حسن اخلاق کے فضائل

تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری


حسن اخلاق کے فضائل کا مطالعہ کیجئے، جب کسی چیز کے فضائل پیش نظر ہوں تو اسے اپنانا آسان ہو جاتا ہے۔ حسن اخلاق کی معلومات کیلئے علامہ طبرانی کی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی کتاب مکارم اخلاق ترجمہ بنام حسن اخلاق، حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمدغزالی ؒکی مایہ ناز تصانیف احیاء العلوم، جلدسوم اور مکاشفۃ القلوب کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

اچھی صحبت اختیار کرو: صحبت اثر رکھتی ہے، جو بندہ جیسی صحبت اختیار کرتا ہے ویسا ہی بن جاتا ہے، اچھوں کی صحبت اچھا اور بروں کی صحبت برا بنا دیتی ہے، بداخلاقوں کی صحبت بدخلق اور حسن اخلاق والوں کی صحبت حسن اخلاق والا بنا دیتی ہے۔ 

بداخلاقی کی برائیوں پر غور کیجئے: بداخلاق شخص سے لوگ نفرت کرتے ہیں، اس سے دُور بھاگتے ہیں، اُسے دنیوی معاملات میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ خود بھی پریشان رہتا ہے اور لوگوں کو بھی پریشان کرتا ہے، بد اخلاق شخص کے دشمن بھی زیادہ ہوتے ہیں،بندہ برے اخلاق کے سبب جہنم کے نچلے طبقے میں پہنچ سکتا ہے، بداخلاق شخص اپنے آپ کو دنیاوی مصیببت میں بھی مبتلا کر لیتا ہے، بداخلاق شخص ٹوٹے ہوئے گھڑے کی طرح ہے جو قابل استعمال نہیں ہوتا۔

نیک اعمال کی معلومات حاصل کیجئے: جب تک بندے کو ایسے نیک اعمال کی معلومات نہیں ہوں گی جو حسن اخلاق میں شامل ہیں تو اس وقت تک حسن اخلاق کو اختیار کرنا دشوار ہو گا۔

 احترامِ مسلم پیدا کیجئے: جب بندے کے دل میں مسلمانوں کا احترام پیدا ہو گا تو خودبخود ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئے گا۔ احترامِ مسلم پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بندہ خود سے تمام لوگوں کو اچھا جانے،خودکو گنہگار سمجھے، عاجزی و انکساری اختیار کرے، یوں احترامِ مسلم پیدا ہو گا۔

نفسانی خواہشات سے پرہیز : بسااوقات ذاتی رنجش، ناپسندیدگی اور ناراضی کی بناء پر نفس اپنے غصے کا اظہار غیبت، گالی گلوچ، چغلی وغیرہ جیسی بداخلاقی کی بدترین قسموں سے کرواتا ہے جو حسن اخلاق کی بدترین دشمن ہیں لہٰذا نفسانی خواہشات سے پرہیز کیجئے تاکہ حسن اخلاق کی دولت نصیب ہو۔

حسن اخلاق کی بارگاہ الٰہی میں دعا: دعا مومن کا ہتھیار ہے، نبی کریمﷺ کی دو دعائیں پیش خدمت ہیں: ’’اے اللہ عزوجل! تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے پس میرے اخلاق کو بھی اچھا کر دے‘‘۔ ’’اے اللہ عزوجل! میں تجھ سے صحت، عافیت اور اچھے اخلاق کا سوال کرتا ہوں‘‘۔ 

 برائی کا جواب اچھائی سے دیجئے: برائی کا جواب بھلائی سے دینے کو افضل اخلاق میں شمار کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمانِ مصطفی ﷺ ہے، ’’دُنیا و آخرت کے افضل اخلاق میں سے یہ ہے کہ تم قطع تعلق کرنے والے سے صلہ رحمی کرو، جو تمہیں محروم کرے اسے عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کر دو‘‘۔

 بداخلاقی کے اسباب کو دُور کیجئے: بداخلاقی حسن اخلاق کی ضد ہے، جب بداخلاقی دُور ہو جائے گی تو حسن اخلاق خود ہی پیدا ہو جائے گا۔ بداخلاقی کا ایک سبب منصب یا عہدے کا چھن جانا بھی ہے کہ جب بندے س کوئی منصب یا عہدہ چھین لیا جائے تو بسا اوقات وہ بداخلاق ہو جاتا ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ کسی بھی منصب کو مستقبل اور دائمی نہ سمجھے بلکہ اپنا یوں ذہن بنائیے کہ مجھے تو دنیا میں بھی مخصوص مدت تک رہنا ہے تو یہ منصب ہمیشہ کیسے رہے گا، جب پہلے سے ہی منصب کے ہمیشہ نہ رہنے کا ذہن ہو گا تو اس کے چھن جانے پر افسوس بھی نہ ہو گا اور بداخلاقی بھی پیدا نہ ہو گی۔ بسااوقات ضرورت سے زائد مالداری بھی بداخلاقی کا سبب بن جاتی ہے لہٰذا بندے کو چاہئے کہ جتنا دنیا میں رہنا ہے اتنا دنیا کیلئے کمائے اور جتنا آخرت میں رہنا ہے اتنا آخرت کی تیاری کرے۔

بلاوجہ غصہ چھوڑ دیجئے: بلاوجہ غصہ بہت ساری برائیوں کی جڑ ہے، جب بندہ بلاوجہ غصہ کرتا ہے تو بداخلاقی کا شکار ہو جاتا ہے، بلاوجہ غصے کو چھوڑ دینا ہی اچھے اخلاق کی علامت ہے۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن مبارک ؒسے عرض کی گئی کہ ’’ایک جملے میں بتائیے کہ اچھے اخلاق کیا ہیں؟‘‘ ارشاد فرمایا : ’’(بلاوجہ) غصے کو چھوڑ دینا‘‘۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