حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام: جلیل القدر پیغمبر

تحریر : مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان


حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر اور مقرّب ترین پیغمبروں میں سے ایک ہیں، جنہیں خلیل اللہ یعنی ’’اللہ کے دوست‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد، آپؑ ہی وہ پہلے نبی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے توحید کی دعوت پھیلانے کیلئے مبعوث فرمایا۔

حضرت ابراہیمؑ نے عراق، مِصر، شام، فلسطین سے لے کر عرب کی صحرائی وادیوں تک توحید کی دعوت عام کی۔ پھر اپنے مشن کی تکمیل کیلئے سرزمین عرب میں اپنے بڑے بیٹے، حضرت اسماعیل علیہ السلام، شام و فلسطین میں دوسرے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام اور مشرقی اردن میں اپنے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کو مقرر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں 69 مقامات پر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا ذکر کیا ہے۔ 

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آبائواجداد عرب سے ہجرت کر کے ’’بابل‘‘ میں آباد ہو گئے تھے۔ حج و عمرہ کی اکثر عبادات کا تعلق سنت ابراہیمی سے ہے، اسی طرح قربانی بھی آپ علیہ السلام اور آپ کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی لازوال محبت کا مظہر ہے۔ آپ علیہ السلام کے حالات و واقعات کاجاننا، ایمان کو جلا بخشتا ہے۔ اس مضمون میں اختصار کے ساتھ آپؑ کے حالات قلمبندکیے جا رہے ہیں۔

حضرت ابراہیمؑ کے قرآنی اوصاف

 آپ علیہ السلام کے پانچ اوصاف قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہیں جوکہ حسب ذیل ہیں:

(1)خلیل (مخلص دوست): ’’دین اختیار کرنے کے اعتبار سے اُس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا روئے نیاز اللہ کیلئے جھکا دیا اور وہ صاحبِ احسان بھی ہوا، اور وہ دین ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کرتا رہا جو (اللہ کیلئے) یکسُو (اور) راست رَو تھے، اور اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا مخلص دوست بنا لیا تھا‘‘ (النساء: 125)

(2) حلیم (بہت تحمل والا)،(3)اَوّاہ (بہت آہیں بھرنے والا)،(4)مُنِیب (بہت رجوع کرنے والا)، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہ تینوں اوصاف ایک ہی آیت کریمہ میں اکٹھے ذکرہوئے۔’’بیشک ابراہیم علیہ السلام بڑے متحمل مزاج، آہ و زاری کرنے والے، ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرنے والے تھے‘‘ (ہود:75)

(5)۔صدیق ( ہمیشہ سچ بولنے والا) ،’’آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم  علیہ السلام کا ذکر کیجئے، بیشک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے‘‘ (سورہ مریم:41)

نبوت و دعوت

سیدناابراہیم علیہ السلام کوجب اللہ تعالیٰ نے مزید عزت و جلال دینے کا ارادہ فرمایا،توحضرت جبرائیل علیہ السلام کوپیغام دے کر بھیجا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کی راہنمائی کیلئے چن لیا ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ’’ کون ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے دین سے رُوگرداں ہو سوائے اس کے جس نے خود کو مبتلائے حماقت کر رکھا ہو، اور بیشک ہم نے انہیں ضرور دنیا میں (بھی) منتخب فرما لیا تھا اور یقیناً وہ آخرت میں (بھی) بلند رتبہ مقرّبین میں ہوں گے‘‘ (البقرہ : 131)

