بلی، شیر کی خالہ
دریا کے کنارے سرسبزوشادا ب جنگل آباد تھا جہاں ایک شیرحکمرانی کرتا تھا۔ بادشاہ ہونے کے ناطے وہ بہت معزورتھا۔ اس علاقے میں کسی دوسرے شیرکو حملہ کرنے کی ہمت نہ تھی۔ ایک دن شیر اپنے وزیروں کے ساتھ جنگل کے دورے پر نکلااس کی ملاقات خالہ ’’بلی‘‘ سے ہوئی،شیر نے پوچھا ’’خالہ بلی، یہ تمہارا حال کس نے کیا ہے ؟‘‘بلی نے بتایا جب سے مجھے انسانوں نے پکڑا ہے میرا یہ حال کردیا ہے۔
شیر طیش میں آگیا اور کہاخالہ مجھے اس انسان کا پتہ بتائو۔ ابھی اس سے تمہارا بدلہ لیتا ہوں۔ یہ سن کر بلی بولی تم نہیں جانتے انسان بہت خطرناک ہے، آخرخالہ شیرکولئے انسانی بستی کی طرف روانہ ہوگئی راستے میں ان کا ٹکرائو ایک لکڑہارے سے ہوا جو لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔
لکڑہارے کودیکھتے ہی بلی نے کہا ’’یہ انسان ہے‘‘ شیرنے فوراً کہا میں تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے آیا ہوں اور اپنی خالہ کا بدلہ لینا میرا حق ہے۔
انسان نے فوراً جواب دیا۔’’میں تمہیں مزہ چکھا کرہی رہوں گا‘‘۔ جب لکڑہارے نے وقت کی نزاکت کوبھانپ لیا تو اس نے کہا کہ ’’ٹھیک ہے ،تم یہیں رکو! میں لکڑیاں جھونپڑی میں رکھ کر آتا ہوں‘‘۔
’’ اے انسان رک، مجھے کیا پتہ توواپس آئے گا یا بھاگ جائے گا ‘‘ شیرنے کہا۔
لکڑہارا واپس جانے کے لئے پلٹا ہی تھا کہ لکڑہارے نے کہا مجھے لگتا ہے میرے آنے تک تم یہاں سے بھاگ جائوگے۔ یہ بات سن کر شیر ہنسنے لگا اوربولا کہ میں نے تمہیں خود مقابلہ کرنے کے لئے کہا، بھلا میں کیوں بھاگوں گا؟ لکڑہارے نے کہا نہیں مجھے تمہاری بات پر یقین نہیں ہے۔
شیرنے پریشانی کے عالم میں خالہ کی طرف دیکھا خالہ نے ترکیب سوچی اور کہا کہ ایسا کرتے ہیں کہ شیرکو اس درخت سے باندھ دیتے ہیں۔چنانچہ بپھرا شیر اس ترکیب کومان گیا جوں ہی شیردرخت سے باند ھاگیا ،لکڑ ہارے نے موٹی لکڑی اٹھائی اور شیرکی پٹائی شروع کردی اور پورے جنگل میں شیرکی چیخ وپکار سنائی دینے لگی۔
اچھی طرح شیرکو پیٹنے کے بعد لکڑہارے نے کہا کہ بلی اپنے بھانجے کا خیال رکھو۔ میں ابھی آتا ہوں۔یہ سننا تھا کہ بلی شیرکے پاس آئی اور کہا کہ بھانجے میں نے تم سے کہا تھا کہ انسان بہت خطرناک ہوتا ہے اب سزا بھگتو اپنے غرورکی۔