مومن تغزل اور شخصیت!

تحریر : پروفیسر صابر علی


امریکی ماہر نفسیات گارڈن الپورٹ نے شخصیت کی دو جہتوں پر روشنی ڈالی ہے۔ Normotheticاور Idiographic۔ اوّل الذکر عام نفسیاتی اصولوں پر مبنی ہوتی ہے اور موخر الذکر اس شخصیت کی ترجمان ہے جو نفسیاتی الجھنوں اور پیچیدگیوں کی زد میں ہوتی ہے۔

 اس کی تفہیم اور تجزیئے میں نفسیاتی گر ہیں اور حیرت انگیز انکشافی پہلو نمودار ہوتے ہیں۔ نفسیاتی تجزیہ تو بہت دور کی بات ہے۔ شاید ہی کوئی نقاد کسی تخلیق کار کے صد فیصد صحیح نفسیاتی مطالعے کا دعویٰ کر سکے۔ نفسیاتی مطالعہ دقیق، مہارت طلب اور علم نفسیات کے وسیع مطالعے کا متقاضی ہے۔ ادب کی تفہیم و تحسین سے دلچسپی رکھنے والے، انسانی نفسیات کا ایک جلوہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ یہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں کہ۔ اسے رموز و غوامض اور عملی و فنی باریکیوں کا وہ ادراک حاصل ہو جس کی بنیاد علم نفسیات کے عمیق اور غائر مطالعے پر استوار ہوتی ہے۔اس کے علاوہ فنکار کی نفسیات اور اس کی شخصیت کو سمجھنے کیلئے سوانحی حالات کا بڑا ذخیرہ اور وسیع معلومات درکار ہوتی ہیں۔

’’آب حیات‘‘ کے دوسرے ایڈیشن میں محمد حسین آزاد نے مومن کا تذکرہ ضرور کیا ہے لیکن پہلے ایڈیشن میں مومن جیسے ممتاز غزل گو کے ذکر سے گریز پر بعض گوشوں سے ادبی زبان میں جو تبصرہ کیا گیا تھا جو چہ مگوئیاں ہوئیں۔ آج ہم اس کی اصلیت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ محمد حسین آزاد نے اس کی وجہ شاعر کے حالات کی عدم دستیابی قرار دیا تھا۔’’ آب حیات‘‘ میں نواب شجاع الدولہ کی عنایات سے مستفید دلی کے بھانڈ شاعر ہد ہد کو جگہ مل سکتی ہے اور ان کے حالات زندگی دستیاب ہو سکتے ہیں۔ مومن، حاذق طبیب اور نامور سخن گو تھے۔ غالب ان کے ایک شعر کے بدلے میں اپنا پورا دیوان دینے کو تیار تھے۔ مومن دلی کے ایسے مشہور شاعر تھے کہ انہیں راستے سے گزرتا ہوا دیکھ کر راجا جیت سنگھ رئیس پٹیالہ مقیم دہلی کے مصاحبوں نے مومن کی منت و سماجت کرکے راجا صاحب سے ان کی ملاقات کروائی تھی اور انہوں نے مومن کو ایک قیمتی ہتھنی عنایت کی تھی۔

بعض وقت سوانحی حالات کے چھوٹے چھوٹے اشاروں میں شخصیت کے خدوخال اور فنکار کے تصور زندگی اور شخصی کوائف کی ایک وسیع دنیا سمٹ آتی ہے۔’’ آب حیات‘‘ میں محمد حسین آزاد کا یہ بیان کہ ’’ بہت سی روایتیں مختصر کردیں یا چھوڑ دیں‘‘ غور طلب ہے۔ مومن کی شخصیت گارڈن الپورٹ کے پہلے زمرے میں جگہ پاتی ہے۔ وہ ایک نارمل شخصیت کے حامل فنکار تھے اور ’’ جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول پر کاربند رہے۔ ان کی دانست میں ’’ حال‘‘ اور لمحہ موجود زندگی کا حامل ہے۔ وقت سیل رواں ہے جس پر انسان کا بس نہیں چلتا۔ دیوان مومن کا مطالعہ کیجئے تو ایک ایسے انسان کی شبیہ ہمارے سامنے آتی ہے جو زندہ دل، شگفتہ مزاج اور مرنجا مرنج انسان ہے۔ مومن کی جوانی، جرأت، انشا اور داغ کی جوانی کی طرح دیوانی تھی اور وہ مسرت کے جام کا آخری قطرہ بھی پی لینا چاہتے تھے۔ ایسی شخصیات’’غم نداری‘‘ کی ترجمان اور باغ و بہار شخصیات ہوتی ہیں۔ 

