بجلی کا بحران حکومت کا امتحان ہڑتال نتیجہ خیز ہو گی ؟

تحریر : سلمان غنی


بجلی کے بحران نے حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے ۔ وفاقی حکومت اپنی خواہش اور وزیر اعظم شہباز شریف کی کوششوں کے باوجود قومی سطح پر لوگوں کو بجلی کی قیمتوں یا بلوں میں کوئی بڑا ریلیف نہیں دے سکی ۔البتہ حکومت پنجاب نے صوبائی سطح پر دوماہ کے لیے 14روپے فی یونٹ کمی کرکے لوگوں کو واقعی کچھ ریلیف دیا ہے ۔

مگر اس کے بعد دیگر صوبائی حکومتوں نے پنجاب پر تنقید شروع کردی اور کہا جانے لگا کہ وفاقی حکومت کو بجلی کے معاملات میں پوری قوم کو ریلیف دینا چاہیے تھا مگر ریلیف دینے کی بجائے حکومت نے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے ۔اس پر وزیر اعظم نے دیگر صوبائی حکومتوں کو مشورہ دیا کہ وہ بھی پنجاب کی طر ح بجلی میں عوام کو اپنے صوبوں میں ریلیف دیں ۔بجلی کی بات کی جائے تواصل مسئلہ آئی پی پیز کا ہے  لیکن اس معاملے میں حکومت کی طرف سے کوئی بڑا یکشن سامنے نہیں آیا جس پر لوگوں میں یقینی طور پر غصہ ہے ۔البتہ وزیر اعظم نے ایک خصوصی کمیٹی آئی پی پیز کے معاملے میں بنائی ہوئی ہے اور اس کی سفارشات کی بنیاد پر کچھ فیصلے ہونے ہیں ۔لیکن بجلی کا بحران کافی بڑا ہے تو اس پر عوامی ردعمل بھی دیکھنے کو مل رہا ہے ۔حال ہی میں جماعت اسلامی نے ملک گیر شٹر ڈاون کی ہرتال کا اعلان کیا ہے اور گزشتہ روز کاروباری طبقے نے دکانوں کو بندرکھا ۔ تاجر برادری کے مطابق مہنگی بجلی اور بے جا ٹیکسوں کے نظام میں کاروبار چلانا ممکن نہیں رہا ۔دوسری جانب جماعت اسلامی کو گلہ ہے کہ دھرنے کے خاتمہ پر حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے جو وعدے کیے تھے ان پر عملدرآمد نہیں ہورہا اور ہمیں مجبور کیا جارہا ہے کہ دوبارہ احتجا ج یا دھرنے کی سیاست شروع کردیں ۔جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ اگر کسی بھی سطح پر حکومت نے عوامی مفادات سے جڑے فیصلوں پر عمل نہ کیا تو نہ صرف دھرنا دیا جائے گا بلکہ اس احتجاج کو ملک گیر سطح پر پھیلادیا جائے گا ۔ دوسری جانب ملک کے بڑے صنعتکار اور کاروباری طبقہ بھی حکومت سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ ان حالات میں بجلی کے بحران کے حل میں غیر معمولی اقدامات کو یقینی بنائے تاکہ ملکی معیشت مضبوط ہو سکے ۔مسئلہ محض بجلی کے بحران کا نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کو بے بس کردیا ہے اس لیے حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ ایسی معاشی پالیسیاں اختیار کرے جو عوامی سطح پر موجود بے چینی کو ختم کرسکیں۔

دوسری جانب سیاسی عدم استحکام بھی بڑھ رہا ہے او رملک میں سیاسی حالات کی غیر یقینی صورتحال نے معیشت کو خراب کیا ہوا ہے اور ملک سے بہت سے لوگ باہر جارہے ہیں یا اپنا کاروبار باہر منتقل کررہے ہیں ۔ حکومت اور اپوزیشن میں کہیں بھی مفاہمت کی سیاست دیکھنے کو نہیں مل رہی اور عمران خا ن بھی سیاسی قوتوں سے مفاہمت یا بات چیت کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ ان کا کہنا ہے کہ بات چیت کریں گے تو مقتدرہ سے کیونکہ فیصلوں کا اختیار بقول اُن کے حکومت کے پاس نہیں مقتدرہ کے پاس ہے۔ ان کا مطالبہ حکومت کو ختم کرکے نئے انتخابات کا بھی ہے ۔ عمران خان کے اس رویہ کی وجہ سے بھی سیاسی مفاہمت کا امکان بہت کم ہے اور بانی پی ٹی آئی کا یہ طرز عمل ملک کی سیاست اور سیاسی ماحول میں محاذآرائی پیدا کررہا ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کا اپنا بحرا ن بھی بڑھ رہا ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی بانی کے جیل جانے کے بعد پارٹی میں  طاقت کے حصول کی جنگ لڑی جارہی ہے اور کے پی کے اورپنجاب میں پی ٹی آئی کے مختلف گروپ ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی کا کوئی گروپ دوسرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی ہے جو عمران خان کو پارٹی گروپ بندی کے خاتمہ میں اپنی تجاویز پیش کرے گی۔ پی ٹی آئی کے اسلام آباد جلسہ کے منسوخ ہونے پر بھی پی ٹی آئی تقسیم نظر آئی اور سینیٹ میں سینیٹرعلی ظفر اور شبلی فراز کے درمیان بھی جنگ دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ اب 8ستمبر کو پی ٹی آئی کا جلسہ ہوسکے گا یا اس بار بھی حکومت ، انتظامیہ او رپی ٹی آئی کی سطح پر یوٹرن دیکھنے کو ملے گا۔عمران خان پوری شدت کے ساتھ مقتدرہ پر دباؤ بڑھارہے ہیں کہ وہ ان سے مذاکرات کریں مگر جو لوگ عمران خان سے مذاکرات کے حامی ہیں وہ بہت سے معاملات میں عمران خان کے وعدوں کی گارنٹی دینے کے لیے تیار نہیں جس کی وجہ سے ڈیڈ لاک نمایاں ہے ۔

