شاعروں کا شاعر۔۔۔۔۔راشد

تحریر : ڈاکٹرآفتاب احمد


کہ آپ کااپنا تعارف۔۔۔۔ نام: نذر محمد راشد قلمی نام: ن م راشدتاریخ پیدائش: 9 نومبر1910تاریخ وفات: 9 اکتوبر1975شعری مجموعے: ماورا( اردو نظموں کا مجموعہ) 1941ء ایران میں اجنبی (منظومات کا دوسرا مجموعہ جس میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ایران سے متعلق تیرہ کینٹو بھی شامل ہیں۔ 1955ءلا=انسان (منظومات کا تیسرا مجموعہ)1969ءگمان کا ممکن (منظومات کا چوتھا مجموعہ)1977ء

ن م راشد کی بنیادی حیثیت ایک ایسے اہم شاعر کی ہے جس نے نہ صرف اپنے دور کی روح کی سچی ترجمانی کی ہے بلکہ نئی نسل میں نیا شعور پیدا کرکے، تخلیقی سطح پر، نئے رویوں کو متعین کرنے کا کام بھی کیا ہے۔ آزاد نظم کو عام کرنے میں ان کا نام سرفہرست آتا ہے۔ ن م راشد نے روایت سے انحراف کیا ہے لیکن ساتھ ساتھ انحراف کو روایت سے ملایا بھی ہے۔ یہی ان کے فن کی انفرادیت ہے۔

1941ء میں جب راشد کا مجموعۂ کلام ’’ماورا‘‘ شائع ہوا تو راشد کی آواز ایک نئی آواز تھی اور ایک نئے افق سے بلند ہوئی تھی۔ اس کے الفاظ کا آہنگ، اس کی لے کا زیروبم، اس کے احساس کی لرزشیں، اس کے معانی کے نیمے دروں اور نیمے بروں کیفیت، یہ سب خصوصیات ایک نئے شعور کا پتا دیتی تھیں۔ ’’ماورا‘‘ان چند کتابوں میں سے ہے جن میں نیا شعور پہلے پہل بولا تھا، اس لئے اس کی اشاعت اہم اور عظیم الشان ادبی واقعہ کی حیثیت سے رکھتا ہے۔16 برس کے بعد 1957ء میں راشد کا دوسرا مجموعہ کلام ’’ ایران میں اجنبی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ لیکن اس دوران میں ہمارے ہاں کی ادبی فضا مختلف اثرات کے ماتحت بہت حد تک بدل چکی تھی۔ آزاد شاعری میں وہ جو ایک شائبۂ بغاوت تھا اور جو اپنے اندر نئے پن کی مخصوص کشش بھی رکھتا تھا، رفتہ رفتہ ایک بُری بھلی روایت کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ شاید یہی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ ’’ایران میں اجنبی‘‘ کو ہمارے ادبی حلقوں میں وہ پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی، جس کی وہ حق دار ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس مجموعہ کی نظمیں راشد کی پختہ تر تخلیقی کاوش کا نتیجہ ہیں اور ان میں اس نے فکر و احساس کی نئی سرزمینوں کو دریافت کیا ہے۔

راشد نظم میں ہئیت کے تجربوں کا حامی ضرور ہے لیکن یہ تجربات بذات خود اس کے نزدیک کوئی بڑا کارنامہ نہیں اور کبھی کسی ادیب کو یہ امید بھی نہیں رکھنی چاہئے کہ اس کو صرف اس وجہ سے ادبیات میں کوئی پائندہ حیثیت نصیب ہوگی کہ اس نے نئی اصناف سخن کی تلاش کی، یا ان کی ترویج میں کسی جدت کا مظاہرہ کیا۔ قافیوں کو قدما کے اصول کے خلاف ترتیب دینا مصرعوں کے ارکان میں کمی بیشی کرنا یا بندوں کی ترکیب میں کسی اصول شکنی سے کام لینا یقیناً ایک سطحی حرکت ہے، قابل فخر بات تو صرف یہ ہے کہ اولاً خیالات اور افکار میں اجتہاد ہو، پھر یہ نئے خیالات اور افکار اسلوب بیان کے ساتھ اس قدرمکمل طور پر ہم آہنگ ہوں کہ اس ہم آہنگی سے ادیب کی انفرادیت آشکارا ہو سکے۔

راشد کی انفرادیت اس کی نظموں میں اجاگر ہوتی ہیں؟ وہ ہر اعتبار سے دوسرے ہم عصر شعراء سے مختلف ہے۔سب سے اہم بات احساس ہیئت کی ہے۔ راشد کا احساس ہیئت کس انداز سے ظاہر ہوا ہے، اس نے آزاد نظم کو اپنے لیے کیوں زیادہ موزوں سمجھا اور اس کے استعمال میں کن باتوں کو خاص طور پر ملحوظ رکھا۔ اس میں شک نہیں کہ راشد جب اس صنف سخن کی طرف مائل ہوا تو اس میں کسی حد تک مغرب کی پیروی اور جدت طرازی کے شوق کو بھی ضرور دخل رہا ہوگا کہ وہ اپنے اندر ایک کشش رکھتا ہے، پھر بھی ناقدین سمجھتے ہیں کہ اس کی ایک زیادہ اہم اور وقیع وجہ بھی موجود ہے، اور وہ ہے راشد کا احساس ہیئت۔