جب ہم مومن کے افکار و تصورات اور ان کے رویوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کی شخصیت اور طرز فکر کو Epicurian اور Hedonistic فلسفے کے اصولوں سے قریب پاتے ہیں۔ ان دونوں مکاتب خیال کا نچوڑ یہ ہے کہ مسرت حاصل زندگی ہے اس لئے اس کی رعنائیوں میں کھو جانا اور نشاط اور حصول تمنا، انسان کی تمام سرگرمیوں کا عین مقصد ہے۔ Hedonistic رجحان کی کار فرمائی کی جھلک قدیم ہندوستانی فلسفے’’ کارواک‘‘ کے اساسی تصورات میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ اس نے مادیت کی اہمیت کو مرکز توجہ بنا لیا۔ وہ مسرت کو حیات انسانی کا نصب العین تصور کرتا ہے۔ مومن کا طرز فکر فلسفے اور اس کے زیر اثر نفسیاتی رویے سے بڑی حد تک ہم آہنگ نظر آتا ہے۔ 

مومن کی دانست میں محبت نشاط و انبساط کا سرچشمہ اور ماخذ ہے۔ ان کے کلام میں نارمل آدمی کی جبلت کے سہارے پروان چڑھنے والی فطری محبت کی تصویریں نظر آتی ہیں۔ مومن نے پراسرار بننے کی کوشش نہیں کی اور مجازی عشق کو ارضی سطح پر قائم رکھا۔ مومن کا محبوب گوشت پوست جیتا جاگتا محبوب ہے جس پر ماورائیت کی پرچھائیں نہیں پڑتیں اور جس سے طبعی ربط کا تصور منقطع نہیں ہوتا۔یہ عشق حقیقی نہیں ہے:

مومن بہشت و عشق حقیقی نہیں نصیب

ہم کو تو رنج ہو جو غمِ جاوداں نہ ہو

پیہم سجود پائے صنم پر دمِ وداع

مومن خدا کو بھول گئے اضطراب میں

تصوف کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’’برائے شعر گفتن خوب است‘‘ مگر مومن ثقہ اور سنجیدہ ماحول میں زندگی گزارنے کے باوجود تصوف کی طرف مائل نہ ہو سکے۔ وہ اپنی شخصیت پر عارفانہ متانت طاری کرکے اپنے قاری کو اپنے بارے میں کسی غلط فہمی میں مبتلا کرنا نہیں چاہتے تھے۔ مومن ایک رنگین مزاج خوش گلو، خوش لباس اور طرحدار انسان تھے۔ مومن کی شخصیت میں جو رنگینی و شگفتگی اور جاذبیت ہے اس کا عکس ان کے تغزل میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ انہیں اس حقیقت کا احساس تھا کہ ان کے کلام میں تابنا کی اور رس ’’آب حیات لب و رخسار‘‘ ہی سے آیا ہے۔

اُس لب لعل کی حکایت ہے

کیونکہ رنگیں نہ ہو کلام میرا

بوسہ ہائے لبِ شیریں کے مفا میں ہیں نہ کیوں

لفظ سے لفظ مرے شعر کا چسپاں ہوگا

مومن کی غزلیہ شاعری حس اور لمس نوعیت کی حامل ہے اور معاملہ بندی اور ادا بندی ان کے تغزل کے بہت گہرے رنگ ہیں۔ مومن کی جمالیاتی حسیت اور ان کے خلاقانہ شعور نے ادا بندی میں ایک نئی اشاریت، رمزیت اور شگفتگی پیدا کردی ہے۔ مومن نفسیات کی اصطلاح میں ایک Ambivertشخصیت کے مالک تھے۔ وہ یقینی طور پر ایک رجائیت انسان تھے۔ رجائیت پسند شخصیتیں حوصلہ شکن اور افسردہ کن حالات میں بھی کوئی روشن پہلو تلاش کر لیتی ہیں اور تاریکی میں بھی انہیں روشنی کی کوئی کرن نظر آ جاتی ہے۔ مومن کی رجائیت پسندی ان معاملات عشق کو بھی ایک خوشگوار تاثر سے روشناس کرواتی ہے جو منفی تاثرات کے ترجمان ہوتے ہیں اور جن سے گزر کر اکثر افراد مایوسی اور غم کا شکار ہو سکتے ہیں۔ مومن کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:

ہنسے نہ غیر مجھے بزم سے اٹھانے پر

سبک ہے وہ جو تیری طبع پر گراں نہ ہوا

دیت میں روز جزا لے رہیں گے قاتل کو

ہماری جان کے جانے میں زیاں نہ ہوا

مومن زندگی کے ٹھوس حقائق کے منکر نہیں رہے۔ وہ زندگی کو اس کی اصلی اور حقیقی صورت میں قبول کرنا چاہتے تھے۔ جارج برکلے کے Subjective Idealismجیسے تصورات سے ان کا کوئی فکری رشتہ نہیں رہاجیسا کہ کہا جا چکا ہے مومن ایک مرنجا مرنج اور خوش طبع انسان تھے اور ان کے رجائی انداز نظر نے بھی ان کیلئے غم جاناں کی صعوبتوں کو آسان کردیا تھا۔ مومن معاصرانہ چشمک سے بلند رہے۔ مسابقتی جذبے کے زیر اثر اپنے ذہن کو الجھنے نہیں دیا۔ غالب کے دبیر الملک خطاب پانے پر رشک نہیں کیا۔ذوق کے ’’خاقانی ہند‘‘ اعزاز حاصل کرنے پر احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہوئے۔ مومن ادبی خلوص کو انعامات سے ماوراء تصور کرتے ہیں۔ اپنی ذات اور اپنے فن پر ہمیشہ نازاں رہے۔