آپ علیہ السلام کی ذمہ داری جب اللہ تعالیٰ نے لگادی توآپ علیہ السلام نے پھر مختلف انداز سے دعوت و تبلیغ کافریضہ سرانجام دیا۔ گھرکے سربراہ آپ کے چچا آزر تھے جو حالت کفر میں تھے اوربت تراش تھے۔ آپؑ نے تبلیغ کے سلسلے میں سب سے پہلے اپنے چچا کو سمجھانے کی کوشش کی۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیمؑ اور ان کے چچا آزر کا تذکرہ سورہ مریم کی آیات کریمہ41 تا47 میں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت پرستی کو کن کن دلائل و براہین سے رد کیا اس کی بھی ایک جھلک قرآن مجید سورۃ الانعام کی آیت کریمہ 74تا 84 میں موجود ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو شرک سے باز رکھنا چاہا اور جب وہ نہ مانے تو ایک بار جب سارے لوگ کسی تہوار پر گئے ہوئے تھے، آپ نے تمام بتوں کو توڑ دیا اور کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا۔ قرآن مجید میں یہ واقعہ سورۃ الانبیاء کی آیات52تا 68 میں آپؑ کے بتوں کوتوڑنے سے آپؑ کے نارنمرود میں ڈالے جانے اور آگ کے ٹھنڈا ہونے تک کے واقعہ کا تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

قوم ابراہیم

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی  وہ قوم ہے جسے آپؑ نے توحید کی دعوت دی، پھر ان سے مایوس ہو کر اللہ کے حکم سے آپؑ نے ہجرت فرمائی۔ قرآن مجید میں آپؑ کی قوم کا ذکر موجود ہے: ’’کیا ان کے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو ان سے پہلے تھے، قومِ نوح ، عاد، ثمود، قومِ ابراہیم، باشندگانِ مدین اور ان بستیوں کے مکین جو الٹ دی گئیں، ان کے پاس (بھی) ان کے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے تھے (مگر انہوں نے نافرمانی کی)، پس اللہ تعالیٰ تو ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا لیکن وہ (انکارِ حق کے باعث) اپنے اوپر خود ہی ظلم کرتے تھے‘‘ (التوبہ: 70)

تعمیرکعبہ

علامہ سید محمود آلوسی لکھتے ہیں: کعبہ معظمہ کو پانچ مرتبہ بنایا گیا ہے۔ پہلی بار کعبہ کو حضرت آدم علیہ السلام کیلئے فرشتوں نے بنایا اور اس وقت یہ سرخ یاقوت سے بنا ہوا تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام کے طوفان میں اس کی بنیادیں اکھڑ گئیں اور اس کو دوسری بار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بنایا۔ روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انھیں بیت اللہ کو بنانے کا حکم دیا تو ان کو یہ پتا نہیں چلا کہ وہ کس جگہ بیت اللہ کو بنائیں، پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ہوا بھیجی جس کا نام ریح الخجوج تھا، اس نے کعبہ کی بنیادوں سے کوڑا کرکٹ صاف کر دیا۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کو اس کی قدیم بنیادوں پر تعمیر کیا اور تیسری بار اس کو زمانہ جاہلیت میں قریش نے بنایا اس کی تعمیر میں نبیﷺ بھی شریک تھے۔ چوتھی متربہ کعبہ کو حضرت عبداللہ ابن الزبیرؓ نے بنایا اور پانچویں بار اس کو حجاج نے بنایا اور وہی بنا آج تک قائم ہے (روح المعانی، ج17، ص211)۔

