’’بقدرِشوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل‘‘

تحریر : سید ضیا حسین


سمندر کو سمندر کی طرح پیش کرنے کا فن صرف نظم کو آتا ہے غزل کو نہیں معروف شاعر صہبا اختر نے اپنی ایک کتاب کے دیباچے میں لکھا کہ غزل سنگریزے تو چن سکتی ہے ہمالہ کی تصویر کشی نہیں کر سکتی

غزل کی تعریف میں یہ قول اکثر دہرایا جاتا ہے کہ غزل سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا فن ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست سہی لیکن یہ بات بھی غلط نہیں کہ سمندر کو سمندر کی طرح پیش کرنے کا فن صرف نظم کو آتا ہے غزل کو نہیں۔ معروف شاعر صہبا اختر نے اپنی ایک کتاب کے دیباچے میں لکھا کہ غزل سنگریزے تو چن سکتی ہے ہمالہ کی تصویر کشی نہیں کر سکتی۔ کسی ذرے کو صحرا سے نسبت تو دے سکتی ہے لیکن خود صحرا کی عکاس نہیں ہو سکتی ۔یہ ہنر، یہ فسوں کاری اور ہمہ گیری صرف نظم کا مقسوم ہے۔

غزل ایک آدھ نشست میں یا چلتے پھرتے بھی ہو جاتی ہے لیکن نظم کیلئے چاہے وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو خاصا تحمل اور توقف چاہیے۔ نظم نگاری Desk jobکی طرح ہوتی ہے۔ چلتے پھرتے تو مختصر نظم سے بھی انصاف نہیں کیا جا سکتا۔ کجا یہ کہ طویل نظم کی بات کی جائے۔

طویل نظم کا برگد صرف ایسے گوتم کو نروان دیتا ہے جو تخت و تاج کو چھوڑ کر مکمل قناعت صبر اور یکسوئی کے ساتھ گھنیری چھائوں میں آ بیٹھے اور پھر اس کی امر چھائوں میں دھیان اور گیان کے چراغ جلا کر مدتوں عبادت فن میں مصروف رہ سکے۔دنیا کے ادب میں طویل نظم کی دنیا بے حد وسیع ہے پھر بھی اجمالاً عرض ہے کہ والمیک، تلسی داس، ہومر، ملٹن، گوئٹے، فردوسی، انیس، دبیر، حالی سے لے کر جوش اور اقبالؒ تک۔ آپ جس عظیم شاعر کے کلام پر نظر ڈالیں، طویل نظم نگاری کی شکل میں کسی نہ کسی انداز میں، آپ کو ان شعراء کی عظیم و ضخیم شاعری، سمندر کی طرح لہراتی، جھومتی اور گونجتی ہوئی محسوس ہو گی۔ مولانا روم کی ’’مثنوی‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھی جا سکتی ہے۔

ان شعراء کی بیکراں شاعری، بے اندازہ وسیع ذخیرہ الفاظ سے قطع نظر، اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ایسی شاعری کتنی دماغی مشقت، عالمانہ محنت، فاضلانہ بصیرت، ادبی ریاضت اور فکری عبادت چاہتی ہے۔ میر بنیادی طور پر نظم نگار نہ سہی، مگر انہیں بھی جو عظمت ملی ہے وہ ہزار ہا شعر لکھنے کے بعد ہی ان کا نصیب بن سکی ہے۔ مثنوی تو بہرحال میر نے بھی لکھی ہے اور مومن جیسے غزل گو شاعر نے بھی کئی مثنویاں تحریر کی ہیں۔اس کے برعکس آج کے غزل نگاروں نے اختصار پسندی اور اجمال فن کے نام پر ایک ایسی سہل پسندی کو فروغ دیا ہے جو اتفاقاً فن پارے تو جنم دے سکتی ہے لیکن کوئی ادبی شہکار تخلیق نہیں کر سکتی۔ غزل کے عاشقان سادہ دل یہ بات بھول گئے ہیں کہ اردو شاعری کی عظمت صرف غزل کی مرہون منت نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو اردو شاعری بہت بے مایہ اور تہی دامن رہ جاتی۔

 صہبا اختر کہتے ہیں کہ فکر کی بارش معانی، احساس کی ستارہ سامانی اور اظہار کی بیکرانی کے اعتبار سے نظم کو جو غزل پر برتری حاصل ہے شاید اسی حقیقت نے غالب سے یہ شعر کہلوایا تھا۔

بقدرِشوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کیلئے

غالب کا یہ شاعرانہ حسن طلب، یہ آرزو مندانہ احتجاج، غزل سے بیزاری نہ سہی، نظم کی طلب گاری ضرور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غزل نے اردو شاعری کو ’’محترم‘‘ ضرور بنا دیا ہے لیکن اسے ’’عظیم‘‘ بنانے کا مبارک فریضہ نظم نے انجام دیا ہے۔

نظم اپنی ہیئت، دروبست اور عناصر ترکیبی کے حوالے سے نت نئے پیرہن بدلتی رہی ہے۔ اس کی رنگا رنگ دنیا جدید سے جدید تر زاویے اور انداز اختیار کرتی رہی ہے لیکن غزل اپنی ابتدا سے لے کر آج تک اپنے اساسی سانچے اور بنیادی ڈھانچے میں کوئی تبدل یا کوئی تغیر پیدا نہیں کر سکی۔غزل کے برعکس نظم کی دنیا بہت بوقلموں ہے، اس کائنات کی طرح بوقلموں۔ اس لئے کہ اس میں صرف جمال ہی نہیں جلال بھی ہے۔ نظم کی دنیا کے بہت سے روپ، بہت سے نقش اور بہت سے رنگ ہیں، نظم میں تغیر اور تبدل کی یہ خصوصیت ابتدا سے موجود ہے نظم کی بوقلمونی ہمیں مختلف اصناف سخن میں بھی مختلف انداز سے نظر آتی ہے۔

کبھی اس کی عظمت میں سودا اور ذوق کے ان قصیدوں میں نظر آتی ہے جن کی شاعرانہ نکتہ آفرینی، رقت نگاہی، مشکل پسندی، بلیغ خیالی اور وسعت فکر نے شاعری کو حد کمال تک پہنچا دیا۔

نظم کے سلسلے میں میں تو نظر اکبر آبادی کو بھی کم اہم شاعر نہیں سمجھتا اس لئے کہ اگر نظیر جیسا زندگی سے اتنا قریب اور فطرت سے اتنا نزدیک سچا عوامی شاعر پیدا نہ ہوتا تو شاید ہمارے دور کے ترقی پسند شاعروں کی شاعری بھی جنم نہ لیتی۔ میرا توخیال ہے کہ ’’ ادب برائے ادب‘‘ سے گزر کر ’’ادب برائے زندگی‘‘ کا چشمہ بھی نظیر کی شاعری سے پھوٹا ہے۔

طویل نظموں کی عظمت کا سب سے زیادہ وقیع ثبوت علامہ اقبال ؒ کی ان شہرہ آفاق نظموں میں ملتا ہے جو ہماری شاعری کی دنیا میں ’’آسمان سخن‘‘ کا درجہ رکھتی ہیں اور شاید اقبال کی شاعری اتنی محیط اور بسیط اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ وہ نظم کی شاعری ہے اور اس علم و فضل کی شاعری ہے جو اقبال کے کسب کمال کا جوہر ہے، ورنہ اگر داغ دہلوی کے زیر اثر کہی ہوئی غزلیں ہی اقبال کا مقسوم رہ جاتیں تو نتیجہ ظاہر ہے کہ اقبال کو بھی غالب کی طرح تنگنائے غزل‘‘ کی شکایت کرنا پڑتی۔

اقبال نے غالب کی طرح ہم پر دوہرا احسان کیا ہے۔ انہوں نے ہمیں صرف اردو ہی میں نہیں بلکہ فارسی میں بھی ایسی شاندار طویل نظمیں عطا کی ہیں جو ہماری دنیائے ادب میں ایک بیش بہا خزانے کی حیثیت رکھتی ہیں۔

یوں تو بہت سے نام ہو سکتے ہیں۔ تاہم ہمارے عہد کے جن شعراء نے طویل نظمیں تحریر کی ہیں ان میں ہندوستانی شعراء میں فراق، سردار جعفری، کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی، سکندر علی وجد، جمیل مظہری وغیرہ اور پاکستانی شعراء میں ن۔م راشد۔جعفر طاہر، صفدر میر، احمد ندیم قاسمی، مختار صدیقی، عبدالعزیز خالد رفیق خاور، سلیم احمد، حمایت علی شاعر، فارغ بخاری، محسن احسان اور خاطر غزنوی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ سنا ہے کہ ’’ انسان‘‘ کے عنوان سے جمیل الدین عالی بھی ایک طویل نظم لکھ رہے ہیں۔ اس ضمن میں شان الحق حقی، حامد عزیز مدنی، جون ایلیا اور قمر ہاشمی کے نام بھی بہت اہم ہیں۔

