اصلاح معاشرہ کے بنیادی اصول

تحریر : مفتی ڈاکٹرمحمد کریم خان


’’مومن عیب نکالنے والا، لعنت کرنے والا، فحش گو اور بے حیا نہیں ہوتا‘‘(جامع ترمذی) معاشرہ کی اصلاح کا پہلا اصول زبان کی حفاظت کرنا، دوسرا اہم پہلو امانت داری ہے، اخوت، محبت اور رحمدلی وہ چیزیں ہیں جو زندگی کو خوبصورت بنانے کا باعث بنتی ہیں معاشرتی اصلاح کا اہم ترین اصول رزق حلال ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘(البقرہ)

معاشرے کو ترقی کی راہ پرگامزن کرنے اور اسے امن و آشتی کا گہوارہ بنانے کیلئے اخلاق حسنہ سے تمسک اور اخلاق رذیلہ سے اجتناب ضروری ہے۔ اچھے اخلاق ذہن وفکر اور دل ودماغ پر پاکیزہ اثرات مرتب کرتے ہیں، دین اسلا م سے تعلق و ہم آہنگی کی راہیں استوار کرتے ہیں۔ اس کے بر عکس برے اخلاق نہ صرف انسان کے سیرت و کردار کو گدلا کرتے ہیں بلکہ معاشرے کے امن و سکون کو بھی تہہ و بالا کر دیتے ہیں۔ ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل میں ہر شعبہ زندگی کیلئے ایک ایسا ہی ضابطہ اخلاق ناگزیر ہے جو قرآن و سنت کی تعلیمات میں موجود ہے اور جس پر عمل پیرا ہوکر ہمارے اسلاف نے نہ صرف اپنے زمانے کی اصلاح فرمائی، بلکہ اُن کے کردار کی خوشبو سے آج بھی زمانہ معطر ہے۔ اس ضابطہ اخلاق پر عمل میں ہی معاشرہ کی بقا کا راز مضمر ہے۔ ذیل میں ایک اعلیٰ معاشرہ کی تشکیل کیلئے چند بنیادی اصول بیان کئے جاتے ہیں۔

زبان کی حفاظت

معاشرہ کی اصلاح کا پہلا اصول زبان کی حفاظت کرنا ہے۔ زبان کا اچھا یا برا استعمال افرادِ معاشرہ کی تربیت کو ظاہرکرتا ہے۔ سب سے زیادہ غلطیاں انسان زبان سے ہی کرتا ہے لہٰذا عقلمند لوگ اپنی زبان کو سوچ سمجھ کر اور اچھے طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ زبان کا سائز چھوٹا لیکن اس کی اطاعت اور نافرمانی بڑی ہے، اس لئے کہ کفر و ایمان کا اظہار صرف زبان کی شہادت کے ساتھ ہوتا ہے۔زبان کی آفات، فتنے و فسادات انتہائی خطرناک ہیں۔ اس کی حفاظت کے چند طریقے احادیث مبارکہ کی روشنی میں بیان کیے جاتے ہیں۔

زبان کی آفات سے بچنے کا بہترین راستہ  خاموشی ہے اسی وجہ سے شریعت نے خاموشی کی تعریف کی ہے اور اس کی ترغیب دی ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’جو چپ رہااس نے نجات پائی‘‘ (جامع ترمذی:2509)۔ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے: ’’خاموشی حکمت ہے مگر اس کواختیارکرنے والے تھوڑے ہیں‘‘(شعب الایمان:5027)۔

حضرت عبداللہ بن سفیانؓ کے والدبیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺسے عرض کی یارسول اللہ!مجھے اسلام سے متعلق کسی ایسی بات کی خبر دیجئے جس کے بارے میں آپ کے بعد میں کسی سے نہ پوچھوں؟ارشاد فرمایا:یہ کہومیں ایمان لایا پھراس پر قائم رہو۔ میں نے عرض کی، میں کس چیزسے ڈروں؟ آپﷺ نے ہاتھ سے اپنی زبان کی طرف اشارہ فرمایا(جامع ترمذی: 2418)

