ایم کیو ایم۔پی پی پی ،برف پگھل رہی ہے ؟

تحریر : طلحہ ہاشمی


سندھ سمیت پورا ملک ان دنوں حادثات اور اندوہناک واقعات کا شکار ہے، جس نے ہر شہری کو افسردہ کردیا، سب سے پہلے ایران میں حادثے کا شکار ہونے والی زائرین کی بسوں کا ذکر کرلیتے ہیں۔

اس سال زائرین کی تین بسیں یکے بعد دیگرے حادثات کا شکار ہوئیں، پہلا حادثہ ایران میں ہی پیش آیا، یہ بس اندرون سندھ سے مسافروں کو لے کر گئی تھی، حادثے میں 28 افراد جاں بحق ہوئے، ایک اور بس جو زائرین کی لے کر ایران جارہی تھی مگر اجازت نہ ملنے پر واپسی کے سفر پر تھی کہ بلوچستان میں حادثہ پیش آگیاجس میں12 افراد جاں بحق ہوئے۔ زائرین کی ایک اور بس ایران میں ہی حادثے کا شکار ہوئی، اس واقعہ میں تین افراد نے جاں بحق ہوئے۔تینوں حادثات بسوں کے بریک فیل ہونے کے باعث پیش آئے۔صوبائی حکومت نے زائرین کی میتیں گھر والوں تک پہنچادیں، امداد کا اعلان بھی ہوگیا لیکن یہ اعلان اب تک سامنے نہیں آیا کہ بس کمپنیوں یا ذمہ داران کے خلاف بھی کوئی کارروائی کی جائے گی اور کوئی ایسا نظام بنایا جائے گا کہ طویل سفر پر جانے والی بسوں کی فٹنس چیک ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ کتنی پرانی بس سفر پر جاسکتی ہے، ڈرائیور کتنا تربیت یافتہ ہوگا، مسافروں کا ریکارڈ حکومت کے پاس جمع کرایا جائے گا، یہ اور اس طرح کے اقدامات جن سے مسافروں کی حفاظت یقینی بنائی جاسکے، اب تک سامنے نہیں آئے۔ کیا انتظامیہ کی کوئی ذمہ داری نہیں؟

کراچی میں بھی دو حادثات میڈیا اور سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرتے رہے، ایک سانحہ کارساز اور دوسرا گلستان جوہر میں سڑک حادثے میں نوجوان بائیکر لڑکی کی ہلاکت۔ کارساز واقعے میں حکومت بار بار یقین دلا رہی ہے کہ انصاف ہوگالیکن عوام میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے اس بات پر یقین ہو، سب کا کہنا ہے کہ آج نہیں تو کل ملزمہ کو ضمانت اور اس کے بعد رہائی مل جائے گی۔ جاں بحق ہونے والے باپ بیٹی کے لواحقین کو دیت دے دی جائے گی اور وہ بھی صبر شکر کرلیں گے، لیکن گلستان جوہر میں سڑک حادثے میں جاں بحق ہونے والے واقعے کی اصل ذمے دار انتظامیہ ہے، جس سڑک پر حادثہ ہوا اگر اسے دیکھا جائے تو سڑک کو مرمت کے لیے ایک طرف سے کھرچ دیا گیا تھا، جس سے سڑک کے ایک دوسرے حصے اور کھرچے گئے حصے کے درمیان 4 سے 5 انچ گہرائی کا واضح فرق آگیا تھا! لڑکی نے اپنی سکوٹی کو کھرچے گئے حصے سے دوسری جانب باہر نکالنے کی کوشش کی اور اس دوران پھسل کر سڑک پر گر گئی۔ پیچھے سے آنے والے ڈمپر نے لڑکی کو کچل دیا۔ جو لوگ بائیک چلاتے ہیں انہیں اندازہ ہے کہ سڑک پر اس طرح کا گڑھا کتنا خطرناک ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سڑک  کھودنے والے ٹھیکیدار کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟ انتظامیہ نے سڑک کو اس طرح کھود کر چھوڑ دینے کی اجازت کیوں دی؟ دن کے اوقات میں شہر کے مصروف علاقے میں ڈمپر سڑک پر کیسے آگیا؟ آج بھی شہر کی سڑکوں پر ٹریلر، ڈمپر دندناتے پھرتے ہیں، انتظامیہ نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، رہی بات ٹریفک پولیس کی تو، جس چوراہے پر کھڑے ہوجائیں، آپ کو اہلکار نظر آئیں گے، کوئی بھی لوڈر گاڑی یا ٹرک یا ڈمپر بغیر پیسے دیے جاکر تو دکھائے، ہر چھوٹی بڑی سڑک پر ہیوی گاڑیاں چل رہی ہیں، نہ کسی ٹاؤن چیئرمین کو کچھ نظر آتا ہے اور نہ میئر صاحب کو جن کی ذمہ داری میڈیا پر سندھ حکومت کی ترجمانی ہی رہ گیا ہے۔ شہر کے لیے ان کے صرف دعوے ہی سامنے آئے ہیں۔

