برٹرینڈرسل جدید انسانی فکرکا پیش کار

تحریر : ڈاکٹر محمد احسن فاروقی


وہ ایک حکمران گھرانے میں ہوا لیکن نوع انسانی کی بہتری کیلئے ہمیشہ مضطرب رہا رسل کے فلسفیانہ افکار کا احاطہ بڑا مشکل کام ہے کیونکہ جتنا تنوع اس کے ہاں پایا جاتا ہے اِتنا اس کے کسی ہم عصر کے ہاں نہیں پایا جاتا۔

برٹرینڈ رسل کو ایک فلسفی کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن رسل ایک ہمہ پہلو اور ہم جہت مصنف ہے۔ اس نے علوم وفنون کے مختلف شعبوں کے متنوع پہلوؤں پر خیال افروز مضامین لکھ کر جدید انسانی فکر کو متاثر کیا ہے۔ یہ مضامین رسل کے منفرد اسلوب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ برٹرینڈ رسل کی داستان پوری ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ داستان لارڈ جان رسل کے پوتے اور لارڈ منٹو کے نواسے کی داستان نہیں بلکہ ایسے گو تم کی داستان ہے جو پیدا تو حکمران گھرانے میں ہوا لیکن مصائب و آلام میں مبتلا نوع انسانی کی بہتری کیلئے جو کچھ سوچ سکتا تھا، سوچتا رہا اور جو کچھ کر سکتا تھا کرتا رہا۔ ماضی کا گوتم یک بعدی شخصیت کا حامل تھا جبکہ آج کا گوتم سہ البعادی شخصیت کا مالک ہے، رسل مجموعہ ہے گوتم ، گوئٹے اور والٹیر کا۔

رسل کی زندگی میں اگر کسی ہستی کو اہمیت حاصل رہی ہے تو وہ اس کی دادی لیڈی جان رسل ہے۔ لیڈی رسل سیاسی اور مذہبی معاملات میں لچک برداشت کرنیوالی لیکن اخلاقی معاملات میں بڑی سخت گیر خاتون تھی۔ رسل کے بقول اس کی گفتگو سے اندازہ ہوتا تھا کہ عشق و محبت نام کی کسی چیز سے وہ کبھی آشنا نہیں رہی۔ اسے اس بات کا افسوس تھا کہ شاعری کا بیشتر حصہ عشق و محبت جیسے معمولی موضوع سے متعلق ہے۔ لیکن اس کے باوصف بحیثیت ایک بیوی کے وہ اپنے زمانے کی ایک مثالی بیوی تھی۔ لیڈی رسل اپنے زمانے کے معیار تعلیم کے مطابق اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت تھی۔ فرانسیسی، جرمن اور اطالوی زبانیں بالکل مادری زبان کی طرح بولتی۔ شکسپیئر، ملٹن اور اٹھارویں صدی کے انگریزی شعراء سے بخوبی واقف اور فرانسیسی، جرمن اور اطالوی کلاسیکی ادب پر کامل عبور رکھتی تھی۔ لیکن ہم عصر ادب کے بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔ ترگنیف نے ایک بار اسے اپنا ایک ناول پیش کیا جسے پڑھنے کی زحمت اس نے کبھی گوارا نہیں کی۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے کچھ کتابیں لکھ رکھی ہیں۔ لیکن یہ کام تو اور لوگ بھی کرتے ہیں۔ وہ ترگنیف کو اپنی کچھ سہیلیوں کے چچا زاد کے طور پر پہچانتی تھی۔ برطانوی تاریخ اور سیاست میں اس کی معلومات قابل رشک تھیں لیکن استدلال و استدراک کو اس کا ذہن کبھی قبول نہ کر سکا۔ یہ بات اس کی سمجھ میں کبھی نہ آ سکی کہ یہ خواہش رکھنا کہ ہر آدمی اچھے مکان میں رہے اور ساتھ ہی یہ خواہش بھی رکھنا کہ نئے مکانوں کی تعمیر کسی صورت نہیں ہونی چاہیے۔ دو ایسی خواہشیں ہیں جن کی بیک وقت تعمیل ممکن نہیں۔ بہرحال اس کمی سے قطع نظر جرات مندی، عوام کی بھلائی کا جذبہ، رسموں اور ریتوں سے بیزاری اور اکثریت کی رائے سے بے نیازی برٹرینڈرسل کے نزدیک اس کی چند ایسی خوبیاں تھیں جن سے وہ نہ صرف متاثر ہوا بلکہ انہیں قابل تقلید بھی خیال کیا۔ دادی کے اخلاقیات میں یہ سبق نمایاں طور پر تحریر تھا۔ ’’برائی کے راستے پر رواں ہجوم کی کبھی پیروی مت کرو‘‘، اس سبق نے آئندہ زندگی میں رسل کے دل سے اقلیتی گروہ سے تعلق رکھنے کا خوف نکال دیا۔