زبان کی خرابیوں میں سے ایک خرابی لڑائی جھگڑاکرناہے۔اس سے بچنے والاایمان کی حقیقت کوپالیتاہے۔نبی کریمﷺنے فرمایا:چھ چیزیں جس شخص کے اندر ہوں گی وہ ایمان کی حقیقت کو پالے گا (1)گرمیوں میں روزے رکھنا(2) دشمنانِ خْدا کے ساتھ جنگ کرنا (3)بارش وگھٹا والے دن نماز میں جلدی کرنا (4)مصیبتوں پر صبر کرنا (5)مشقت (یعنی ٹھنڈک کی شدت وغیرہ)کے باوجود کامل وضو کرنا(6) حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہ کرنا۔(شعب الایمان: 2755)

زبان کی خرابیوں میں سے دوسری خرابی بدکلامی اور فحش گفتگو کرنا ہے، فحش گوئی سے صرف مومن ہی بچ سکتا ہے۔نبی کریمﷺنے فرمایا:مومن عیب نکالنے والا، لعنت کرنے والا ،فحش گو اوربے حیا نہیں ہوتا(جامع ترمذی:1984)

امانت داری

معاشرے کی اصلاح کادوسرا اہم پہلوامانت داری ہے، باہمی معاملات اور لین دین میں امانت داری کا مظاہرہ کرنا اوردیانت داری کا دامن تھامے رکھنا شریعت اسلامی کی اوّلین ترجیحات میں سے ہے۔ امانت داری ایمان کاحصہ ہے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا’’جوامانت دارنہیںاس کاایمان نہیں‘‘ (مسنداحمد:12386)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اُنہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں۔(النساء: 58)

صداقت

 اللہ تعالیٰ نے انسانی معاشرے کو جن راستوں پر چلنے کا حکم دیا ہے، ان میں سے ایک’’صدق‘‘ بھی ہے۔ صدق وسچائی اللہ تعالیٰ،انبیائے کرام علیہم السلام، بالخصوص خاتم الانبیاء ﷺ، ملائکہ، اولیاء و صالحین اور ہر منصف مزاج، سلیم الفطرت شخص کا مشترکہ وصف ہے۔معاشرے کا امن و سکون، راحت و چین اور اس کی تعمیر و ترقی کی بنیاد صدق پر ہے۔ کیونکہ سچ اخلاق حسنہ میں سے ہے۔اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ سچوں کے سنگ چلنے کاحکم دیا۔قرآن مجیدمیں ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو‘‘ (سورۃ التوبہ:119)

نبی کریمﷺنے سچ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:تم صدق پر قائم رہو کیونکہ صدق نیکی کے راستے پر چلاتا ہے اور نیکی جنت کے راستے پر چلاتی ہے۔ انسان مسلسل سچ بولتا رہتا ہے اور کوشش سے سچ پر قائم رہتا ہے، حتی کہ وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھ لیا جاتا ہے، اور جھوٹ سے دور رہو کیونکہ جھوٹ کج روی کے راستے پر چلاتا ہے اور کج روی آگ کی طرف لے جاتی ہے، انسان مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسے کذاب لکھ لیا جاتا ہے۔(صحیح بخاری:5743)

حضرت عبادہ بن صامت ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دومیں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں،جب بھی بات کروتوسچ بولو، وعدہ کرو تو اسے پوراکرو، امانت تمہیں دی جائے تو اسے اداکرو،اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو،نظریں جھکائے رکھو اور اپنے ہاتھوں کو (دوسروں کواذیت دینے سے) روکے رکھو(مسنداحمد:22757)

قناعت

قناعت کا لغوی معنٰی قسمت پر راضی رہنا ہے۔ نبی کریمﷺنے فرمایا:غناء کثرت مال کا نام نہیں ہے بلکہ دل کی بے نیازی کا نام ہے۔(صحیح مسلم:1051)۔حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : بلاشبہ وہ کامیاب ہو گیا جو اسلام لایا، اسے حسبِ ضرورت رزق عطا ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اسے جو کچھ دیا اس پر قناعت عطا فرمائی۔(صحیح مسلم:1054)۔امام شافعی فرماتے ہیں:قناعت راحت کا دروازہ کھولتی ہے۔(الطبقات الکبریٰ،ص79)