اس طرح کچے کا علاقہ بھی سندھ اور پنجاب حکومت کے لیے دردِسر بنا ہوا ہے۔ چند روز پہلے سندھ کی سرحد سے متصل پنجاب کے علاقے میں 12 پولیس اہلکاروں کو شہید کردیا گیا۔ یہ اہلکار رات کو کچے کے علاقے میں پھنس گئے تھے، شہادت سے قبل اہلکاروں کی ویڈیو نے تو ہر ایک کو اشکبار کردیا۔ ویڈیو میں اہلکاروں کی مسکراہٹ اور ہاتھوں میں فرسودہ اسلحے نے دل کاٹ کر رکھ دیا۔ ہاتھ پاؤں باندھ کر دریا میں پھینک دینا اور پھر کہنا تیر کر دکھاؤ ۔ اطلاعات ہیں کہ سندھ اور پنجاب حکومت مشترکہ آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ہر سیاستدان یہ کہتا نظر آیا کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ ہے،مگر یہ اسلحہ کون دیتا ہے؟ کہاں سے آیا؟ یہ سوال تو عوام کو ان سیاستدانوں سے پوچھنا چاہیے، خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں۔ سمگلنگ روکنا اور ڈاکوؤں کی سرکوبی کے لیے منصوبہ بندی اور قانون سازی کرنا ، سیاستدانوں کا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے۔ اپنا کام کرتے نہیں ہو، الٹا پوچھتے ہیں کہ ایسا ہوا کیوں۔ باتیں کرنے کا وقت ختم ہوگیا، اب عمل کا وقت ہے، سب مل کر ڈاکوؤں کی سرکوبی کی منصوبہ بندی کریں، پولیس کو جدید اسلحے سے لیس کریں۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ ڈاکوؤں کی کہیں نہ کہیں سے سرپرستی ہوتی ہے، اگر واقعی ایسا ہے تو جہاں سے بھی مبینہ طور پر ڈاکوؤں کی سرپرستی ہورہی ہے اسے ختم کروایا جائے، تب ہی ڈاکوؤں سے نجات مل سکے گی، ورنہ پھر ایسا واقعہ ہوگا اور پھر الزام تراشی اور ہمدردی کا نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔

سیاستدانوں کی بات ہورہی ہے تو ایم کیو ایم پاکستان کی پیپلز پارٹی کو پیشکش بھی جان لیں، مصطفی کمال نے سیز فائر کا فارمولا پیش کردیا، کہا کہ جب کبھی بلاول بھٹو وزیراعظم بننا چاہیں گے تو ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی انہیں ووٹ دینے کو تیار ہیں۔ مصطفی کمال کے اس بیان کے بعد ایسا لگتا ہے کہ برف پگھل رہی اور جلد سندھ کے سیاسی منظر نامے پر پیپلز پارٹی اور  ایم کیو ایم کے درمیان نہ صرف اہم ملاقاتیں ہوں گی بلکہ مفاہمت کا ایک نیا دور شروع ہونے کا قوی امکان ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

ہیروں کا سیب

ایک بادشاہ بہت نیک اور رحمدل تھا اس کی رعایا اپنے بادشاہ سے بے حد خوش تھی۔بادشاہ کی صرف ایک ضد تھی کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ایک دن اس کے وزیروں نے تنگ آ کر کہا ’’حضور! اگر آپ ہمارے بادشاہ رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو شادی کرنا ہو گی‘‘

بلی، شیر کی خالہ

دریا کے کنارے سرسبزوشادا ب جنگل آباد تھا جہاں ایک شیرحکمرانی کرتا تھا۔ بادشاہ ہونے کے ناطے وہ بہت معزورتھا۔ اس علاقے میں کسی دوسرے شیرکو حملہ کرنے کی ہمت نہ تھی۔ ایک دن شیر اپنے وزیروں کے ساتھ جنگل کے دورے پر نکلااس کی ملاقات خالہ ’’بلی‘‘ سے ہوئی،شیر نے پوچھا ’’خالہ بلی، یہ تمہارا حال کس نے کیا ہے ؟‘‘بلی نے بتایا جب سے مجھے انسانوں نے پکڑا ہے میرا یہ حال کردیا ہے۔

شیر کے بارے میں چند دلچسپ حقائق

بچوں شیر کے بارے میں آپ سب یہ تو جانتے ہی ہیں کہ اسے جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔شیر کو ببر شیر بھی کہتے ہیں۔اسے عربی میں ’’اسد‘‘اور انگریزی میں’’لائن‘‘کہا جاتا ہے۔شیرکی چال بڑی شہانہ ہوتی ہے اسی لیے اسے تمام جنگلی جانوروں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔

ذرامسکرایئے

استاد:جب بجلی چمکتی ہے تو ہم کو روشنی پہلے اور آواز بعد میں کیوں آتی ہے؟ طالب علم : کیونکہ ہماری آنکھیں آگے ہیں اور کان پیچھے۔ ٭٭٭

دلچسپ معلومات

٭…دنیا کی سب سے بلند آبشار کا نام اینجل آبشار ہے۔ ٭…دنیا میں سب سے بڑی تازہ پانی کی جھیل لیک سپیرئیر کینیڈا میں ہے۔ ٭…جھیل وکٹوریہ تین ممالک یوگنڈا، کینیا اور تنزانیہ میں واقع ہے۔

اقوال زریں

٭…زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ گھائل کرتا ہے۔ ٭…اگر تم کچھ حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرو۔ ٭…لالچ انسان کو تباہ کر دیتا ہے۔