پی سی بی مینٹورز: کرکٹ ٹیلنٹ کو نکھارنے کی بہتر کاو ش
پاکستان کرکٹ بورڈ نے کرکٹ کے نئے ٹیلنٹ کو قومی سطح پر ابھارنے کیلئے چیمپئنزون ڈے کپ ایونٹ کی بنیاد رکھی ہے جو 12سے 29ستمبر تک فیصل آباد میں ہو گا۔لسٹ اے لیول کے اس ٹورنامنٹ میں 5ٹیمیں وولوز، پینتھرز، سٹالینز، لائنز اور ڈولفنز مدمقابل ہوں گی، جن میں شامل 150کھلاڑیوں کے پاس اپنی کارکردگی سے خود کو عالمی سطح پر متعارف کرا نے کا موقع ہو گا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے پانچوں ٹیموں کیلئے 5 مینٹورز وقار یونس، مصباح ، ثقلین مشتاق ،شعیب ملک اور سرفراز احمد کو منتخب کیا ہے۔ ان میں سے وقار یونس نے گزشتہ ماہ میں مشیر چیئرمین پی سی بی کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی تھی اور چیئرمین محسن نقوی کے ساتھ پریس کانفرنس میں انہوں نے کنسلٹنٹ کی حیثیت سے نئے منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔بعدازاں وقاریونس کوچیمپئنز ون ڈے کپ کی ایک ٹیم کا مینٹور مقرر کر دیا گیا۔
سرفراز احمد جو بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ سیریز کیلئے پندرہ رکنی ٹیم کا حصہ ہیں انہیں بھی مینٹور بنادیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چیمپئنز کپ میں سرفراز احمد کھلاڑی کی حیثیت سے ایکشن میں نہیں ہوں گے۔ اگلے سال ون ڈے، فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ میں سرفراز احمد کی کھلاڑی کی حیثیت سے شرکت کا فیصلہ ان کی فارم اور فٹنس سے مشروط ہوگا ان کے معاہدے میں شامل ہے کہ وہ کھلاڑی کی حیثیت سے کھیل سکتے ہیں۔ مصباح الحق، ثقلین مشتاق، سرفراز احمد، شعیب ملک اور وقار یونس کیساتھ 3،3 سالہ معاہدے کئے گئے ہیں اور وہ پی سی بی سے فی کس سالانہ 50لاکھ روپے وصول کریں گے، سکواڈز کے نام تو سامنے آچکے ہیں تاہم ٹیموں کا اعلان مناسب وقت پر کیا جائے گا۔
پی سی بی ڈومیسٹک کرکٹ سیزن 2024-25ء میں ان مینٹورز کا پہلا اسائنمنٹ فیصل آباد میں 12 سے 29 ستمبر تک چیمپئنز ون ڈے کپ ہو گا۔ مینٹورز کا کام ٹیلنٹ کی نشاندہی کرنا اور اسے نکھارنا ہے۔ چیمپئنز کپ کی ہر ٹیم کے ساتھ 10 رکنی سپورٹنگ سٹاف موجود ہو گا۔ ان میں ہیڈ کوچ، نائب کوچ، منیجر و دیگر شامل ہیں۔ سرفراز احمد اور شعیب ملک دو بار جبکہ مصباح الحق ایک بار آئی سی سی ایونٹ کے فاتح اور ایشیا کپ 2012ء جیتنے والے کپتان جبکہ ثقلین مشتاق اور وقاریونس 1999ء کے ورلڈ کپ فائنل میں کھیلنے والی ٹیم کے ممبر تھے۔
چیمپئنز کپ ٹیموں کے ان مینٹورز نے مجموعی طور پر 1621 بین الاقوامی میچز کھیل رکھے ہیں۔مصباح الحق پاکستان کے سب سے کامیاب ٹیسٹ کپتان ہیں ،جنہوں نے اپنی ٹیم کو 56 میں سے 26 ٹیسٹ میں فتوحات دلوائیں۔ 2016ء میں آئی سی سی ٹیسٹ ٹیم رینکنگ میں پاکستان کونمبر ون پر پہنچایا۔ 2014ء میں آسٹریلیا کے خلاف ابوظہبی میں 56 گیندوں پر 100 رنز بنا کر تیز ترین ٹیسٹ سنچری کا عالمی ریکارڈ برابر کیا۔