زرعی ٹیکس،بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ؟

تحریر : طلحہ ہاشمی


وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی میں اختلاف کی خبریں اپنی جگہ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ ملک میں ٹیکس کا نظام مضبوط بنانے اور ٹیکس نیٹ بڑھانے میں دونوں سنجیدہ ہیں۔ حال ہی میں صدر مملکت آصف علی زرداری کے ایک بیان نے جہاں بڑے جاگیرداروں اور وڈیروں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے وہیں عوام نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔

 تنخواہ دار طبقے سے لے کر مزدور تک کسی نہ کسی شکل میں ٹیکس ادا کررہے ہیں لیکن جن کی ہزاروں ایکڑ زمین ہے اور جو کروڑوں، اربوں روپے کا منافع  کماتے ہیں وہ مزے میں ہیں۔ صدر زرداری نے واضح کردیا کہ زراعت کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا اور بڑے جاگیرداروں کو ملکی معیشت کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ صدر صاحب نے یہ مشورہ بھی دیا کہ زراعت ٹیکس جمع کرنے کا اختیار صوبوں کو ہو۔ اللہ کرے یہ طاقتور طبقہ ٹیکس دینے لگے ورنہ آج تک تو یہی ہوتا آیا ہے کہ کوئی نہ کوئی راہ نکال کر زراعت کو ٹیکس نیٹ سے باہر رکھ لیا جاتا ہے۔ٹیکس کی بات ہے تو ایک نجی ٹیکسٹائل مل کے بارے میں جان لیں کہ جس نے چوری کی حد ہی کردی۔ ایف بی آر کی رپورٹ کے مطابق سہولتوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے ساڑھے بارہ کروڑ روپے  ڈیوٹی اور ٹیکسز کی مد میں چوری کیے گئے۔ حیرت ہے جس کا جہاں ہاتھ پڑ تا ہے باز نہیں آتا۔ ملک معاشی تباہی کے دہانے پر ہے لیکن کچھ لوگ ہیں جو اپنی بوٹی کے لیے پورا اونٹ ذبح کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کو کوئی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔ جتنی چوری کی اس کی وصولی کے ساتھ جرمانہ بھی لگانا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی ایسا نہ کرے۔عوام بجلی کے بلوں اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور یہ لوگ جو اس ملک سے کما رہے ہیں معمولی سا ٹیکس دینے کو بھی تیار نہیں۔ مزے کی بات ہے کہ ملک کی معاشی بدحالی کا رونا بھی یہی لوگ روتے ہیں۔عوام کے پاس تو اپنی بدحالی کا ذکر کرنے کے سوا کوئی دوسرا موضوع رہا بھی نہیں۔

ملکی میں مہنگائی کی صورتحال کا ذکر کریں تو معاشی دباؤ کے نفسیاتی اثرات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ اگلے روز کراچی میں ایک سافٹ ویئر انجینئر نے نجی کمپنی کے مالک کو قتل کردیا، وجہ تنخواہ کی عدم ادائیگی تھی جو قتل کے وقوعے کا سبب بن گئی۔ اسے  قتل کی عام واردات سمجھنا غلطی ہوگی، آجر اور اجیر کے درمیان کام اور اجرت کا رشتہ ہے۔ یہ رشتہ وقت کے ساتھ ساتھ  کمزور ہوتا جارہا ہے، کام زیادہ لیا جاتا ہے اور تنخواہ کم ہوتی ہے، اگر وہ بھی وقت پر نہ ملے تو مزدور کہاں جائے؟ اس اہم نکتے پر سوچ بچار کی اشد ضرورت ہے۔ایک طرف عوام مہنگائی میں پس رہے ہیں تو ہول سیلرز اور ریٹیلرز نے اپنے اوپر لگایا گیا ٹیکس عوام پر منتقل کرنا شروع کردیا ہے۔ دالوں کی ہول سیل قیمت میں پچاس روپے فی کلو اضافہ کیا جاچکا ہے، سبزیوں اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی روزانہ کی بنیاد پر اضافہ کیا جارہا ہے، حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ منافع خور اپنے ٹیکس کا بوجھ عوام پر منتقل کرنے سے باز رہیں۔

دوسری جانب وفاقی حکومت ہو یا صوبائی، ہر طرف سے سکیورٹی، سکیورٹی کی آوازیں آ رہی ہیں۔ دہشت گردی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی، موجودہ حکومت پچھلی پر اور پچھلی حکومت موجودہ پر دہشت گردی بڑھنے کے الزام عائد کر رہی ہے۔ خیبرپختونخوا میں سابق سینیٹر کو شہید کیا گیا تو کراچی میں سی ٹی ڈی کے ایک اعلیٰ افسر علی رضا کو قتل کردیا گیا۔ یہ وہی علی رضا ہیں جو چوہدری اسلم کے قریبی ساتھی تھے اور اب انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اُدھر کچے میں رینجرز اور پولیس کا مشترکہ آپریشن جاری ہے، بھیو گینگ کا سربراہ مارا جا چکا ہے اور آپریشن میں تین ہندو تاجروں کو بازیاب کرالیا گیا ہے۔ کارروائی تھوڑی تیز ہوجائے تو کیا حرج ہے۔ سکیورٹی کی ابتر صورتحال کے باعث محرم الحرام میں سندھ حکومت نے اہم اقدامات کا فیصلہ کرلیا ہے، ذرائع کے مطابق اس بار سکیورٹی انتظامات زیادہ کیے جائیں گے اور ان پر عمل بھی سختی سے کرایا جائے گا۔

اب کچھ بات بارش کی بھی کرلیتے ہیں کہ شدید گرمی کا شکار سندھ کے عوام کو کچھ ریلیف ملا ہے۔ جہاں جہاں بارش ہوئی وہاں گرمی کی شدت میں کچھ کمی آئی ہے لیکن بہت سے شہر اب بھی 49 ڈگری کی گرمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ کراچی میں تو ہمیشہ کی طرح وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے، معمولی سی بارش کے بعد سڑکوں پر پانی جمع ہوگیا، جسے انتظامیہ نے نکال بھی دیا، لیکن اگر یہی صورتحال رہی اور ندی نالوں کی صفائی نہ کی گئی تو چار چھ گھنٹے کی مسلسل بارش شہر کو ایک بار پھر ڈبو دے گی۔ ایم کیو ایم نے شہری حکومت پر تنقید کی تو پیپلز پارٹی کے نمائندوں نے بھی جوابی محاذ سنبھال لیا۔ علی خورشیدی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مرتضیٰ وہاب کی حیثیت یا اوقات ہی کیا جو مصطفی کمال پر تنقید کرے، مانگے تانگے کا میئر بنا بیٹھا ہے۔ میئر صرف یہ بتائیں کہ انہوں نے کتنے نالے صاف کرائے اور ان کی اب تک کی کارکردگی کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ الزامات کی سیاست کرتے ہیں، ساتھ ہی عوامی خدمت کا تھوڑا بہت کام بھی کر گزریں۔ یقین کریں عوام کی خدمت کرکے شرمندگی نہیں ہوگی۔ایک افسوسناک خبر یہ بھی ہے کہ کراچی کے دو اضلاع کورنگی اور جنوبی سے سیوریج کے پانی کے نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا ہے۔ دنیا سے یہ مرض ختم ہوچکا ہے مگر پاکستان میں یہ پھر پھیل رہا ہے۔ حکومت مسلسل مہم چلا رہی ہے، عوام کو بھی اپنی ذمہ داری کا خیال کرنا چاہیے اور بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے چاہئیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