سن رکھو سیکھ رکھو اس کو غزل کہتے ہیں

مومن اے اہل فن اظہار ہنر کرتا ہے

مومن کے اشعار میں وہ عاشق نظر نہیں آتا جو کوچہ قاتل سے جراحتوں کا تحفہ لے کر واپس آتا ہے بلکہ وہ چاہنے والا ملتا ہے جو محبت کے مشروط ہونے کو بھی جائز تصور کرتا ہے اور جو محبوب کو اپنے دام میں گرفتار کرنے کے ہنر سے آگاہ بھی ہے۔ وہ محبوب سے برابر کی سطح پر ملنا چاہتا ہے۔

معشوق سے بھی ہم نے نباہی برابری

واں لطف کم ہوا تو یہاں پیار کم ہوا

مومن کے اشعار میں ان کے جمالیاتی شعور کا پرتو صاف نظر آتا ہے۔ حسن سے وابستگی، جذب و شوق کے وفور، خوش طبعی اور عاشقانہ مزاج نے ان کی جمالیاتی آگہی کی آب و تاب میں اضافہ کر دیا تھا۔ لطافت اور نفاست سے دلچسپی اور لطیف احساس جمال، مغل تہذیب اور تیموری معاشرے کے اہم خدو خال تھے۔ مومن کی جمالیاتی حسیت ہند مغل جمالیات کی رہین منت ہے اور اسی بنیاد پر ان کا جمالیاتی وژن استوار ہوا ہے جو ذرے میں اپنا حسن نظر شامل کرکے آفتاب کی تابناکی کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔

مومن کے اشعار میں وہ نفسیاتی نکتہ بھی معنی آفرینی میں اضافے کا سبب بنا ہے جسے ان کے ایک قدیم نقاد نے ’’مکر شاعرانہ‘‘ سے تعبیر کیا تھا جس کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ شاعر ایسی بات کہے جس میں مخاطب کو اپنا فائدہ نظر آئے لیکن دراصل شاعر کی بات بن جائے:

منظور ہو تو وصل سے بہتر ستم نہیں

اِتنا رہا ہوں دور کہ ہجراں کا غم نہیں

مومن کے اکثر اشعار ان کی نفسیات فہمی کے مظہر ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مومن کے تغزل میں نفسیاتی عناصر کی شناخت سے بھی ان کے کلام کی تفہیم و تحسین میں مدد مل سکتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

ہیروں کا سیب

ایک بادشاہ بہت نیک اور رحمدل تھا اس کی رعایا اپنے بادشاہ سے بے حد خوش تھی۔بادشاہ کی صرف ایک ضد تھی کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ایک دن اس کے وزیروں نے تنگ آ کر کہا ’’حضور! اگر آپ ہمارے بادشاہ رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو شادی کرنا ہو گی‘‘

بلی، شیر کی خالہ

دریا کے کنارے سرسبزوشادا ب جنگل آباد تھا جہاں ایک شیرحکمرانی کرتا تھا۔ بادشاہ ہونے کے ناطے وہ بہت معزورتھا۔ اس علاقے میں کسی دوسرے شیرکو حملہ کرنے کی ہمت نہ تھی۔ ایک دن شیر اپنے وزیروں کے ساتھ جنگل کے دورے پر نکلااس کی ملاقات خالہ ’’بلی‘‘ سے ہوئی،شیر نے پوچھا ’’خالہ بلی، یہ تمہارا حال کس نے کیا ہے ؟‘‘بلی نے بتایا جب سے مجھے انسانوں نے پکڑا ہے میرا یہ حال کردیا ہے۔

شیر کے بارے میں چند دلچسپ حقائق

بچوں شیر کے بارے میں آپ سب یہ تو جانتے ہی ہیں کہ اسے جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔شیر کو ببر شیر بھی کہتے ہیں۔اسے عربی میں ’’اسد‘‘اور انگریزی میں’’لائن‘‘کہا جاتا ہے۔شیرکی چال بڑی شہانہ ہوتی ہے اسی لیے اسے تمام جنگلی جانوروں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔

ذرامسکرایئے

استاد:جب بجلی چمکتی ہے تو ہم کو روشنی پہلے اور آواز بعد میں کیوں آتی ہے؟ طالب علم : کیونکہ ہماری آنکھیں آگے ہیں اور کان پیچھے۔ ٭٭٭

دلچسپ معلومات

٭…دنیا کی سب سے بلند آبشار کا نام اینجل آبشار ہے۔ ٭…دنیا میں سب سے بڑی تازہ پانی کی جھیل لیک سپیرئیر کینیڈا میں ہے۔ ٭…جھیل وکٹوریہ تین ممالک یوگنڈا، کینیا اور تنزانیہ میں واقع ہے۔

اقوال زریں

٭…زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ گھائل کرتا ہے۔ ٭…اگر تم کچھ حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرو۔ ٭…لالچ انسان کو تباہ کر دیتا ہے۔