ہیئت کا احساس قافیہ اور بحر کی پابندیوں سے الگ ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے۔ وہ فقط ان خارجی مظاہر ہی سے متعلق نہیں، شاعر کا احساس ہئیت آخری تجزیے میں اس کے احساس تنظیم سے پیدا ہے۔ یہ تنظیم تجربات کی دنیا اور لفظ و بیاں کی دنیا دونوں پر حاوی ہے۔ تجربات کی تنظیم کا مطلب ہے ان کی مناسب اور موزوں ترتیب اور ان کے درمیان ایک داخلی اور نفسیاتی ربط و تعلق کا قیام۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ شاعر کا احساس ہیئت ہی اسے اپنے تجربات کے مختلف مجموعوں میں ایک داخلی آہنگ دریافت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ بھی ہیئت ہی کی تلاش کا ایک حصہ ہے۔ یہ داخلی آہنگ شعر کے نقطۂ نظر سے زیادہ بنیادی چیز ہے۔ اس کے اظہار میں قافیہ اور بحر وغیرہ مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں مگر اسے ان کی مدد کے بغیر بھی ظاہر ہونا آتا ہے۔ شعر میں بحر کی حیثیت کم و بیش وہی ہے جو موسیقی میں لے کی، اور قافیہ گویا سم کی طرح ایک مقررہ وقفہ کے بعد آتا ہے۔ طبلے کی تھاپ لے کا آہنگ قائم کرنے میں معاون ضرور ہے مگر موسیقی دراصل لَے کے آہنگ میں ہے۔ موسیقار کا احساس ہیئت اسی آہنگ سے ظاہر ہوتا ہے۔

 راشد نے اگرچہ مروجہ اور سکہ بند اصنافِ سخن سے انحراف کیا ہے اور اپنے لیے آزاد نظم کا راستہ چنا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس نے ہیئت کے تقاضوں سے منہ موڑ لیا ہے، اس نے قافیہ اور بحر کو ترک کیا تو اپنے لئے ایک نئی شکل کا سامان پیدا کر لیا۔ یعنی اس نے اپنے احساس ہیئت کو ان سہاروں کے بغیر اپنی خالص ترین شکل میں ظاہر کرنے کی ذمہ داری کو قبول کیا۔ مروجہ اور سکہ بند اصناف سخن سے انحراف کا اگر کوئی جواز ہو سکتا ہے تو فقط یہی کہ راشد کو اپنے تجربات کے داخلی آہنگ کے اظہار کی راہ میں قافیہ اور بحر کے سہارے حائل نظر آئے، اس لئے کہ یہ فقط خارجی آہنگ پیدا کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں اور یہ کہ داخلی آہنگ اس کے نزدیک زیادہ بنیادی اور زیادہ وقیع چیز ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ قافیہ اور بحر کی پابندی داخلی آہنگ کی تحقیق میں ہمیشہ ایک رکاوٹ ہوتی ہے۔ یہ شاعر کی ذہنی ساخت اور اس کے مزاج پر منحصر ہے۔ اس قسم کی پابندیوں سے آسان گزر جانا بلکہ اپنے مقصد کے حصول میں ان سے مدد لینا، فن کا ایک کمال یہ بھی ہے، لیکن راشد نے اپنی نظموں میں جس قسم کے داخلی آہنگ کی تخلیق کی ہے، اس کیلئے آزاد نظم ہی زیادہ موزوں ذریعہ اظہار ہو سکتی تھی۔

راشد کی نظموں کو جانچنے کا تنہا معیار یہی ہے کہ آیا وہ ان میں ایک داخلی آہنگ پیدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں؟ کیوں کہ یہی اس کا مقصود نظر ہے، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جدید شاعری میں راشد کی نظمیں اپنی مثال آپ ہیں۔ راشد شاعر نہیں لفظوں کا مجسمہ ساز ہے۔ وہ نظمیں نہیں کہتا، سانچے میں ڈھلے ہوئے مجسمے تیار کرتا ہے۔ اپنی نظموں کی تعمیر و تشکیل میں، ان کی تراش خراش میں راشد جس احتیاط اور سلیقے کا ثبوت دیتا ہے،اس سے اس کے احساس ہیئت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ اس کے ہاں تجربات ایک ناگزیر داخلی ربط میں منسلک ہو کر ظاہر ہوتے ہیں۔ ان کی ترتیب میں ایک ارتقائے خیال نظر آتا ہے۔ ہر تفصیل ایک معین مقصد کو پورا کرتی ہے اور اس طرح گویا ایک کل کے جزو کی حیثیت رکھتی ہے۔ مختصر یہ کہ راشد کی نظمیں صحیح معنوں میں نظمیں ہوتی ہیں، اپنے داخلی ربط کی وجہ سے بھی، اور اپنی خارجی تنظیم کے لحاظ سے بھی، ان کے مصرعے لخت لخت نہیں بلکہ معنوی لحاظ سے ایک دوسرے سے پیوست، ایک دوسرے کا سہارا بن کر آگے بڑھتے ہیں۔

