ابتدائی اینگلوسَیکسَن ادب

یورپ کے مختلف ممالک میں قومی ادب نشاۃ ثانیہ کے بعد ہی پھلے پھولے مگر ان کے بیج ہر ملک کی سرزمین پر عرصہ دراز سے موجود تھے اور ان کی جڑیں برابر پھیلتی رہیں۔ چنانچہ اینگلو سَکیسَن قوم(جو یہاں پانچویں صدی عیسوی میں آکر آباد ہوئی تھی) کے ادب پاروں میں ہمیں اس مخصوص ادب کی جھلک دکھائی دیتی ہے جو ملکہ الزبتھ کے عہد میں اپنے اوج کمال پر پہنچا اور اپنی قومی انفرادیت کی بنا پر تمام یورپ کے ادب سے ممتاز نظر آیا۔
یہ دریائے ایلبے(elbe) اور اوڈر (Oder) کے درمیان رہنے والی المانی قوم کے قبیلے، ھُن (Hun) قوم کے شدائد سے پریشان ہو کر جزائر برطانیہ میں آکر آباد ہو گئے۔ اینگلوں نے دریائے (Humber) ھمبر کے شمال کے تمام حصے پر، جوٹوں (Jutes)نے کینٹ(Kent) کے صوبے پر، اور سیکسنوں نے باقی ملک پر قبضہ جما لیا۔ یہ سب لوگ کافر تھے مگر چھٹی صدی عیسوی کے اختتام تک سب نے عیسائیت قبول کر لی اور ان کے ادبی شاہکارجو ہم تک پہنچے ہیں، وہ ساتویں صدی کے آخر میں وجود میں آئے۔ اس صدی تک اینگلو سَیکسَن قوم سب سے زیادہ نمایاں ہو چکی تھی۔ اس کا خاص پیشہ زراعت تھا اور عیسائیت کے اثر سے اس نے اپنا ایک خاص سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی نظام بنا لیا تھا۔ اس کے ادب پر عیسائیت کا اثر نمایاں ہے۔ اس ادب میں اس قوم کے زمانہ جاہلیت کے رسوم اور دیوتائوں کے نام ملتے ہیں مگر یہ سب عیسائیت کے اثر سے بدل دیئے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ اینگلو سَیکسَن ادب کو عیسائی ادب کہنا غلط نہ ہوگا۔
اس وقت ہمارے پاس اینگلو سیکسن ادب کا جو ذخیرہ ہے اس کو یکجا کرنے والے لا طینی زبان کے وہ علماء تھے جو انگلستان میں عیسائیت کے پھیلنے کے بعد ظہور میں آئے۔595ء میں سینٹ آگسٹائن نے روم سے آکر کینٹ میں کینٹربَری کا گرجا قائم کیا۔ تقریباً اسی زمانے میں (North Hmberia)میں پادریوں نے تبلیغ کا کام شروع کیا۔ ان دو مرکزوں سے عیسائیت پھیلتی ہوئی سیکسن لوگوں میں پہنچی۔ اوّل الذکر سے متعلق لاطینی عالم اولڈھم (Oldhum) اور ثانی الذکر سے متعلق بیڈ (Bede) اور الکوئن(Alcuin) خاص طور پر نمایاں ہوئے۔ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے لاطینی کو اپنے ادبی اور علمی مطالب کے ادا کرنے کا ذریعہ بنایا مگر اینگلو سیکسن کی جتنی تصانیف اُنہیں مل سکیں ان کو بھی جمع کیا۔
انہوں نے جو چیزیں چھوٹی ہیں ان میں پہیلیاں ہیں، نیز خاصی تعداد مختلف قسم کی نظموں کی ہے۔ ان نظموں کو واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جن پر کفر کا اثر اس قدر غالب ہے کہ جو بھی عیسائیت کے اثرات ان میں ملتے ہیں ان کی بابت یہ رائے قائم کرنا پڑتی ہے کہ یہ عالموں کی جدت کا نتیجہ ہیں۔ یہ نظمیں ادبی نقطہ نظر سے زیادہ بلند ہیں۔ دوسری قسم کی نظمیں وہ ہیں جو ادبی لحاظ سے کم درجے کی ہیں مگر تمام تر عیسائیت کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔
