خیبر پختونخوا بجٹ میں جلدی کیوں؟

تحریر : عابد حمید


خیبرپختونخوا حکومت وفاق سے پہلے بجٹ پیش کرنے جارہی ہے ۔یہ پہلی بار ہوگا کہ صوبائی حکومت وفاق سے پہلے آئندہ مالی سال کابجٹ پیش کرے گی، لیکن کیا ایسا ممکن ہے اور اس کے پیچھے کیا حکمت ہے؟یہ وہ دو سوال ہیں جن کا جواب صوبائی حکومت بھی خاطر خواہ نہیں دے پارہی۔

وفاق سے پہلے بجٹ پیش کرنے کے حوالے سے صوبائی وزیرخزانہ آفتاب عالم کا کہناہے کہ عوام ہم سے کچھ نیا کرنے کی امید رکھتے ہیں اورشاید صوبائی حکومت عوام کی امید اس طرح پوری کرنے جارہی ہے۔مگر صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے عوامی امیدیں تو یہ ہیں کہ انہیں آئندہ بجٹ میں ریلیف دیاجائے۔ بجٹ پہلے یابعد میں پیش کرنے سے مہنگائی کے ستائے عوام کو کوئی غرض ۔خیبرپختونخوا حکومت کا 90 فیصد سے زائد انحصار وفاق پر ہے۔ صوبے کے اپنے محاصل قلیل ہیں، ٹیکسوں کی مد میں جمع ہونے والی رقم اتنی نہیں ہوتی کہ اس سے صوبے میں کوئی بڑا منصوبہ چل سکے یا عوام کو ریلیف دیاجاسکے ۔صوبائی حکومت لامحالہ وفاق کی طرف دیکھتی ہے۔ اب اگروفاق سے صوبائی حکومت بجٹ پیش کرے گی تو اس کو کس طریقے سے کور کیاجائے گا ؟اس کا جواب کسی کے پاس نہیں البتہ صوبائی وزیرخزانہ  کا کہنا ہے کہ بجٹ میں وفاق سے متعلق جو معاملات ہیں انہیں نہیں چھیڑا جائے گاجیسا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور  پنشن وغیرہ میں اضافہ ۔ ان امور کو بجٹ میں خالی چھوڑا جائے گا اور وفاق کی جانب سے اعلان کے بعد صوبائی حکومت تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا اعلان کرے گی، لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس تمام ایکسرسائز سے صوبائی حکومت کیاحاصل کرناچاہتی ہے؟ذرائع کا کہناہے کہ خیبرپختونخوا حکومت بجٹ پہلے پیش کرنے سے ایک طرف اپنے ووٹرز کو  مطمئن کرنا چاہتی ہے جو ان سے کچھ نیا کرنے کی توقع رکھتے ہیں تو دوسری جانب وہ اس طرح سے وفاق پر دباؤ بھی بڑھاناچاہتی ہے، لیکن کیا یہ طریقہ کارگر ہوگا؟اس کا اندازہ صوبائی اور وفاق کی جانب سے بجٹ پیش کرنے کے بعد ہی ہوگا۔یوں محسوس ہورہا ہے کہ بجٹ کے بعد صوبے اور وفاق کے مابین الفاظ کی جنگ مزید شدت اختیار کرسکتی ہے ۔ صوبائی حکومت عوام کو یہ تاثر بھی دے سکتی ہے کہ انہیں ریلیف دینے کیلئے وفاق تعاون نہیں کررہا ۔ فی الوقت وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی ٹیم کی یہی پالیسی چل رہی ہے۔تاہم دہشتگردی اور مہنگائی کی چکی میں پسنے والے خیبرپختونخوا کے عوام کو اس بار امید ہے کہ انہیں کسی حد تک ریلیف دیاجائے گا۔صوبائی حکومت آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صحت کارڈ میں عوام کو بڑا ریلیف دینا چاہتی ہے، مگرفی الحال اس کے خدوخال واضح نہیں لیکن اطلاعات کے مطابق صحت کارڈ کا دائرہ کار وسیع کیاجارہا ہے ۔اسی طرح زمین کے انتقال وغیرہ پر صوبائی حکومت ٹیکس کم کرنے پر غور کررہی ہے تاکہ اس سے عوام کو براہ راست فائدہ پہنچ سکے۔ دوسری طرف محاصل بڑھانے کیلئے مختلف مدات میں ٹیکسوں میں اضافے کی تجویز بھی زیرغور ہے۔خیبرپختونخوا معدنیات سے مالامال ہے، قبائلی اضلاع میں بڑے پیمانے پر معدنیات کی کھدائی کا سلسلہ جاری ہے لیکن اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں۔ قیمتی معدنیات نکالی تو جارہی ہیں لیکن اس کا فائدہ کمپنیاں اٹھارہی ہیں اور صوبائی حکومت کو اس سے کچھ خاص نہیں مل رہا ۔خیبرپختونخوا حکومت نے اب معدنیات کے شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کافیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ کچھ ٹیکس پہلے سے موجود ہیں لیکن وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس حوالے سے باقاعدہ ایک پالیسی بنائی جارہی ہے جس پر کام گزشتہ دورِ حکومت میں شروع کیاگیاتھا۔