پس قناعت ایک نعمتِ عظمیٰ ہے، اس پر کاربند ہوکر ہم اپنے معاشرہ کو جنت نظیر معاشرہ بناسکتے ہیں۔ قناعت ’’بس‘‘ کا نام ہے کہ گھر کے اخراجات اور بچوں کی روزی روٹی عزت کے ساتھ پوری ہو جائے تو انسان کہے بس اتناہی کافی ہے،اوراللہ تعالیٰ کی رضاپرراضی رہے۔

رزقِ حلال

معاشرتی  اصلاح کااہم ترین اصول رزق حلال ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘(البقرہ:168)۔اللہ تعالیٰ نے نہ صرف مومنوں بلکہ انبیاء کرام علیہم السلام کوبھی حلال اورپاکیزہ روزی کے حصول کا حکم دیا ہے، قرآن مجیدمیں ہے: ’’اے رسولو ! پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرتے رہو، بیشک تم جو بھی کام کرتے ہو میں اس کو خوب جاننے والا ہوں (المومنون :51 )۔ رزق حلال کے بارے چند احادیث حسب ذیل ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی بھیجا اس نے بکریاں چرائی ہیں، آپﷺ کے اصحاب نے پوچھا اور آپﷺ نے بھی؟توآپﷺنے فرمایا : ہاں میں بھی چند قیراط کے عوض مکہ والوں کی بکریاں چراتا تھا۔ (صحیح بخاری:2262)

پردہ پوشی

معاشرے کی اصلاح کاایک پہلوپردہ داری ہے جبکہ عصرحاضر میں ہماری اخلاقی برائیوں میں سے ایک برائی یہ بھی ہے کہ لوگ ہمہ وقت دوسروں کے عیوب و نقائص کوٹٹولنے کے درپے رہتے ہیں۔یہ انتہائی نامناسب رویہ ہے، جو ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ سرایت کرتاجارہا ہے۔  اسلام نے مسلمان بھائی کے عیب و نقص اور اُس کی کمی و کوتاہی کو چھپانے اور اس سے چشم پوشی کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کو ظاہر کرنے اور اس کی پردہ داری  نہ کرنے سے شدید نفرت اور سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔( ابن ماجہ:2546)

صبر و تحمل

مشکل وقت میں صبر و شکر اور رضاء بالقضاء کا دامن تھام کر صبر و تحمل اور برداشت و روا داری کے ساتھ زندگی گزارنا نہ صرف یہ کہ بندہ مومن کی شان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اورنبی کریم ﷺ کے نزدیک وہ شخص انتہائی محبوب اور پسندیدہ ہے جو ہرحال میں صبر و تحمل اوررواداری و بردباری کے ساتھ صابرو شاکر رہ کر زندگی گزارنے کی خُو رکھتا ہو۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو فرمایا: آپ اپنے رب کیلئے صبر کیجیے‘‘ (المدثر:7)۔  اہل ایمان سے کلام کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے۔ (البقرہ: 153)۔

صبرکی اہمیت وفضیلت کوبیان کرتے ہوئے نبیﷺنے فرمایا: ’’مومن کا معاملہ کیا ہی خوب ہے۔اس کے سارے معاملات اس کے لیے باعث خیرہیں اوریہ سعادت مومن کے علاوہ کسی اورکوحاصل نہیں ہے۔ اگراسے خوشی حاصل ہوتی ہے اوراس پر وہ شکر ادا کرتا ہے تو اس کیلئے خیر ہے اوراس کو تکلیف پہنچتی ہے اوروہ اس پر صبرکرتاہے تو یہ بھی اس کیلئے خیرہے(صحیح مسلم: 2999)

