کی لیڈر شپ کی جانب سے بعض ریاستی اداروں کے حوالے سے اختیار کئے جانے والے مؤقف کا نقصان اسی جماعت کو پہنچ رہا ہے۔ جماعتی سطح پر دیکھا جائے تو پارٹی کے اندر بھی ایشوز ہیں، خصوصاً امیدواروں کے چنائو کے حوالے سے واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف کا ووٹ موجود ہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کا مقابلہ مخالفین سے زیادہ خود سے ہے۔

 ماضی میں زیر عتاب آنے والی جماعتوں میں مشکل صورتحال میں یکسوئی نظر آتی تھی لیکن تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ جیل سے باہر جماعتی رہنما اپنی سرگرمیوں کے حوالے سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ آئین و قانون کے پابند ہیں اور ریاستی اداروں سے ان کی کوئی لڑائی نہیں لیکن جیل میں بند ان کی لیڈر شپ ریاستی اداروں کو ٹارگٹ کر کے خود اپنی جماعت کیلئے مسائل کی وجہ بنتی نظر آتی ہے۔ جہاں تک پنجاب کی سطح پر مسلم لیگ (ن) کی انتخابی کامیابی کا تعلق ہے تو یہ احساس (ن) لیگ میں موجود ہے کہ 2024ء کے انتخابی نتائج میں ان کی سیاسی حیثیت و اہمیت کو دھچکا لگا، یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی سطح پر مسلم لیگ (ن) نے ان ضمنی انتخابات میں انتخابی حکمت عملی پر سنجیدگی سے کام کیا۔ اس عمل میں وزیراعلیٰ مریم نواز کا بڑا کردار تھا ۔وہ وزیراعلیٰ ہی نہیں پارٹی کی چیف آرگنائزر بھی ہیں اورانہوں نے انتخابی امیدواروں کو ٹاسک دینے کے ساتھ ان کی ممکنہ مدد بھی کی اور مسلم لیگ (ن) ضمنی انتخابات میں سرخرو ہوئی۔ پنجاب کے محاذ پر( ن) لیگ کہ جیت پارٹی کی حوصلہ افزائی کا باعث بنی ہے، جہاں تک تحریک انصاف کی جانب سے ضمنی انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا تعلق ہے تو یہ اُن کا حق ہے۔

 تحریک انصاف مظاہروں کا آغاز کل جمعہ کے روز سے کر رہی ہے ۔ سیاست میں احتجاج کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور یقیناً اس عمل سے حکومتوں اور اداروں پر دبائو بھی آتا ہے لیکن احتجاجی عمل یا احتجاجی تحریکیں حکومت پر اثر انداز نہیں ہو سکتیں ،بالآخر ہر سیاسی معاملہ کا حل ڈائیلاک ہی سے نکلتا ہے۔ پاکستان میں انتخابی عمل کی شفافیت اور آزادی پر کئی سوال اٹھائے جاتے ہیں،اور اس کی بڑی وجہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتیں ہیں وہ آزاد اور غیر جانبدارانہ انتخابی عمل کیلئے احتجاج تو کرتی ہیں لیکن انتخابی اصلاحات پر تیار نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں انتخابی عمل ہمیشہ نئے بحران کا ذریعہ بنتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں تاریخ سے سبق لینے کو تیار نہیں؟ افسوسناک امر یہ ہے کہ آج جب ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، وہ ناپید نظر آ ہا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف تو اس حوالے سے یکسو نظر آ تے ہیں کہ انہوں نے ملک کو معاشی بحران سے نکالنا اور اپنے پائوں پر کھڑا کرنا ہے اور اس مقصد کیلئے وہ ملک کے اندر اور باہر اپنا کردار ادا کرتے نظر آ رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ معاشی عمل کی بحالی کو یقینی بنانے کیلئے وہ 27ارب کی واپسی یقینی بنائیں گے جو لوگوں نے ٹیکس کی مد میں ہڑپ کر رکھے ہیں ۔مگر اس حوالے سے یکسوئی اور سنجیدگی کس حد تک نتیجہ خیز ہوگی یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ عالمی اور علاقائی طور پاکستان کی اہمیت نمایا ں ہے ۔سعودیہ کا اعلیٰ سطحی وفد پاکستان کے دورہ سے واپس گیا ہے تو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کے دورہ پر آگئے۔ سعودی عرب پاکستان میں چھ سے آٹھ ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کر چکا ہے تو ایران بھی تجارت کا حجم 10ارب تک بڑھانے کیلئے پرُعزم ہے۔ چین بھی پاکستان کو پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔ 

