کڈنی ٹرانسپلانٹ کے فوائد

تحریر : ڈاکٹر شہباز احمد


گردے کی پیوند کاری سے مریض کی عمر میں اضافہ ممکن

کڈنی ٹرانسپلانٹ کے بعد مریض کی زندگی کے معیار میں نمایاں بہتری آتی ہے۔ مریض ڈائلیسز کے چکر سے نکل کر ایک نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔ گردے کی پیوند کاری سے مریض کی عمر زیادہ ہو سکتی ہے، جبکہ ڈائلیسز پر رہنے والے مریضوں کی زندگی عام طور پر محدود ہوتی ہے۔ ٹرانسپلانٹ کے بعد مریض کو خوراک اور پانی کے حوالے سے سخت پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے علاوہ، ٹرانسپلانٹ کے بعد مریض کو زیادہ توانائی ملتی ہے، جس سے وہ روزمرہ کے کاموں میں فعال ہو سکتا ہے۔

 کڈنی ٹرانسپلانٹ کے نقصانات

ٹرانسپلانٹ کے بعد مریض کو زندگی بھر امیونو سپریسنٹ ادویات لینا پڑتی ہیں تاکہ جسم نئے گردے کو مسترد نہ کرے۔ یہ ادویات جسم کی قدرتی مدافعت کو کم کر دیتی ہیں اور مریض کو انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اگرچہ ٹرانسپلانٹ کے نتائج زیادہ تر مثبت ہوتے ہیں، لیکن کچھ کیسز میں جسم نئے گردے کو مسترد کر سکتا ہے۔ گردے کا عطیہ دینے والے کا ملنا بھی ایک چیلنج ہے اور یہ پروسیس لمبا اور مشکل ہو سکتا ہے۔

 ڈائلیسز کے مقابلے میں 

کڈنی ٹرانسپلانٹ کیوں بہتر ہے؟

ڈائلیسز ایک وقتی حل ہے جو مریض کو زندہ رکھتا ہے، لیکن یہ جسم میں موجود فضلات کو مکمل طور پر صاف نہیں کر پاتا۔ ڈائلیسز کے دوران مریض کو ہفتے میں تین سے چار بار اسپتال جانا پڑتا ہے، اور ہر سیشن کئی گھنٹے کا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، ٹرانسپلانٹ کے بعد مریض کو معمول کی زندگی گزارنے کا موقع ملتا ہے۔ اسے اسپتال کے بار بار چکر لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس کی جسمانی اور ذہنی حالت میں بہتری آتی ہے۔

 کڈنی ٹرانسپلانٹ کے دوران درپیش مسائل

ٹرانسپلانٹ کے دوران اور اس سے پہلے مریض کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ڈونر کا مسئلہ: پاکستان میں کڈنی ڈونرز کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بہت سے مریضوں کو اپنے خاندان سے گردہ عطیہ کرنے والا شخص نہیں ملتا، اور غیر قانونی مارکیٹ میں جانا خطرناک ہو سکتا ہے۔

ٹرانسپلانٹ کی لاگت: گردے کی پیوند کاری کی قیمت عام طور پر بہت زیادہ ہوتی ہے، اور بہت سے مریض اس کا خرچ برداشت نہیں کر پاتے۔پاکستان میں ٹرانسپلانٹ کی لاگت لاکھوں روپے تک جا سکتی ہے۔

طبی سہولیات کی کمی: پاکستان میں کچھ بڑے اسپتالوں میں گردے کی پیوند کاری کی سہولت موجود ہے، لیکن بہت سے شہروں میں یہ سہولت دستیاب نہیں ہے، جس کی وجہ سے مریضوں کو طویل فاصلہ طے کر کے بڑے شہروں میں جانا پڑتا ہے۔

مدافعتی نظام کے مسائل: ٹرانسپلانٹ کے بعد مریض کو مدافعتی ادویات پر زندگی بھر رہنا ہوتا ہے، جس سے مختلف طبی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

پاکستان میں ٹرانسپلانٹ کے مواقع 

پاکستان میں گردے کی پیوند کاری کی سہولت چند بڑے اسپتالوں میں دستیاب ہے، جیسے کہ شیخ زید اسپتال، آغا خان اسپتال اور پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ۔ ملک کے زیادہ تر علاقوں میں یہ سہولت میسر نہیں ہے۔ ٹرانسپلانٹ کی کامیابی کی شرح یہاں قابلِ ذکر ہے مگر مریضوں کو زیادہ آگاہی اور سہولیات کی فراہمی کی ضرورت ہے۔

 لوگ ٹرانسپلانٹ کیوں نہیں کرواتے؟

گردے کی پیوند کاری نہ کروانے کی کئی وجوہات ہیں۔ جن میں سے سب سے بڑی وجہ آگاہی کی کمی ہے۔ بہت سے مریضوں کو ٹرانسپلانٹ کی اہمیت اور فوائد کے بارے میں مکمل آگاہی نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ  گردے کی پیوند کاری کا خرچ بہت زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے غریب طبقہ اس سہولت سے محروم رہتا ہے اور وہ ٹرانسپلانٹ کروانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پاکستان میں کڈنی ڈونرز کی کمی کی وجہ سے بہت سے مریض ٹرانسپلانٹ نہیں کروا پاتے۔دوسرے پاکستان میں گردے کے غیر قانونی عطیات کا مسئلہ بھی موجود ہے، جو مریضوں کو قانونی طریقوں سے ٹرانسپلانٹ کروانے سے روک دیتا ہے۔

پاکستان میں گردے کی پیوند کاری کی قیمت مختلف ہوتی ہے۔ یہ قیمت پانچ لاکھ سے لے کر بیس لاکھ روپے تک جا سکتی ہے۔ اس میں سرجری، اسپتال کے اخراجات، اور بعد میں مدافعتی ادویات کا خرچ شامل ہوتا ہے۔

 مکی مدنی ڈائلیسز سینٹر کی سہولیات

مکی مدنی ڈائلیسز سینٹرمیں گردے کے مریضوں کو بہتر سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ یہاں پر ڈائلیسز کی جدید مشینیں موجود ہیں اور مریضوں کو ماہر نیفرولوجسٹ کی زیر نگرانی علاج فراہم کیا جاتا ہے۔ ٹرانسپلانٹ کے مریضوں کے لیے اس سینٹر میں ابتدائی تشخیص، معائنے، اور ٹرانسپلانٹ سے پہلے اور بعد کی نگہداشت فراہم کی جا سکتی ہے۔ مریضوں کو ادویات کی فراہمی میں رعایت دی جا سکتی ہے اور انہیں مکمل فالو اپ فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ ٹرانسپلانٹ کے بعد ایک صحت مند زندگی گزار سکیں۔

 نتیجہ

کڈنی ٹرانسپلانٹ گردے کی ناکامی کے مریضوں کیلئے ایک بہترین آپشن ہے۔ اگرچہ اس میں کچھ مسائل اور چیلنجز ہیں، لیکن اس کے فوائد ڈائلیسز کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ پاکستان میں اس کے مواقع محدود ہیں، لیکن آگاہی، طبی سہولیات کی فراہمی، اور ڈونر سسٹم میں بہتری سے زیادہ لوگ اس آپشن سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