صلح جوئی

اخوت ، محبت اوررحمدلی یہ وہ چیزیں ہیں جو زندگی کو خوبصورت بنانے کا باعث بنتی ہیں۔ محبت ہی وہ جذبہ ہے جو انسان کو ہر چیز قربان کردینے پر آمادہ کرتا ہے ، محبت  بڑے بڑے سخت دل لوگوں کو بھی موم بنادیتی ہے اور یہ محبت ہی ہے جو معاشرے میں حسن و نکھار پیدا کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اخوت و محبت کسی بھی معاشرے کا اہم ستون ہے۔انسان خواہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتا ہو اسے ہرایک سے بلاتفریق رنگ،نسل و مذہب اور مالی حیثیت کے محبت سے پیش آنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺنے اپنی حیات طیبہ میں کہیں بھی یہ تعلیم نہیں دی کہ دوسرے کی حیثیت دیکھ کر ان سے تعلق جوڑو،بلکہ بلاتفریق آپﷺ نے حسن معاشرت ،باہمی محبت،رواداری کاحکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نبی کریمﷺکی صفت کایوں تذکرہ کیا:پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کیلئے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تْندخْو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔(سورہ آل عمران:159)

کسی بھی معاشرہ کی اصلاح کیلئے زبان کی حفاظت، امانت داری، صداقت، قناعت، رزق حلال کاحصول، پردہ پوشی، صبر و تحمل، صلح جوئی، ایثار اور عدل و انصاف بنیادی اصول ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث سے مترشح ان اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، امین۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

ہیروں کا سیب

ایک بادشاہ بہت نیک اور رحمدل تھا اس کی رعایا اپنے بادشاہ سے بے حد خوش تھی۔بادشاہ کی صرف ایک ضد تھی کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ایک دن اس کے وزیروں نے تنگ آ کر کہا ’’حضور! اگر آپ ہمارے بادشاہ رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو شادی کرنا ہو گی‘‘

بلی، شیر کی خالہ

دریا کے کنارے سرسبزوشادا ب جنگل آباد تھا جہاں ایک شیرحکمرانی کرتا تھا۔ بادشاہ ہونے کے ناطے وہ بہت معزورتھا۔ اس علاقے میں کسی دوسرے شیرکو حملہ کرنے کی ہمت نہ تھی۔ ایک دن شیر اپنے وزیروں کے ساتھ جنگل کے دورے پر نکلااس کی ملاقات خالہ ’’بلی‘‘ سے ہوئی،شیر نے پوچھا ’’خالہ بلی، یہ تمہارا حال کس نے کیا ہے ؟‘‘بلی نے بتایا جب سے مجھے انسانوں نے پکڑا ہے میرا یہ حال کردیا ہے۔

شیر کے بارے میں چند دلچسپ حقائق

بچوں شیر کے بارے میں آپ سب یہ تو جانتے ہی ہیں کہ اسے جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔شیر کو ببر شیر بھی کہتے ہیں۔اسے عربی میں ’’اسد‘‘اور انگریزی میں’’لائن‘‘کہا جاتا ہے۔شیرکی چال بڑی شہانہ ہوتی ہے اسی لیے اسے تمام جنگلی جانوروں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔

ذرامسکرایئے

استاد:جب بجلی چمکتی ہے تو ہم کو روشنی پہلے اور آواز بعد میں کیوں آتی ہے؟ طالب علم : کیونکہ ہماری آنکھیں آگے ہیں اور کان پیچھے۔ ٭٭٭

دلچسپ معلومات

٭…دنیا کی سب سے بلند آبشار کا نام اینجل آبشار ہے۔ ٭…دنیا میں سب سے بڑی تازہ پانی کی جھیل لیک سپیرئیر کینیڈا میں ہے۔ ٭…جھیل وکٹوریہ تین ممالک یوگنڈا، کینیا اور تنزانیہ میں واقع ہے۔

اقوال زریں

٭…زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ گھائل کرتا ہے۔ ٭…اگر تم کچھ حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرو۔ ٭…لالچ انسان کو تباہ کر دیتا ہے۔