 اگرچہ پی ٹی آئی کوشش کررہی ہے کہ وہ ایک گرینڈ اپوزیشن کے طور پر سب کو اکٹھا کرکے حکومت پر دباؤ بڑھائے مگر دیگر اپوزیشن جماعتیں سمجھتی ہیں کہ عمران خان کی نظریں مقتدرہ پر ہیں اور وہ دیگر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر آگے نہیں بڑھنا چاہتے ۔ دوسری طرف ہمیں حکومتی سطح پر اور عدالتی محاذ پر بھی بہت کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔اگرچہ حکومت تردید کرتی ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی جس سے حکومت اور عدلیہ میں ٹکراؤ ہو مگر آئینی ترامیم لانے کا منصوبہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ججز کی مدت ملازمت میں توسیع، عمرمیں اضافہ یا چیف جسٹس کی تقرری کا اختیار وزیر اعظم کو دینے پر بھی غور ہو رہا ہے ۔ اپوزیشن الزام لگارہی ہے کہ حکومت عدلیہ کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے اور وہ ان ترامیم کی مدد سے آنے والے چیف  جسٹس صاحبان، جناب جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کا راستہ روکنا چاہتی ہے ۔ ابھی مسئلہ یہ بھی ہے کہ آئینی ترامیم کے لیے حکومت کے پاس عددی اکثریت بھی نہیں اور اس تعداد کو پورا کئے بغیر یا پی ٹی آئی میں سے فارورڈ بلاک کی حمایت کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔اس لیے اگر حکومت نے اپنے عزائم کو کامیاب کرنا ہے تو اسے بہت کچھ کرنا ہوگا ۔مگر اپوزیشن کا عزم یہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ کسی بھی صورت حکومت کو نہیں کرنے دے گی ۔

اس وقت حکومت اورعدلیہ کا ٹکراؤ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے جو کسی بھی صورت پاکستان کے مفاد میں نہیں ۔ اس لیے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم قومی مفاہمت کا راستہ اختیار کریں اور ایسی سیاست سے گریز کریں جو قومی سیاست میں پہلے سے موجود سیاسی اور معاشی استحکام کو کمزور کرے اس وقت پاکستان کو مضبوط سیاسی نظام درکار ہے او رایسے موقع پر جب بلوچستان میں خوفناک دہشت گردی ہورہی ہے تو ہمیں اس دہشت گردی کا مقابلہ کرنے لیے بڑے اتفا ق کی سیاست درکار ہے ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

ہیروں کا سیب

ایک بادشاہ بہت نیک اور رحمدل تھا اس کی رعایا اپنے بادشاہ سے بے حد خوش تھی۔بادشاہ کی صرف ایک ضد تھی کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ایک دن اس کے وزیروں نے تنگ آ کر کہا ’’حضور! اگر آپ ہمارے بادشاہ رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو شادی کرنا ہو گی‘‘

بلی، شیر کی خالہ

دریا کے کنارے سرسبزوشادا ب جنگل آباد تھا جہاں ایک شیرحکمرانی کرتا تھا۔ بادشاہ ہونے کے ناطے وہ بہت معزورتھا۔ اس علاقے میں کسی دوسرے شیرکو حملہ کرنے کی ہمت نہ تھی۔ ایک دن شیر اپنے وزیروں کے ساتھ جنگل کے دورے پر نکلااس کی ملاقات خالہ ’’بلی‘‘ سے ہوئی،شیر نے پوچھا ’’خالہ بلی، یہ تمہارا حال کس نے کیا ہے ؟‘‘بلی نے بتایا جب سے مجھے انسانوں نے پکڑا ہے میرا یہ حال کردیا ہے۔

شیر کے بارے میں چند دلچسپ حقائق

بچوں شیر کے بارے میں آپ سب یہ تو جانتے ہی ہیں کہ اسے جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔شیر کو ببر شیر بھی کہتے ہیں۔اسے عربی میں ’’اسد‘‘اور انگریزی میں’’لائن‘‘کہا جاتا ہے۔شیرکی چال بڑی شہانہ ہوتی ہے اسی لیے اسے تمام جنگلی جانوروں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔

ذرامسکرایئے

استاد:جب بجلی چمکتی ہے تو ہم کو روشنی پہلے اور آواز بعد میں کیوں آتی ہے؟ طالب علم : کیونکہ ہماری آنکھیں آگے ہیں اور کان پیچھے۔ ٭٭٭

دلچسپ معلومات

٭…دنیا کی سب سے بلند آبشار کا نام اینجل آبشار ہے۔ ٭…دنیا میں سب سے بڑی تازہ پانی کی جھیل لیک سپیرئیر کینیڈا میں ہے۔ ٭…جھیل وکٹوریہ تین ممالک یوگنڈا، کینیا اور تنزانیہ میں واقع ہے۔

اقوال زریں

٭…زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ گھائل کرتا ہے۔ ٭…اگر تم کچھ حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرو۔ ٭…لالچ انسان کو تباہ کر دیتا ہے۔