امریکہ بھی پاکستان کے حوالے سے اپنا کردار بتاتا اور سناتا نظر آ رہا ہے۔ مگر ان سبھی کاوشوں کی کامیابی کا انحصار پاکستان میں استحکام پر ہے۔ سیاسی استحکام پاکستان کو معاشی خود انحصاری کی طرف لے جا سکتا ہے، مگر سیاسی استحکام کیوں نہیں ، اس کی وجہ صرف بعض اہل سیاست ہی نہیں کچھ اور بھی ہیں جنہیں پاکستان کا استحکام کھٹکتا ہے اور وہ اپنے اپنے انداز میں پاکستان میں انتشار پھیلانے پر کار بند ہیں۔ جہاں تک پی ٹی آئی کی لیڈر شپ سے کسی پس پردہ ڈیل کا سوال ہے تو فی الحال ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ ڈیل کے حوالے سے چہ مگوئیاں کہاں سے شروع ہو ئیں اور اس کے مقاصد کیا تھے، واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ یہ حربہ ہر دور میں اپنے کارکنوں اور ووٹ بینک کو برقرار رکھنے کیلئے برتا جاتا ہے اور اس سے اپنی سیاسی اہمیت جتانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ البتہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ڈیل تو نہیں ڈھیل دکھائی دے رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے، یہ ڈھیل دینے والے ہی بہتر جانتے ہیں البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ڈھیل کا بانی پی ٹی آئی کو سیاسی فائدہ ضرور ہو سکتا ہے، مگر اس کا نقصان یہ ہے کہ وہ ریاستی اداروں کو ٹارگٹ کرنے سے اجتناب کیلئے تیار نہیں، اور یہ طرز عمل ریاست کے منافی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

گدھے کے کانوں والا شہزادہ

ایک بادشاہ کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اسے بچوں سے بہت پیار تھا، وہ چاہتا تھا کہ اس کے ہاں بھی کوئی بچہ ہو جو سارے محل میں کھیلتا پھرے۔ آخر اس نے پریوں سے مدد چاہی۔ وہ جنگل میں گیا۔ وہاں تین پریاں رہتی تھیں۔ اس نے جب پریوں کو اپنا حال سنایا تو پریوں نے کہا کہ ایک سال کے اندر اندر تمہارے ہاں ایک شہزادہ پیدا ہوگا۔

پہاڑ کیسے بنے؟

زمین کے وہ حصے جو سمندر کی سطح سے تین ہزار فٹ سے زیادہ اونچے ہیں، پہاڑ کہلاتے ہیں۔ بعض پہاڑ ہماری زمین کے ساتھ ہی وجود میں آئے، یعنی کروڑوں سال پہلے جب زمین بنی تو اس پر بعض مقامات پر ٹیلے سے بن گئے جو رفتہ رفتہ بلند ہوتے گئے۔ بعض پہاڑ زمین بننے کے بہت عرصے بعد بنے۔ یہ ان چٹانوں سے بنے ہیں جو زمین کے اندر تھیں۔ جب یہ چٹانیں زمین کی حرارت سے پگھلیں تو ان کا لاوا زمین کا پوست( چھلکا) پھاڑ کر اوپر آ گیا اور پھرٹ ھنڈا ہو کر پہاڑ بن گیا۔

ذرامسکرائیے

باجی (ننھی سے)’’ تم آنکھیں بند کرکے مٹھائی کیوں کھا رہی ہو؟‘‘ ننھی’’ اس لئے کہ امی نے مٹھائی کی طرف دیکھنے سے منع کیا ہے‘‘۔ ٭٭٭

پہیلیاں

(1) نہ مٹی ہے نہ ریت ایسا ہے اک کھیت

انمول موتی

٭…سچائی ایسی دوا ہے جس کی لذت کڑوی لیکن تاثیر شہد سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔

شائستہ گفتگو

٭ …شائستگی سے گفتگو کرنے میں کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ شائستہ گفتگو کے نرم الفاظ کسی مریض کے لئے زندگی کا پیغام بن سکتے ہیں۔