شہداء کربلا
واقعہ کربلا کے سلسلہ میں مؤرخین کے ہاں مختلف روایات پائی جاتی ہیں۔ بعض مؤرخین نے امامؓ کی فوج کو 72 تک ہی محدود کیا ہے۔ ان لوگوں نے صرف کربلا میں صبح عاشور سے لے کر عصر عاشور تک کے شہداء کو مانا ہے۔
جو لوگ اس تعداد سے زیادہ کے قائل ہیں، ان لوگوں نے ہر اس شہید کو شہدائے کربلا کے زمرے میں شمار کیا ہے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ جنگ کربلا سے منسلک تھے، مثلاً مسلم ابن عقیل کربلا میں شہید نہیںہوئے، انہیں امامؓ نے سفیر کی حیثیت سے کوفہ روانہ کیا تھا۔ اسی طرح بعض نصرانی دربارکوفہ و شام میں مسلمان ہو کر یزید پر نفرین کرنے لگے تو یزید نے ان کو قتل کروایا یا پھر وہ بچے جو عصر عاشور خیموں کی پامالی میں شہید ہوئے یا راہ کوفہ و شام میں شہید ہوئے۔ یہ تقریباً 140 ناموں کی فہرست ہے۔ بعض کتب 108 نام اور بعض میں کم یا زیادہ نام ملتے ہیں۔ اس فہرست میں بنی ہاشم (کے 25 سے زیادہ شہدا) اور غلام (30 کے قریب) نیز دیگر (جیسے یوم عاشورہ سے پہلے کے شہداء وغیرہ یا دشمنوں کے لشکر سے آنے والے شہداء 10 کے قریب) کو شمار نہ کیا جائے تو مشہور تعداد 72 بنتی ہے۔اگر بنی ہاشم کے شہدا کو ملا کر شمار کیا جائے تو شہدائے کربلا کی تعداد 136 ہو جائے گی۔ اگر قیس بن مسہر صیداوی، عبد اللہ بن بقطر اور ہانی بن عروہ جو واقعہ کربلا سے پہلے کوفہ میں شہید کیے گئے تھے کو بھی اس واقعہ سے مربوط کر کے شمار کیا جائے تو کل تعداد 139 ہو گی۔
شہدائے کربلا میں بنی ہاشم کے سب شہداء حضرت ابوطالب کے ہی پوتے اور پڑپوتے تھے۔علیؓ بن ابی طالب کے بیٹے(تعداد 7): حسین بن علیؓ (سالار لشکر)، عباس بن علیؓ (غازی عباس علمدار)، جعفر بن علیؓ، عبد اللہ بن علیؓ، عثمان بن علیؓ، عمر بن علیؓ، ابو بکر بن علیؓ۔
حسن بن علیؓ کے بیٹے (تعداد 5):ابو بکر بن حسنؓ، بشر بن حسنؓ، عبد اللہ بن حسنؓ، قاسم بن حسنؓ، عمر بن حسنؓ۔
حسین بن علی کے بیٹے(تعداد 2):علی اکبر بن حسینؓ ، علی اصغر بن حسینؓ۔
عبداللہ بن جعفر و زینب بنت علی کے بیٹے (تعداد 2):عون بن عبد اللہ، محمد بن عبد اللہ۔
عقیل ابن ابی طالبؓ کی اولاد (بیٹے اور پوتے)،مسلم بن عقیل (جائے شہادت کوفہ تعداد 8):عبد الرحمان بن عقیل، عبد اللہ اکبر بن عقیل، جعفر بن عقیل، عبد اللہ بن مسلم بن عقیل، عون بن مسلم بن عقیل، محمد بن مسلم بن عقیل، جعفر بن محمد بن عقیل، احمد بن محمد بن عقیل۔
سلام
طبع میں کیا، تیغ بُراں میں روانی چاہئے
گل فشانی تا کجا، اب خوں فشانی چاہئے
بستۂ زنجیر محکومی! خبر بھی ہے تجھے
مہر و مہ پر تجکو عزم حکمرانی چاہئے
مرقد شہزادۂ اکبر سے آتی ہے صدا
حق پہ جو مٹ جائے، ایسی نو جوانی چاہئے
شاہ فرماتے ہیں ’’جا لے جا خدا کے نام پر‘‘
موت جب کہتی ہے اکبر کی جوانی چاہئے
عمر فانی سے تو برگ کاہ تک ہے بہرہ مند
مرد کو ذوق حیات جاودانی چاہئے
کون بڑھتا ہے لہو تھوڑا سا دینے کیلئے
اے عزیزو! دین کی کھیتی کو پانی چاہئے
جن کے سینوں میں ہو سوزِ تشنگانِ کربلا
ان جواں مردوں کی تلواروں میں پانی چاہئے
جوش! ذکر جرأت مولا پہ شیون کے عوض
رخ پہ شان و فخر و ناز کامرانی چاہئے
جوش ملیح آبادی
شہید ِ کربلا
حکایتِ غمِ ہستی تمام کہتا ہوں
میں دِل کی بات بہ فیضِ امامؓ کہتا ہوں
عزیمت اُن کی ہے آئینہ ٔ ضمیر نُما
اُنہیں سلام بہ صد احترام کہتا ہوں
ہے لازوال کچھ ایسا حسین ؓ کا کردار
اُسے بہار بقائے دوام کہتا ہوں
عبادتِ شبِ آخر وہ پورِ حیدرؓ کی
جسے وقارِ قعود و قیام کہتا ہوں
اُنہی کے در کو سمجھتا ہوں بابِ استقلال
اُنہی کے گھر کو میں دارالسلام کہتا ہوں
یہ انتساب ہے سرمایۂ ثبات مرا
کہ خود کو آلِ نبی ؐکا غلام کہتا ہوں
یہ حوصلہ بھی ہے تائب ، عنایت ِ شبیرؓ
جو حرفِ حق میں سرِ بزمِ عام کہتا ہوں
حفیظ تائب