برٹرینڈرسل کی پرورش اور تعلیم لیڈی رسل کی نگرانی میں ہوئی۔ اس کا بچپن پیمبروک لاج میں گزرا ۔رچمند پارک میں واقع یہ مکان اس کے دادا اور دادی کو ملکہ وکٹوریہ نے رہنے کیلئے دے رکھا تھا۔ والدین کی وفات کے بعد برٹرینڈ رسل اور اس کے بڑے بھائی فرینک رسل کو یہیں منتقل کیا گیا۔ فرینک اس سے سات سال بڑا تھا اور سکول میں پڑھتا تھا لیکن رسل کو سکول میں داخلہ دلوانے کی بجائے گھر پر ہی اس کی تعلیم کا بندوبست کر دیا گیا۔ گھر کے باغ میں رسل گھنٹوں اکیلا بیٹھا رہتا۔

 گیارہ سال کی عمر میں اقلیدس کے ہندسے سے اس کا تعارف ہوا۔ یہ لمحہ اس کیلئے پہلی محبت کی طرح بے پناہ مسرت کا حامل ثابت ہوا۔ جب پانچواں مسئلہ اس نے سمجھ لیا تو اس کے بھائی نے اسے بتایا کہ یہ مسئلہ مشکل خیال کیا جاتا ہے۔ رسل کو یہ مسئلہ سمجھنے میں کوئی دقت نہ ہوئی تو اس نے خیال کیا کہ وہ ذہین ہے۔ اس نے ہندسے کے تمام مسائل پر عبور حاصل کر لیا۔ لیکن اقلیدس کی اولیات کو جن پر علم ہندسہ کی بنیاد ہے، بلا ثبوت تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ بھائی نے بتایا کہ ان اولیات کو بلا ثبوت تسلیم کئے بغیر تم آگے نہیں چل سکو گے۔ وہ آگے بڑھنا چاہتا تھا۔ اس لئے خاموش ہو گیا۔ الجبرے میں البتہ شروع شروع میں اسے پریشانی کا سامنا رہا۔ الجبرے میں اس کی تعلیم کا طریق کار ناقص تھا اور سمجھے بغیر رٹا لگانا سکھایا گیا تھا۔ اس لئے استاد کی تبدیلی کے ساتھ ہی اس کی یہ مشکل آسان ہو گئی۔ ریاضی، اس وقت سے لے کر اڑتیس سال کی عمر تک جب اس نے پروفیسر وائٹ ہیڈ کے تعاون سے پرنسپیا میتھ میٹکس مکمل کی، اس کیلئے حصول مسرت کا سب سے بڑا ذریعہ اور اس کی دلچسپیوں کا مرکز رہی۔ 

ریاضی میں انہماک اور اس سے مسرت اندوزی نے اس آفتاب علم و دانش کو ڈوبنے سے بچا لیا جو ہر شام نیو سائوتھ گیٹ کی پگڈنڈی پر ڈوبتے سورج کا نظارہ کرتا اور کرب ناک احساس تنہائی سے نجات پانے کیلئے خود کشی کے طریقے پر غور کیا کرتا تھا لیکن وہ خود کشی کرنے سے اس لئے باز رہ جاتا کہ خود کشی کی خواہش پر کچھ اور ریاضی سیکھ لینے کی خواہش غالب آ جاتی تھی۔ 

کیمبرج میں داخلہ لینے سے ایک سال پہلے وہ ایلس پیرسل سمتھ کی زلف کا اسیر ہو چکا تھا۔ ایلس اس سے عمر میں پانچ چھ سال بڑی تھی اور چار سال تک رسل کی محبت کو بچگانہ حرکت سمجھتی رہی۔ رسل کی دادی کو محبت کا یہ کھیل پسند نہیں تھا۔ اس نے رسل کو ایلیس سے شادی کرنے سے باز رکھنا چاہا چاہا اور رسل کو پیرس میں برطانوی سفارت خانے میں اعزازی اتاشی کے طور پر متعین کروا دیا۔ملازمت طبیعت کے مطابق نہ ہونے کے باعث وہ جلد ہی پیرس چھوڑ کر لندن آ گیااور دادی کی خواہش کے برعکس ایلیس سے شادی کرلی۔