مذہبی رجحانات کی فراوانی ہمیں متعدد طویل نظمیں اور کئی مختصر نظموں بھی ملتی ہے۔ ’’وڈستھ‘‘، ’’ڈی اور‘‘ اور ’’بیوولف‘‘ جیسی نظموں میں ہمیں جنگلی زندگی، مہمات، روایات اور رسوم کے بیانات ملتے ہیں۔ رومانیت اور جذبات غم کا رنگ ان پر طاری نظر آتا ہے۔ ’’وڈِ سِتھ‘‘ یعنی بڑا سیاح ایک قبیلے سے دوسرے قبیلے میں جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہ بہت سے بادشاہوں سے ملتا ہے جو اس کو نوازتے ہیں اور جن کے حالات وہ رقم کرتا ہے ان بادشاہوں میں اکثر تاریخی اہمیت رکھتے ہیں اور وہ بڑی حد تک روایتی ہیں۔ یہ نظم تاریخی معلومات میں اضافہ کرتی ہے اور ادبی لحاظ سے اس میں ایک خاص زور اور چمک ہے جو گہرا اثر کرتی ہے۔ ’’ ڈی اور‘‘ایک قسم کا مرثیہ ہے جس میں ایک غم زدہ شاعر اپنی بدقسمتی کا رونا روتا ہے کیونکہ اس کی مربی نے اس کے مد مقابل کو اس پر ترجیح دے دی ہے، وہ ایسے بڑے لوگوں اور دیوتائوں کو یاد کرتا ہے جو اس قسم کے حالات سے دوچار ہو چکے تھے۔ نظم کا غنائی اور جذباتی اثر خاص طور پر قابل ذکر ہے۔
ان تینوں نظموں میں ’’بیوولف‘‘ سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس میں ہمیں ایک پوری سوسائٹی کی مکمل تصویر ملتی ہے۔ اس کا منظر برطانیہ نہیں بلکہ سی لینڈ کا جزیرہ اور سویڈن کا جنوبی حصہ ہے۔ بیوولف، گیٹ قوم کا بہادر ہے جو اپنے ساتھیوں کو لے کر ڈین قوم کے بادشاہ ہروتھگار (Hrothgar) کی مدد کیلئے آتا ہے۔ہروتھگار کے قلعے پر ہر رات ایک اژدھا حملہ کرتا ہے اور بادشاہوں کے ساتھیوں میں سے کسی ایک کو نگل جاتا ہے۔اژدھوں اور ان کے رہنے کے مقامات کی منظر کشی نہایت گہرے خوف کے اثرات پیدا کرتی ہے۔ سب سے زیادہ مشہور حصہ اس نظم کا وہ بیان ہے جس میں وہ اژدھے کی ماں کے رہنے کی جگہ کی تصویر کشی کی ہے۔ غم کا جذبہ پوری نظم پر طاری نظر آتا ہے۔ جنگ کے حالات، فتح کے مواقع، ہیرو کے کردار وغیرہ کے ساتھ دنیا کی بے ثباتی اور انسانی شکوہ کی ناپائیداری کا بار بار ذکر ہے۔ پوری نظم کی فضا حزن و ملال سے تاریک ہے اور کہیں پر بھی امید کی کوئی کرن نہیں دکھائی دیتی۔
اینگلو سیکسن ادب میں نثربھی کافی اہمیت رکھتی ہے۔ کچھ مصنفین نے لاطینی میں تصانیف چھوڑی ہیں جو ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد لاطینی کو قومی زبان میں ترجمہ کرنے کی تحریک شروع ہو گئی۔ اس سلسلے میں بادشاہ الفریڈ اعظم کی ہستی بہت اہم ہے۔ اپنے آ پ کو ملک میں سب سے زیادہ طاقتور بنانے کے بعد اس نے اپنی قوم کے کلچر کو طرف توجہ دی۔ اپنے دربار میں ہر طرح کے عالموں کو جمع کیا، لاطینی زبان سیکھی اور خود ترجمے کے کام میں مصروف ہو گیا۔ اس کی نثر قومی ادب میں ایک مخصوص حیثیت رکھتی ہے۔901ء میں الفریڈ کے دور کے خاتمے کے ساتھ ادب کی ترقی بھی رک گئی۔
پھر جب خانقاہوں کی اصلاح کا دور آیا اور سینٹ بینیڈکٹ (st. benedict)کا دور دورہ ہوا تو مختلف نظریات کو عوام تک پہنچانے کیلئے نثر کو ذریعہ بنایا گیا۔ اس سلسلے میں دو نثر نگار نمایاں ہوئے جن کی نثر شاہ الفریڈ کی نثر سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ صفائی، حسن ، آہنگ اور ایجاز و اختصار اس نثر کی خاص صفات ہیں۔ ایلفرک کے ہم عصر ولفٹسٹان (Wolfistan)کی نثر بھی نمایاں حیثیت رکھتی ہے،کچھ بھی عرصے کے بعد اینگلوسیکسن قوم نارمنوں کی غلامی میں آ گئی اور کلچر میں ایک انقلاب آیا اور ادب کا ایک نیا دور شروع ہوا۔