یادرفتگاں: ناول کو نئی جہت عطا کرنے والی بانو قدسیہ

تحریر : ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ


ادبی دنیا میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گی

تعارف:

بانو قدسیہ 28 نومبر 1928ء کو پنجاب کے شہر فیروز پور میں پیدا ہوئیں۔ اصل نام قدسیہ بانو تھا، شادی کے بعد اشفاق احمد نے انھیں بانو قدسیہ کا قلمی نام دیا۔ابھی عمر عزیز کا چوتھا سال تھا کہ شفقت پدری سے محروم ہو گئیں۔پاکستان بننے کے بعد اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ پاکستان کی طرف ہجرت فرمائی۔ بانو نے ابتدائی تعلیم مشرقی پنجاب میں حاصل کی۔پاکستان آ کر اسلامیہ کالج لاہور سے ایف اے،کنیئرڈ کالج سے ریاضیات اور اقتصادیات میں گریجویشن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کیا۔ بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اوروہ مختلف ادبی جرائد اور رسائل میں چھپتی رہیں۔ 1950ء کے بعد انہوں نے باقاعدہ افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ 1956ء میں ان کا پہلا افسانہ ’’واماندگئی شوق‘‘ ادب لطیف میں شائع ہوا۔ اردو افسانے میں ان کی شہرت کا آغاز ان کے افسانے ’’کلو‘‘ سے ہوا۔ وہ جاٹ برادری سے تعلق رکھتی تھیں دوران تعلیم پٹھان خاندان سے تعلق رکھنے والے شخص (اشفاق احمد) سے ملاقات ہوئی۔ جو تعلیم کے خاتمے پر محبت کی شادی پر منتج ہوئی۔ 

بانو قدسیہ نے 27 کے قریب ناول، کہانیاں اور ڈرامے لکھے۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں 2003ء میں ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور 2010ء میں ’’ہلال امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ 2012ء میں کمالِ فن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 2016ء میں انھیں ’’لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ‘‘سے نوازا گیا۔28 نومبر 2020ء کو، گوگل نے بانو قدسیہ کی 92 ویں سالگرہ پر گوگل ڈوڈل ان کے نام کر کے انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ ٹی وی ڈراموں پر بھی انہیں کئی ایوارڈ ملے۔4 فروری 2017ء کو 88 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ 

 اردو ادب کی شاہکار تصنیف’’راجہ گدھ‘‘‘ اور دیگر بے شمار لازوال تصانیف کی خالق بانو قدسیہ 2017ء میں آج کے روز خالق حقیقی سے جا ملی تھیں۔ 

اردو کی مشہور ناول نویس، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار بانو قدسیہ نے جتنا بھی لکھا ، معیاری اور دلوں میں اتر جانے والا ادب تحریر کیا۔جس گھر میں کوئی دوسرا فرد یا ذرا سا سینئر لکھنے والا موجود ہوتا ہے، وہاں عموماً جونیئر شخصیت سینئر کے اثر تلے دب جاتی ہے مگر بانو قدسیہ نے ایسا نہیں ہونے دیا۔اگرچہ اس سلسلے میں انہیں بہت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لوگوں نے ان کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ بانو قدسیہ کو کوئی اور لکھ کر دیتا ہے۔ اصل میں ان لوگوں نے یہ اشارہ یہاں سے اٹھایاکہ بانو قدسیہ نے خود کہہ رکھا ہے کہ وہ اشفاق صاحب کی شاگردہیں، انہوں نے ان کو دیکھ کر لکھنا پڑھنا سیکھااور یہ کہ میں ان کو اپنا استاد مانتی ہوں۔دوسری جانب اشفاق احمد یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ بانو مجھ سے بہتر لکھتی ہیں، میں کیسے اس کو لکھ کر دے سکتا ہوں۔ کئی ناقدین بانو قدسیہ کے حق میں کہتے ہیں کہ یہ طویل تحریر’’راجہ گدھ‘‘اشفاق احمد کی نہیں بلکہ بانو قدسیہ کی اپنی سوچ ہے، اتنی لمبی سانس والی تخلیق بانو کا ہی خاصہ ہے، اشفاق احمد نے تو ڈرامے ، افسانے ، فیچرز اور مضامین لکھے ہیں، جو سانس توڑ توڑ کر لکھے جاتے ہیں، یہ ان کا اسلوب ہی نہیں۔