اسی زمانے میں اس نے کیمبرج میں فیلو شپ حاصل کر لی۔ شروع شروع میں وہ ہیگل کا پیرو تھا۔ ہیگل کے فلسفے سے اسے میکٹیگرٹ اور سٹائوٹ نے متعارف کرایا۔ اس کی پہلی کتاب جرمن سوشل ڈیموکریسی 1896ء میں شائع ہوئی۔ یہ اس وسیع منصوبے کا حصہ تھی جو ہیگل کے فلسفے کی روشنی میں فلسفہ علوم کے علاوہ سماجی اور سیاسی مسائل و معاملات کو محیط تھا۔ ایک سال بعد اس کی ایک اور کتاب فائونڈیشنز آف جیومیٹری چھپ کر سامنے آئی۔ اس کتاب نے اسے یورپ کے دیگر ممالک میں متعارف کرایا۔ اس سلسلے میں اسے فرانس کے ایک سرکردہ ریاضی دان کا تعریفی خط ملا۔ یہ خط اس خواب کی تعبیر تھا جو وہ حالت بیداری میں دیکھا کرتا تھا۔ لیکن رسل کے بنوغ اور فلسفیانہ بصیرت کا مکمل اظہار اس کی ایک اور کتاب فلسفہ لائبنیز کی ناقدانہ توضیح میں ہوا۔ یہ کتاب 1900ء میں شائع ہوئی۔ 

بحیثیت ایک فلسفی کے برٹرینڈرسل ایک بڑا فلسفی ہے۔ اس کے ہم عصر اکابر فلاسفہ برگساں، کرو چے، ولیم جیمز، وائٹ ہیڈ،سینٹیانا ڈیوی نے مجموعی طور پر اتنا کام نہیں کیا جتنا کام اس ایک فلسفی نے کیا ہے۔ فلسفیانہ مقام اور مرتبے کے لحاظ سے وہ بعض کا ہم عصر اور بعض سے کہیں برتر ہے۔ برٹرینڈرسل کے فلسفیانہ افکار کا احاطہ بڑا مشکل کام ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ موضوعات کا جتنا تنوع اس کے ہاں پایا جاتا ہے اتنا اس کے کسی ہم عصر کے ہاں نہیں پایا جاتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے افکار پر تنقید اور آراء پر نظرثانی کی ضرورت اور اہمیت سے کبھی غافل نہیں رہا۔ اس لئے رسل پر قلم اٹھانے سے پہلے ناسخ و منسوخ عبارات پر نظر رکھنی بے حد ضروری ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

ہیروں کا سیب

ایک بادشاہ بہت نیک اور رحمدل تھا اس کی رعایا اپنے بادشاہ سے بے حد خوش تھی۔بادشاہ کی صرف ایک ضد تھی کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ایک دن اس کے وزیروں نے تنگ آ کر کہا ’’حضور! اگر آپ ہمارے بادشاہ رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو شادی کرنا ہو گی‘‘

بلی، شیر کی خالہ

دریا کے کنارے سرسبزوشادا ب جنگل آباد تھا جہاں ایک شیرحکمرانی کرتا تھا۔ بادشاہ ہونے کے ناطے وہ بہت معزورتھا۔ اس علاقے میں کسی دوسرے شیرکو حملہ کرنے کی ہمت نہ تھی۔ ایک دن شیر اپنے وزیروں کے ساتھ جنگل کے دورے پر نکلااس کی ملاقات خالہ ’’بلی‘‘ سے ہوئی،شیر نے پوچھا ’’خالہ بلی، یہ تمہارا حال کس نے کیا ہے ؟‘‘بلی نے بتایا جب سے مجھے انسانوں نے پکڑا ہے میرا یہ حال کردیا ہے۔

شیر کے بارے میں چند دلچسپ حقائق

بچوں شیر کے بارے میں آپ سب یہ تو جانتے ہی ہیں کہ اسے جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔شیر کو ببر شیر بھی کہتے ہیں۔اسے عربی میں ’’اسد‘‘اور انگریزی میں’’لائن‘‘کہا جاتا ہے۔شیرکی چال بڑی شہانہ ہوتی ہے اسی لیے اسے تمام جنگلی جانوروں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔

ذرامسکرایئے

استاد:جب بجلی چمکتی ہے تو ہم کو روشنی پہلے اور آواز بعد میں کیوں آتی ہے؟ طالب علم : کیونکہ ہماری آنکھیں آگے ہیں اور کان پیچھے۔ ٭٭٭

دلچسپ معلومات

٭…دنیا کی سب سے بلند آبشار کا نام اینجل آبشار ہے۔ ٭…دنیا میں سب سے بڑی تازہ پانی کی جھیل لیک سپیرئیر کینیڈا میں ہے۔ ٭…جھیل وکٹوریہ تین ممالک یوگنڈا، کینیا اور تنزانیہ میں واقع ہے۔

اقوال زریں

٭…زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ گھائل کرتا ہے۔ ٭…اگر تم کچھ حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرو۔ ٭…لالچ انسان کو تباہ کر دیتا ہے۔