ہیئت کا یہ احساس ایک طرف تو راشد کی نظموں کے مجسمہ سازانہ ڈھلائو کا ضامن ہے اور دوسری طرف اس کے مزاج کے کلاسیکی جوہر کا پتا دیتا ہے۔ اپنے دوسرے ہم عصروں کی طرح رومانی عناصر راشد کے ہاں موجود ضرور ہیں لیکن زیادہ تر وہ فقط اس کے ابتدائی کلام تک محدود ہیں۔ ان نظموں میں رومانی طرز احساس جھلکتی ہے۔ لیکن جہاں تک اس کی عام تکنیک کا تعلق ہے اس میں ہمیشہ سے ایک کلاسیکی رکھ رکھائو نمایاں نظر آتا ہے۔ اس کے ہاں رومانی عناصر اس عہد کی دین ہیں جس میں اس کے ادبی شعور نے آنکھ کھولی تھی۔ اس عہد کا ایک نامور شاعر اختر شیرانی تھا۔ راشد ابتدا میں اس سے بہت متاثر ہوا ہے۔ اپنی طرز احساس میں بھی، جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے اور کہیں کہیں الفاظ کے استعمال اور ترکیب سازی میں بھی۔ لیکن جب راشد نے اپنا شعری مزاج پا لیا تو وہ ان اثرات سے بہت حد تک آزاد ہو گیا۔ پھر بھی اس عہد کے چند ادبی اور تنقیدی مفروضات راشد شاید آج بھی قبول کئے ہوئے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

چیمپئنز ون ڈے کپ

پاکستان کرکٹ بورڈ نے چیمپئنز ون ڈے کپ کی پانچ ٹیموں کے کپتانوں کے ساتھ ساتھ 12 سے 29 ستمبر تک فیصل آباد میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹ کیلئے عارضی اسکواڈز کا اعلان بھی کر دیا ہے۔کپتانوں کا تقرر پانچ ٹیموں کے مینٹور نے کیا۔

یوم تحفظ ختم نبوتﷺ

عقیدہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ مقبولہ شاہدودالّ ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ تاویل و تخصیص کرنے والا قرآن مجیدکی تکذیب کرتا ہے۔

عقیدہ ختم نبوت شفاعت رسولﷺ کا ذریعہ

7ستمبرہماری تاریخ کا وہ روشن اور تاریخ ساز دن ہے جب ہزاروں مسلمانوں نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے طویل جدوجہد کے بعد پارلیمنٹ سے قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قراردلوانے میں کامیابی حاصل کی۔ عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہر مسلمان کی ذمہ داری، اس کے ایمان کا تقاضہ اور آخرت میں شفاعتِ رسولﷺ کا ذریعہ ہے۔ ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کا وہ بنیادی اور اہم عقیدہ ہے جس پر پورے دین کا انحصار ہے ۔عقیدہ محفوظ تو پورا دین محفوظ، اگر عقیدہ محفوظ نہیں تو دین بھی محفوظ نہیں۔

7ستمبر 1974ء عشاقان مصطفی کیلئے ایک یادگار دن

7ستمبر 1974ء کا دن عالم اسلام کیلئے بالعموم اور اسلامیانِ پاکستان کیلئے بالخصوص ایک یادگار اور تاریخی موقع کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن خلاقِ عالم نے ختم نبوت کیلئے جدوجہد کرنے والے اور اس مبارک کام کیلئے خود کو میدانِ عمل میں اتارنے والے علماء، طلباء اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ مجاہدین ختم نبوت اور فدایان ختم الرسلﷺ کی بے مثال قربانیوں اور انتھک کاوشو ں کے نتیجے میں قادیانی مسئلہ ہمیشہ کیلئے قانونی طور پر حل کر دیا۔

سنی سنائی باتیں بغیر تحقیق کے نہ آگے پہنچائیں!

قرآن پاک کی سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 6 میں ارشاد ربانی ہے ’’ اے ایمان والو! اگر آئے تمہارے پاس کوئی گناہگار خبر لے کر تو تحقیق کر لو، کہیں جا نہ پڑو کسی قوم پر نادانی سے پھر کل کو اپنے کئے پر لگو پچھتانے‘‘ ۔یہ آیت حضرت ولیدؓ بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جنہیں رسول اللہﷺ نے بنو مصطلق کی طرف زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا تھا۔

غیبت:گناہ کبیرہ

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو بہت گمان کرنے سے پر ہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، تجسس نہ کرو، اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے، تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے (سورۃ الحجرات :12)