 بانو ایک عورت تھیں اس لیے ان کا موضوع بھی عورت تھا۔ دو درجن سے زیادہ ان کی کتابیں ہیں ان میں سے ’’راجہ گدھ‘‘ جو گزشتہ نصف صدی کا مقبول ترین ناول ہے۔ یہ ناول 1981ء سے اب تک برابر مشہور ہے۔بانو قدسیہ نے احساس، روایت او ر فکر کے مرکب سے زندگی کی کہانی بُنی ہے ۔انہوں نے اپنا اسلوب خود گھڑا، وہ اس ہنر سے اپنے پڑھنے والوں کو راستہ بتاتی ہیں۔بانو قدسیہ نے فیمینزم اور فلسفے کی انگلی پکڑ کر لکھنے کو ترجیح دی۔ وہ اشفاق احمد کے علاوہ ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب سے بھی متاثر تھیں۔قدرت اللہ شہاب پر تو انہوں نے اپنی ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا نام’’مردابریشم‘‘ ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پیر کی حد تک شوہر کو پوجنے والی ، اس کی وفات کے بعد لکھنا پڑھنا ہی بھول گئی۔ انہیں کوئی بھی موضوع اب اچھا نہ لگتا۔ اگر کسی پرانے تخلیق کار پر بات کرنے کیلئے انہیں دعوت فکر دی جاتی تو وہ معذرت کر لیتیںاور صاف کہہ دیتیں کہ وہ صرف اشفاق احمد پر ہی بات کر سکتی ہیں۔ 

بانو قدسیہ نے ایک روائتی مشرقی ملنسار اور محبت و احترام کے رشتوں میں گندھی ہوئی بیوی کا ثبوت دیا ہے ۔ وہ اس بات کا برملا اظہار کرتی ہیں کہ ان کا پہلا اور آخری ادبی حوالہ ان کے شوہر نامدار اشفاق احمد ہیں۔اس احسان مندی پر وہ اپنی عمر کے آخری دن تک قائم رہیں۔وہ انہیں شادی کے بعد شوہر نہیں بلکہ استاد جی کہتی ہوئی نظر آئیں۔ وہ خود اعتراف کرتی ہیں : ’’میرا ادیب ہونا اچنبھے کی بات ہے۔37 سال سے لکھ رہی ہوںاور جب بھی لکھنا شروع کرتی ہوں تو مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ میں ایک ڈیڑھ صفحہ سے زائدہ نہ لکھ پائوں گی لیکن ڈرامہ یا افسانہ لکھا جاتا ہے اور بات بن جاتی ہے۔ اشفاق احمد نے بطورا ستاد میری بڑی مدد کی اور رہنمائی بھی۔ورنہ شائد میں ایسے افسانے لکھتی جو عام خواتین لکھتی ہیں۔ اشفاق صاحب نے استاد کی حیثیت سے مجھے لکھنے کی تکنیک سمجھائی۔اور میں ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلی۔‘‘ 

بانو قدسیہ ایک حقیقت پسند خاتون تھیں۔ انہوں نے کئی مواقع پر انتہائی حقیقت پسندانہ رخ اختیار کیا ہے ۔بانو قدسیہ نے ان کرداروں کو اپنی تخلیق میں جگہ دی ہے جو معاشرے میں بہادری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کسی حد تک بولڈ بھی ہوتے ہیں ۔ ان کا ایک خاص کردار عورت ہے۔ یہاں ایک ایسی عورت جو بیٹی ہے وہ تھوڑی منہ زور اور با ہمت بھی ہے وہ سماج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتی ہے۔تخلیق کار معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔ ان کی نوکِ قلم وہی کچھ اگلتی ہے جس سے خطے کے لوگ دوچار ہوتے ہیں۔ بانو قدسیہ نے عورت کے ساتھ ساتھ مرد کی نفسیات کے بارے میں بھی لکھا ہے  ان کی فکر، مختلف موضوعات اور ان کی کئی کئی جہات، حقیقت پسندانہ تخیل اور سوچ کی سادگی قاری کو اپنے قریب لے جاتی ہے ۔

ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ ایک ادیبہ اور شاعرہ ہیں،ان کی متعدد کتب بھی شائع ہو چکی ہیں

تصانیف

پہلے افسانوں کے مجموعہ میں مندرجہ ذیل افسانے شامل ہیں۔ کاغذی ہے پیراہن، بیوگی کا داغ، بازگشت، جٹ بکرا فقیر، مجازی خدا، باپ پرست، دانت کا دستہ، چابی، فلورا اور فریدہ، نیلوفر۔

 دوسرا افسانوں کا مجموعہ ’’امربیل‘‘ اکتوبر 1975ء میں شائع ہوا۔ اس میں ان کے کل دس افسانے شامل ہیں جن کے نام یہ ہیں، ہو نقش اگر باطل، سوغات، کتنے سو سال، سامان شیون، اسنون جل سینچ سینچ، موج محیط آب میں، مجازی خدا، سمجھوتہ، ناخواندہ، امربیل۔

 تیسرا افسانوں کا مجموعہ ’’کچھ اور نہیں‘‘ میں نو افسانے توجہ کی طالب، کلو، کال کلیجی، یہ رشتہ یہ پیوند، بکری اور چرواہا، انتر ہوت اداسی، کر کلی، مراجعت، ایک اور ایک شامل ہیں۔ چوتھا افسانوں کا مجموعہ ’’ناقابل ذکر‘‘  کے نام سے جبکہ پانچواں افسانوں کا مجموعہ ’’آتش زیرپا‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ 

افسانوں کے علاوہ انہوں نے چار ناولٹ بھی لکھے۔ ایک دن، موم کی گلیاں، پروا، شہر بے مثال، ان چاروں ناولوں کا مجموعہ ’’چہار چمن‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔

دیگر مشہور تحریروں میں ’’ آدھی بات، ایک قدم، آسے پاسے، دست بستہ، دوسرا دروازہ، فٹ پاتھ کی گھاس، حاصل گھاٹ، ہوا کے نام، ناقابلِ ذکر، پیا نام کا دیا، سورج مکھی، تماثیل، توجہ کی طالب شامل ہیں۔ 1981ء میں انہوں نے شہرہ آفاق ناول ’’راجہ گدھ‘‘ تحریر کیا۔

’’تکبر کا حاصل مایوسی…‘‘

بھلا زوال کیا ہوا تھا؟ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید ابلیس کا گناہ فقط تکبر ہے لیکن میرا خیال ہے کہ تکبر کا حاصل مایوسی ہے۔ جب ابلیس اس بات پر مصر ہوا کہ وہ مٹی کے پتلے کو سجدہ نہیں کر سکتا تو وہ تکبر کی چوٹی پر تھا لیکن جب تکبر ناکامی سے دو چار ہوا تو ابلیس اللہ کی رحمت سے نا اُمید ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام بھی ناکام ہوئے۔ وہ بھی جنت سے نکالے گئے۔ لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے۔ یہی تو ساری بات ہے۔ ابلیس نے دعویٰ کر رکھا ہے، میں تیری مخلوق کو تیری رحمت سے مایوس کروں گا۔ نااُمید، مایوس لوگ میرے گروہ میں داخل ہوں گے۔ اللہ جانتا ہے کہ اس کے چاہنے والوں کا اغواء ممکن نہیں۔ وہ کنویں میں لٹکائے جائیں، صلیب پر لٹکیں، وہ مایوس نہیں ہوں گے۔ (سامان وجود سے اقتباس)