50 اوورز کے دو ورلڈ کپ، تین ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ اور تین آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی ایونٹس کھیلے۔ آئی سی سی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ 2007ء کا فائنل کھیلنے والی ٹیم کے ممبر تھے اور اور دو سال بعد لارڈز میں ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم میں بھی شامل تھے۔2017ء کے ’’وزڈن کرکٹرز آف دی ایئر‘‘ میں شامل ہوئے۔
ثقلین مشتاق ون ڈے انٹرنیشنل میں سب سے تیز 250 وکٹیں لینے والے اور ایک کیلنڈر سال میں سب سے زیادہ ون ڈے وکٹیں لینے والے باؤلر ہیں۔ ایک ون ڈے اننگز میں مسلسل پانچ وکٹیں لینے والوں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ون ڈے انٹرنیشنل میں دو ہیٹرکس کیں جس میں ایک ورلڈ کپ کی ہیٹرک بھی شامل ہے۔ ثقلین مشتاق سپن باؤلنگ ورائٹی ’’دوسرا‘‘ کے موجد ہیں ۔تین ورلڈ کپ اور دو چیمپئنز ٹرافی ایونٹس کھیلے ہیں۔ان سے امیدیں وابستہ ہیں کہ یہ سپنرز کو نکھار کر قومی ٹیم کیلئے ایک بڑی کھیپ تیار کرینگے۔
سرفراز احمد انڈر 19 ورلڈ کپ 2006ء اور آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2017ء جیتنے والی ٹیم کے کپتان ہیں۔وہ ایشیا کپ 2012ء جیتنے والی ٹیم میں شامل تھے۔ ایک ون ڈے انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ چھ کیچز کا ریکارڈ رکھتے ہیں، دوسرے وکٹ کیپر ہیں جنہوں نے پچاس یا زائد ون ڈے انٹرنیشنل میں ٹیم کی کپتانی کی۔
شعیب ملک نے2007ء اور 2019ء میں پچاس اوورز کے ورلڈ کپ کھیلے۔2007ء کے ورلڈ کپ میں ٹیم کی کپتانی کی،چھ چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹس کھیل چکے ہیں۔بین الاقومی کرکٹ میں 20سال سے موجود ہیں اور انہیں فرنچائز کرکٹ میں سب سے زیادہ مصروف کرکٹرز میں شمار کیا جاتا ہے۔
وقار یونس50 اوورز کے تین ورلڈ کپ کھیل چکے ہیں، ون ڈے میں سب سے تیز چار سو وکٹیں مکمل کرنے والے باؤلر ہیں۔ٹیسٹ میچ میں تمام کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے والے باؤلرز میں سے ایک ہیں۔2010ء اور 2016ء کے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ اور 2015ء ورلڈ کپ میں پاکستان کی کوچنگ کی جبکہ 2019ء سے2021ء تک پاکستان ٹیم کے باؤلنگ کوچ بھی رہے۔
اگر انٹرنیشنل کرکٹ پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ کئی کامیاب کپتان یا کرکٹرز کامیاب کوچ نہیں بن سکے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کوچنگ ایک کوالیفائیڈ پروفیشن ہے۔ اگر کوئی کھلاڑی یہ سوچے کہ میں ایک اچھا کھلاڑی تھا، اس لئے اچھا کوچ بھی بن سکتا ہوں تویہ بالکل بھی مناسب بات نہیں۔ یہ بڑی پرانی بحث ہے کہ کیا ایک کامیاب کھلاڑی اور کپتان کامیاب کوچ ثابت ہو سکتا ہے یا نہیں، فٹ بال کی دنیا میں اس کی سب سے بڑی مثال شہرہ آفاق فٹ بالر ڈیاگو میراڈونا کی دی جاتی ہے۔ کرکٹ میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔دوسری جانب کئی ایسے نام بھی موجود ہیں جنہوں نے بین الاقوامی کرکٹ یا تو بالکل نہیں کھیلی یا پھر برائے نام کھیلی لیکن کوچ کی حیثیت سے وہ بے حد کامیاب رہے ان میں مکی آرتھر، مائیک ہیسن، گراہم فورڈ، جان بکانن، ٹریور بیلس اور ڈنکن قابل ذکر ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ 5مینٹورز کا کام کیا ہوگا ،ان کو 3سالہ معاہدے کے تحت اناؤنس تو کردیا گیا لیکن اگریہ کوچنگ کے فرائض انجام دینے آئے ہیں تو دیگر کوچز کیا خدمات انجام دیں گے اور اگر ان کا کام صرف کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی اور ٹیلنٹ کو آگے لانا کیلئے سفارش کرنااوران کے ٹیلنٹ کو نکھارنا ہوگا تو یہ ایک نئی چیز ہے جو بہت حد تک کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ ذرائع کا کہناہے کہ مینٹورز اچھی صلاحیتوں کے حامل کھلاڑیوں کی انٹرنیشنل کرکٹ کیلئے تیاری کے فرائض انجام دیں گے۔مینٹورکسی بھی ایسے کھلاڑی کو جو عالمی سطح پر قومی کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کااہل ہوگا اسے اپنے تجربات کی روشنی میں میچ پریشر اورکنڈیشنز کو سمجھنے کے گُر بتائیں گے اورباؤلرز کو میچ ونر بنانا جبکہ بلے بازوں کو فنشر بنانا ان کا کام ہوگا۔
چیئرمین پی سی بی کے مطابق چیمپئنز کپ کے ذریعے نئے ٹیلنٹ کو سامنے آنے کا موقع ملے گا۔ چیمپئنز کپ میں شامل پانچ ٹیموں کے درمیان تینوں فارمیٹس ٹیسٹ (چارروزہ فرسٹ کلا س میچز)،ون ڈے اور ٹی 20کے مقابلے ہوں گے۔ پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ کا سٹرکچر ہمیشہ سے ہی ایک اہم معاملہ رہا ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کے مخالف اور ریجنل ٹیموں کے حامی بنے لیکن کھلاڑیوں کی اکثریت اس سسٹم کے خلاف رہی۔ ان کا یہ شکوہ ہے کہ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ ختم ہونے سے ان کی ملازمتیں بھی ختم ہو جاتی ہیں لہٰذا وہ کرکٹ چھوڑ کر دوسرے مواقع تلاش کرتے ہیں۔سابق چیئرمین احسان مانی کے دور میں پاکستان کرکٹ بورڈ ڈومیسٹک کرکٹ کے سٹرکچر میں چند تبدیلیاں لایا تھا جو ان سے قبل ہونے والی تبدیلیوں سے کافی مختلف تھیں۔ان تبدیلیوں سے کئی فرسٹ کلاس کرکٹرز بے روزگار ہو گئے تھے۔
پانچ مینٹورز کی تقرری کے بعد ارباب اختیار مطمئن نظر آتے ہیں کہ کرکٹ کے میدان میں ہم بہتر سے بہتر ٹیلنٹ لاسکیں گے ۔مینٹورز کی اہلیت یہ ہوگی کہ وہ انٹرنیشنل کرکٹ کیلئے پریشر برداشت کرنے والے کرکٹرزکی نشاندہی کریں ۔چیمپئنز کپ سے عالمی مقابلوں کیلئے بہترین کرکٹرز تیار ہونے کی امید ہے۔یہ کرکٹ کے ٹیلنٹ کو ابھارنے کی ایک بہترین کوشش ہے مگر اسے کارگر بنانے کیلئے مینٹورز اور کوچنگ سٹاف کو پورا وقت دینا ہوگا تاکہ وہ اپنی تجربے اور صلاحیتوں کے مطابق نئے کھلاڑیوں کو گروم کرسکیں ،اگر ایک دو ایونٹس میں ہی ان سے رزلٹ کی توقع پوری نہ ہونے پر اس سسٹم کو لپیٹا گیا تو نقصان کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