بارشیں،مسائل اور شکوے
سندھ میں بارشیں کیا ہوئیں کہ سب نے اپنی توپوں کا رخ پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف کرلیا۔ کوئی نااہل قرار پایا تو کوئی غیرذمہ دار، لیکن جس چیز نے عوام کو حیرت زدہ کردیا وہ دو بیانات ہیں، ایک وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا اور دوسرا وزیر بلدیات سعید غنی کا ۔
پہلے اندرون سندھ کی بات کرلیتے ہیں کہ حالیہ بارشوں سے صوبے میں کس قدر مشکلات پیدا ہوئی ہیں، گلی محلوں میں پانی کھڑا ہوگیا، بند اور پشتے ٹوٹ گئے، ہزاروں ایکڑ پر فصلیں تباہ ہو چکیں اور متاثرین کی تعداد بھی انگنت ہے۔ کئی علاقوں کے مکینوں نے تو حکومت سے کشتیاں چلانے کا مطالبہ کردیا تاکہ محفوظ مقامات پر پہنچ سکیں۔ بارش کا سلسلہ ابھی تھما نہیں، رواں ہفتے بھی سندھ کے کئی شہروں میں بارش نے اپنا رنگ دکھایا۔ شہروں کی صورتحال کی بات کریں تو حیدرآباد سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے منتخب اراکین صوبائی اسمبلی نے حکومت اور افسران پر نااہلی اور کرپشن کا الزام عائد کرتے ہوئے شہر کو آفت زدہ قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ یہ بھی انکشاف ہواکہ بارش کی پیشگوئی کے باوجود پمپنگ سٹیشنز پر بجلی کا متبادل انتظام نہیں کیا گیا اور نہ پانی کے نکاس کے لیے مشینری موجود تھی۔ اراکین نے میئر حیدرآباد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ سندھ حکومت کی ترجمان نے جوابی بیان دیا اور کہا کہ حیدرآباد اگر کبھی بارش میں ڈوبا تو وہ متحدہ کے دور میں اور یہ 2006 ء کی بات ہے جب شہر میں کشتیاں چلائی گئیں۔ ترجمان سندھ حکومت کا ایم کیو ایم کو مشورہ تو اچھا ہے کہ گٹروں اور نالوں کی سیاست سے نکلیں لیکن کیا وہ یہ بتائیں گی کہ عوام کو ، جنہیں کئی دہائیوں سے گٹر اور نالوں کے مسائل میں پھنسا دیا گیا ہے، ان مسائل سے کون نکالے گا ؟ ماضی میں کچھ ہوا یا نہیں لیکن مشاہدے میں آیا ہے کہ انتظامیہ جاگتی رہے تو بارش رحمت اور اگر بدعنوان، بے حس اور غیرسنجیدہ ہو تو زحمت بن جاتی ہے۔
اگلے روز وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی زیر صدارت ایک اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ سے جام صادق پل یعنی کورنگی انڈسٹریل ایریا تک ایکسپریس وے بنایا جائے گا جو ملیر ایکسپریس وے سے جاملے گا۔ ایکسپریس وے کا کوئی ساڑھے 12 کلومیٹر حصہ بلندی پر اور باقی زمین پر بنے گا۔ ظاہر ہے کہ منصوبے پر اربوں روپے کی لاگت آئے گی۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے مطابق صوبائی حکومت اپنے وسائل سے یہ منصوبہ مکمل کرے گی۔سندھ اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وزیر بلدیات سعید غنی نے بارش سے کراچی کی سڑکوں کی تباہی کو تسلیم کیا اور کہا کہ بارش کے دوران سڑکوں کی مرمت نہیں ہوسکتی، لوگ بارش کے پانی کی نکاس کے لیے سیوریج لائن کو استعمال میں لاتے ہیں، لائنوں میں مٹی جمع ہوجاتی اور پھر سیوریج کا پانی سڑکوں اور گلیوں میں پھیل جاتا ہے۔ سعید غنی کی بات درست ہے، کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا، لیکن یہاں قصور جتنا حکومت اور انتظامیہ کا ہے شاید اتنا ہی یا اس سے کچھ زیادہ قصور عوام کا ہے۔