بانو کے چند ناولوں سے اقتباسات 

’’ کپلنگ کا مقولہ‘‘

میرے اردگرد کپلنگ کا مقولہ گھومتا رہتا ہے۔ مغرب، مغرب ہے اور مشرق، مشرق۔ یہ دونوں کبھی نہیں مل سکتے۔ سوچتا ہوں مل بھی کیسے سکتے ہیں؟ مشرق میں جب سورج نکلتا ہے مغرب میں عین اس وقت آغازِ شب کا منظر ہوتا ہے۔ سورج انسان کے دن رات متعین کرنے والا ہے۔ پھر جب ایک کی رات ہو اور دوسری جگہ سورج کی کرنیں پھیلی ہوں۔ ایک قوم سوتی ہو ایک بیدار ہو تو فاصلے کم ہونے میں نہیں آتے۔ (حاصل گھاٹ سے اقتباس)

’’قفل…‘‘

میری چپ، حویلی کے صدر دروازے کے قدموں میں گرے ہوئے اس قفل کی مانند ہے جسے چور پچھلی رات دروازے کے کنڈے سے اُتار کر پھینک گئے ہوں۔ ایسا تالا بہت کچھ کہتا ہے، لیکن کوئی تفصیل بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ وہ ساری واردات سے آگاہ ہوتا ہے لیکن اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ حفاظت نہ کر سکنے کا غم، اپنی ہیچ مدانی کا احساس، اپنے مالکوں سے گہری دغابازی کا حیرت انگیز انکشاف اسے گم سم کر دیتا ہے۔ (انترہوت اداسی سے اقتباس)

’’بحث…‘‘

بحث کرنا جاہلوں کا کام ہے۔ بال کی کھال نکالنے سے کیا حاصل؟ میری بلا سے آپ چاہے کچھ سمجھتے ہوں مجھے اپنے نظریوں پر شکوک نہیں ہونے چاہئے۔ آپ اگر دنیا کو چپٹا سمجھتے ہیں تو آپ کی مرضی۔ (شہرِ بے مثال سے اقتباس)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

علی کی عقلمندی

حامد شہر سے تھوڑی دور ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ گاؤں کے بازار میں اس کی ایک بیکری تھی۔ گاؤں کے لوگ اسی بیکری سے سامان خریدتے تھے کیونکہ اس کی بیکری کی چیزیں تازہ ہوتی تھیں۔

چڑیا گھر کی سیر !

سعید چھٹی جماعت کا ایک ذہین اور سمجھدار طالب علم تھا، وہ ہمیشہ اپنی جماعت میں اوّل آتا۔ دوسرے بچوں کی طرح وہ بھی سیر و تفریح کا بہت شوقین تھا۔سعید اور اس کے بہن بھائی ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں لاہور اپنے تایاکے پاس رہنے آتے اور وہاں کے خوبصورت مقامات کی سیر کرتے۔

پہیلیاں

آگ لگے میرے ہی بل سے ہر انساں کے آتی کام دن میں پودے مجھے بناتےاب بتلائو میرا نام(آکسیجن گیس)

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

ٹیلی فون کی ایجاد انسانی آوازیںہمارے کانوں تک اس لئے پہنچتی ہیں کہ وہ ہوا میں ارتعاش پیدا کرتی ہیں۔ سکاٹ لینڈ میں پیدا ہونے والے الیگزینڈر گر اہم بیل نے کوشش کی کہ آواز کے ان ارتعاشات کو برقی سگنلز میں تبدیل کر دیا جائے تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ فاصلے تک سنا جا سکے۔کئی کوششوں کے بعد بالآخر 1876ء میں وہ اپنے تجربے میں کامیاب ہو گیا۔پہلی ٹیلی فون کال میں گرا ہم بیل نے مکان کے دوسرے کمرے میں موجوداپنے نائب سے کہا ’’واٹسن یہاں آئو،مجھے تمہاری ضرورت ہے‘‘۔

ذرامسکرایئے

گاہک( درزی سے) پتلون کی سلائی کتنی لیتے ہو؟ درزی: پچاس روپے۔ گاہک:(حیرانی سے) اتنی سلائی، اچھا نیکر کی سلائی کتنی لیتے ہو؟۔درزی: دس روپے۔

آؤ آؤ سیر کو جائیں

آؤ آؤ! سیر کو جائیں باغ میں جا کر شور مچائیں اُچھلیں کُودیں ناچیں گائیںآؤ، آؤ! سیر کو جائیں