اعلانِ حج

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ علیہ سورۃ الحج کی آیت نمبر27کے تحت لکھتے ہیں:آپ لوگوں کے درمیان منادی کر کے انہیں اس گھر کی طرف حج کرنے کی دعوت دیجئے، جس کی تعمیر کا ہم نے آپؑ کو حکم دیا تھا، کہتے ہیں کہ یہ حکم سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا: میں کیسے انہیں یہ پیغام پہنچا سکتا ہوں، جبکہ میری آواز ان تک نہیں پہنچ سکتی؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم آواز لگاو، پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے، لہٰذا وہ اپنے مقام (مقام ابراہیم) پر کھڑے ہوئے اور ایک روایت کے مطابق کسی پتھر پر کھڑے ہوئے، ایک دوسری روایت کے مطابق صفا پر کھڑے ہوئے، اور ایک تیسری روایت کے مطابق ابو قبیس پہاڑ پر کھڑے ہوئے، چنانچہ وہاں کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آواز لگائی: اے لوگو! تمھارے رب نے اپنے لیے ایک گھر بنایا ہے سو اس کا حج کیا کرو۔ کہا جاتا ہے کہ یہ آواز سن کر پہاڑ جھک گئے، حتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آواز روئے زمین کے تمام گوشوں میں پہنچ گئی، جس شے نے بھی ان کی آواز سنی، اس نے ان کا جواب دیا ،خواہ وہ پتھر ہو، ڈھیلا ہو یا کوئی درخت ہو، اوران تمام لوگوں نے بھی ان کے جواب میں ’’میں حاضر ہوں یا اللہ میں حاضر ہوں‘‘ کا جملہ دہرایا۔ (تفسیرابن کثیر،  ج3، ص 217)

ابتلاء ابراہیمی اورانعام

 اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پہلا امتحان اس وقت لیا جب انہیں آگ میں پھینکا گیا۔ آپؑ علیہ السلام اس آزمائش میں پورے اترے اور جان کی پروا نہ کرتے ہوئے، اللہ پر توکل کرتے ہوئے دعوت حق سے پیچھے نہ ہٹے۔ آپؑ کی آزمائشوں کا سلسلہ یہیں بند نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کئی اور امتحان لئے۔ان آزمائشوں کاتذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے۔ اپنی قوم سے علیحدگی کرنا، بادشاہ وقت سے نڈر ہو کر اسے بھی تبلیغ کرنا پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو مصیبت آئے اس پر صبر کرنا سہنا ،پھر وطن اور گھر بار کو اللہ کی راہ میں چھوڑ کر ہجرت کرنا ، مہمانداری کرنا ،اللہ کی راہ میں جانی اور مالی مصیبت برداشت کرنا، یہاں تک کہ بچہ کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا اور وہ بھی اپنے ہی ہاتھ سے۔ یہ کل احکام خلیل الرحمٰن علیہ السلام بجا لائے۔ سورج، چاند اور ستاروں سے بھی آپ کی آزمائش ہوئی۔ 

حضرت ابراہیمؑ کے مناقب

 احادیث مبارکہ کی روشنی میں

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فضائل و مناقبت پر مشتمل چند احادیث طیبات حسب ذیل ہیں: حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرمﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! تم روزِ حشر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یوں حاضر کیے جاؤ گے کہ برہنہ پا، ننگے جسم اور بغیر ختنہ کے ہو گے۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا، ہم (اس کے ختم ہو جانے کے بعد) اسی عملِ تخلیق کو دہرائیں گے‘‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ساری مخلوق میں سب سے پہلے جنہیں لباس پہنایا جائے گا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوں گے‘‘(صحیح بخاری: 4349)۔ حضرت امِ شریک رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا: یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کیلئے (نمرود کی) جلائی گئی آگ میں (اسے بھڑکانے کیلئے) پھونکیں مارتی تھی‘‘ (صحیح بخاری: 3180)  حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! (اے مخلوق میں سب سے زیادہ بہتر) آپ ﷺ نے فرمایا: وہ ابراہیم علیہ السلام ہیں‘‘(صحیح مسلم:2369)۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (روزِ حشر) لوگ کہیں گے: اے ابراہیمؑ! آپ اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور آپ کی دوستی کا آسمان والوں اور زمین والوں نے بھی خوب سن رکھا ہے‘‘ (مستدرک حاکم: 4017) ۔ حضرت سمرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بیشک انبیاء کرام علیھم السلام میں سے ہر دو نبی روزِ قیامت آپس میں دوست ہوں گے، آپﷺ نے فرمایا: پس اس دن ان میں سے میرا دوست وہی ہو گا جو اللہ تعالیٰ کا بھی دوست ہے یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام‘‘(المعجم الکبیر: 7052)  

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