اس پالیسی کے تحت معدنیات کے شعبے میں صوبائی حکومت کو بڑا ریونیو حاصل ہوگا۔وزیراعلیٰ اور گورنر خیبرپختونخوا اس معاملے پر متفق ہیں ۔گورنر خیبرپختونخوا کا کہناہے کہ معدنیات کے شعبے کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ اس سے صوبائی حکومت کو خاطر خواہ ریونیوحاصل ہو۔گورنر اور وزیراعلیٰ کے مابین ابتدائی دنوں میں تندوتیز بیانات کا تبادلہ ہواتاہم اب معاملہ ٹھنڈا پڑتانظرآرہا ہے اور دونوں بڑے گھروں کے مکین اب صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے نظرآرہے ہیں ۔گورنر فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ کے ساتھ کسی قسم کی محاذ آرائی نہیں چاہتے ،صوبے کے مسائل بہت زیادہ ہیں بالخصوص ان کے آبائی علاقے ڈی آئی خان میں امن وامان کی صورتحال انتہائی خراب ہے، وزیراعلیٰ اور  گورنر دونوں کا تعلق ڈی آئی خان سے ہے ۔گورنر خیبرپختونخوا نے وزیراعلیٰ کو آفر کی ہے کہ وہ وفاق سے معاملات ٹھیک کرنے اور بقایاجات کی وصولی کیلئے بھی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہ ایک نیک شگون ہے اور بہتر پیشکش ہے جو گورنر کی جانب سے وزیراعلیٰ کو کی گئی ہے ۔اگران دونوں رہنما صوبے کے حقوق کیلئے متفق ہوجاتے ہیں اور مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکلتے ہیں تو یہ یہاں کے عوام کیلئے ایک بڑا ریلیف ہوگا۔وفاق سے بقایاجات کی وصولی کیلئے صوبائی حکومت کو یقینا اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ ماضی قریب میں پرویزخٹک اور محمود خان نے تو باقاعدہ جرگے بھیجے اور اپوزیشن کو مطمئن کیا، وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو بھی یہی کرنا چاہیے۔جلسے کے سٹیج پر وفاقی حکومت کو للکارنے اور دھمکیاں دینے سے معاملات بگڑیں گے سدھریں گے نہیں۔شدید گرمی مین بجلی کی لوڈشیڈنگ نے بھی عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے جس سے امن وامان کا مسئلہ بھی پیدا ہورہاہے ۔گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم کرنے کیلئے پیسکو کو وارننگ دی تھی اور پیسکو ہیڈکوارٹرز پر قبضے کا کہاتھا،یہ ایک سنگین دھمکی تھی اسے عملی جامہ پہنانا ممکن تو نہیں تھا لیکن اس سے عوام کے جذبات ضرور مشتعل ہوئے ۔موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے پیسکو چیف اپنی ٹیم کے ساتھ خود وزیراعلیٰ ہاؤس گئے اور ایک لائحہ عمل بنایاگیا جس کے تحت بجلی کی لوڈشیڈنگ کم کرنے کیلئے شیڈول کااعلان کیاگیا ،لیکن اس شیڈول پر عملدرآمد نہیں کیاجاسکا ۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اس معاملے پر وفاق کے ساتھ بیٹھنے کوتیار ہیں، ان کی جانب سے کچھ تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں، یہ تجاویزقابل عمل ہیں یا نہیں، مگر اس پر مل بیٹھ کر بات تو ہوسکتی ہے ۔بجلی اور پانی ایسا سنگین مسئلہ ہے جس سے وفاق اور صوبے کے مابین تلخیاں بڑھنی نہیں چاہئیں، اس کیلئے بجلی کی رائلٹی اور بقایاجات کا مسئلہ ہر صورت حل کرنا ہوگا۔یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ جس وقت وفاق میں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت تھی اس وقت صوبائی حکومت نے بقایاجات کی وصولی کا موقع کھودیا۔سابق وزیراعظم کے مزاج کی برہمی کے ڈر سے وزیراعلیٰ یہ معاملہ اُن کے سامنے اٹھاتے ہوئے ڈرتے تھے ۔اگربجلی کے خالص منافع کی مد میں بقایاجات کا مسئلہ اُس وقت حل کرلیاجاتا تو آج وفاق پر چڑھائی کی دھمکیاں دینے کی نوبت نہ آتی۔ اگرچہ  اس معاملے کو سیاست کے طورپر بھی استعمال کیاجارہا ہے، جس کا سیاسی جماعتوں کو وقتی فائدہ تو ہورہا ہے لیکن مستقبل قریب میں اس کے مضراثرات زیادہ ہوں گے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