اردو سے قطع نظر، ہمارے علاقائی ادب کی مختلف زبانوں میں بھی ہمارے عظیم صوفی شاعروں کی تحریر کردہ منظوم داستانیں اور سی حرفیاں بھی ایک طرح سے اسی طویل نظم نگاری کا ایک سلسلہ میں اور یہ بھی ہمارے لئے ایک گنجینۂ فن اور عظیم ورثہ سخن کا درجہ رکھتی ہیں۔

کون ہے جو وارث شاہ، بھلے شاہ، پیر مہر علی شاہ، سچل سرمست اور شاہ لطیف بھٹائی کی عظمت سے انار کر سکے۔ اسی طرح رحمان بابا، اور خوش حال خٹک بھی اپنے اپنے انداز میں خاص اہمیت کے مالک ہیں۔ یہ وہ شاعر ہیں جن کی شاعری کی تابناکی کو ماہ و سال کی گرد بھی ماند نہ کر سکی۔ کون ہے جو ان سمندر لوگوں کی سمندر شاعری سے انکارک کر سکے۔ موجودہ دور میں بھی، سندھی میں شیخ ایاز، پنجابی میں استاد دامن اور سرائیکی میں جاں باز جتوئی نظم کی دنیاء کے بہت اہم شاعر ہیں۔

میں عرض کر دوں کہ میں نے اس مختصر گفتگو میں صرف چند نام لئے ہیں صرف وہ نام جو میرے حافظے میں موجود تھے۔ میں کسی تفصیل میں اس لئے نہیں گیا کہ یہ محض ایک اجمالی خاکہ ہے کوئی باقاعدہ تھیسیس نہیں ہے۔ ویسے بھی یہ مجھ جیسے کم علم کا منصب نہیں ہے۔

میں اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کر دوں کہ اس ساری گفتگو کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں اس گفتگو کے بہانے عظیم شعراء سے اپنے لئے کوئی نسبت تلاش کر رہا ہوں۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ میں نے ان کی تقلید کی جنارت ضرور کی ہے اگر اس طرح کچھ ہاتھ آ گیا ہے تو وہ بھی یوں کہ:

جمال ہم نشیں در من اثر کرد

وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہستم

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کا دورہ جنوبی افریقہ:شاہین،پروٹیز کو ہوم گرائونڈ پر کلین سویپ کرنے کیلئے پر عزم

پاکستانی شاہین ون ڈے سیریز میں پروٹیز کو ہوم گرائونڈ پر کلین سویپ کرنے کو تیار ہیں۔ تیسرا اور آخری ون ڈے میچ آج جوہانسبرگ میں کھیلا جائے گا۔ گرین شرٹس نے کیپ ٹاؤن میں کھیلے گئے دوسرے ون ڈے میں مہمان ٹیم کو81 رنز کے مارجن سے شکست دے کر سیریز میں2-0 کی فیصلہ کن برتری حاصل کرلی ہے۔

متوازن غذا ضروری ہے!

’’مما! آج کیا پکایا ہے؟‘‘ عائشہ سکول سے واپس آئی تو آتے ہی بے تابی سے پوچھا، اسے شدید بھوک لگی تھی۔

مغرور اونٹ کی کہانی

کسی جنگل میں ایک مغرور اونٹ رہتا تھا۔ اسے اپنے لمبے قد اور چال ڈھال پر بڑا ناز تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں۔ اس کا جہاں جی چاہتا منہ اْٹھا کر چلا جاتا اور سب جانوروں سے بدتمیزی کرتا رہتا۔ کوئی جانور اگر اسے چھیڑتا تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتا۔ اس کے گھر کے قریب چوہے کا بل تھا اور اونٹ کو اس چوہے سے سب سے زیادہ نفرت تھی۔ وہ اس چوہے کو نہ جانے کیا کیا القابات دیتا رہتا لیکن چوہا ہنس کے ٹال دیتا تھا۔ جنگل کے سب جانور ہی اونٹ سے اس کے تکبر کی وجہ سے تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ اسے اس کے کیے کی سزا ملے مگر ابھی تک اونٹ کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔

پہیلیاں

ہو اگر بخار کا مارا کیوں نہ چڑھے پھر اُس کا پارہ (تھرما میٹر)

بکری میری بھولی بھالی

بکری میری بھولی بھالی بکری میری بھولی بھالی کچھ تھی بھوری کچھ تھی کالی

ذرامسکرایئے

ماں : گڈو ! میں نے پلیٹ میں کیک رکھا تھا ، وہ کہاں گیا؟ گڈو : امی مجھے ڈر تھا کہ کیک کہیں بلی نہ کھا جائے ، اس لیے میں نے کھا لیا۔ ٭٭٭