اس شہر کے نظام کو اس طرح تباہ کیا گیا ہے کہ نہ برساتی نالے ہیں نہ ہی باقاعدہ سیوریج نظام۔ ہم تو اس شہر میں رہتے ہیں جہاں سڑکوں اور گلیوں پر بھی قبضہ کرلیا جاتا ہے اور بعض جگہوں پر تو قبضہ مافیا نہیں بلکہ اہل محلہ یا اہل علاقہ ہی اس میں ملوث ہوتے ہیں۔ ویسے بارش کا پانی سیوریج لائنوں میں نہ جائے تو کہاں جائے؟ پچھلے تین ادوار سے مسلسل اور اس سے قبل بھی برسوں سندھ پر راج کرنے والی پیپلز پارٹی کیا یہ بتاسکتی ہے کہ عوام بارش کے پانی کو سڑکوں اور گلیوں سے کیسے نکالیں؟ کیا حکومت نے بارش کے پانی کے نکاس کا کوئی نظام بنایا ہے؟ کیا حکومت یہ بتا سکتی ہے کہ شہر اور صوبے کی سڑکیں بار بار کیوں ٹوٹ جاتی ہیں یا بہہ جاتی ہیں؟ کیا حکومت بتا سکتی ہے کہ کسی ٹھیکیدار کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟ کیا خراب کارکردگی والے کسی ٹھیکیدار کو بلیک لسٹ کیا گیا؟
بارش نے کراچی کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے، سیاسی مخالفین پر تنقید سے زیادہ کام پر توجہ دی جائے تو اچھا ہے، عرصہ دراز ہوا لال یا نیلی پیلی بس کا روٹ بنانے کے نام پر یونیورسٹی روڈ کو کھود کر چھوڑ دیا گیا ہے، اس سڑک سے روزانہ گزرنے والے شہری پریشان ہیں، ماہانہ کروڑوں روپے کا پٹرول ٹریفک جام کی نذر ہوجاتا ہے، دس منٹ کا سفر گھنٹے بھر میں طے ہوتا ہے، یہ منصوبہ ابھی مکمل ہوا نہیں کہ وزیراعلیٰ سندھ نے نئی ایکسپریس وے بنانے کا اعلان کردیا، اس شہر کے عوام حکومت کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہیں کہ اس شہر میں ترقی چاہتے ہیں تو پہلے سے جاری منصوبوں کو پہلے مکمل کریں، شہر کی سڑکوں اور گلی محلوں کی حالت درست کریں، سیوریج لائنیں بنائیں، ٹریفک کا نظام بہتر کریں، زمینوں پر قبضے ختم کریں، کراچی کو بس اس قابل کردیں کہ لوگ یہاں سانس لے سکیں، عوام کا اب دم گھٹتا ہے۔ نئے منصوبے بنائیں شہر میں ترقی کروائیں لیکن باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ تاکہ شہریوں کے لیے آسانی ہو مزید مشکل نہیں۔کراچی ہی میں چند روز قبل ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، گارڈن کے علاقے میں دو بچے 100 فٹ گہرے کنوئیں میں گرگئے، ان بچوں کو بچانے کے لیے ایک شخص کنوئیں میں اترا تو وہ بھی جاں بحق ہوگیا۔ میڈیا پر جو صورتحال نظر آئی وہ کچھ اس طرح تھی کہ حادثے کے بعد لوگوں نے خود سے کوششیں شروع کردیں، امدادی اداروں کو اطلاع میں تاخیر کی گئی، جب امدادی ادارے پہنچے تو جائے سانحہ پر موجود ہزاروں افراد میں سے ہر ایک شخص کی یہ کوشش تھی کہ وہ امدادی کارروائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھے، ان میں بچے، جوان، بزرگ اور خواتین سب شامل تھے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ شہریوں کو یہی نہیں پتا کہ امدادی اداروں کو کام کرنے کے لیے جگہ چاہیے ہوتی ہے، سکون درکار ہوتا ہے تاکہ وہ منصوبہ بندی اور مہارت کے ساتھ اپنا کام کرسکیں۔ حادثات کے دوران عوام کو کس طرح کے ردعمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اس کی تربیت دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ حکومت سے مطالبہ کریں کہ انہیں حادثات سے نمٹنے کی تربیت فراہم کی جائے۔