سیّدہ خدیجۃالکبریٰ ؓ سیرت و کردار کے آئینے میں
آپ رضی اللہ عنہا بچپن ہی سے نہایت نیک تھیں اور مزاجاً شریف الطبع خاتون تھیں، مکارمِ اَخلاق کا پیکرِ جمیل تھیں۔ رحم دلی،غریب پروری اور سخاوت آپ کی امتیازی خصوصیات تھیں۔یہاں تک کہ زمانہ جاہلیت میں آپ’’ طاہرہ‘‘یعنی پاک دامن کے لقب سے مشہور تھیں۔مالدار گھرانے میں پرورش پانے کی وجہ سے دولت و ثروت بھی خوب تھا علاوہ ازیں حسن صورت اور حسن سیرت میں بھی اپنی ہم عصر خواتین میں ممتاز تھیں۔
آپؓ کے والد محترم خویلد بن اسد اعلی درجے کے تاجر تھے، جب بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچے تو انہوں نے اپنا سارا کاروبار اپنی بیٹی حضرت خدیجہؓ کے سپرد کردیا۔ تیس سال کی عمر میں آپ ؓ تجارت سے وابستہ ہوئیں۔خاتون ہونے کی وجہ سے تجارتی معاملات میں سفر کرنا دشوار بلکہ ناممکن تھا اس لیے کسی کو بطور نیابت سامان تجارت دے کر روانہ کرتیں۔ آپؓ کے تجارتی نمائندوں کی دو صورتیں تھیں یا وہ ملازم ہوتے اُن کی اُجرت یا تنخواہ مقرر ہوتی‘نفع و نقصان سے اُنہیں کوئی سروکار نہ ہوتا۔
حضرت خدیجہ کی درخواست: تقریباً دس سال تک معاملات یونہی چلتے رہے یہاں تک کہ آپ ؓکے کانوں تک نبی کریم ﷺ کی امانت و صداقت کا چرچا پہنچا۔ آپؓ نے نبی کریم ﷺسے سامان تجارت لے کرملک شام جانے کی درخواست کی جسے آپ ﷺنے قبول فرما لیا۔ اس دوران آپؓ نے اپنے غلام میسرہ کو خصوصی ہدایت کی کہ وہ آپ ﷺ کے کسی معاملے میں دخل اندازی نہ کرے۔
تجارت میں نفع اور میسرہ کا مشاہدہ: اس تجارتی سفر میں اللہ تعالیٰ نے بے حد برکت دی اورنفع پہلے سے بھی دوگنا ہوا۔ چونکہ میسرہ دوران سفر قریب سے آپﷺ کے حسن اخلاق، سیرت اور معاملہ فہمی کا مشاہدہ کر چکا تھا اس نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کوبتلایا کہ آپ ﷺنہایت معاملہ فہم، تجربہ کار، خوش اخلاق، دیانت دار، ایماندار، شریف النفس اورمدبرشخص ہیں۔ آپ ﷺنے واپس پہنچ کر تجارتی معاملات کا عمدہ حساب پیش کیا، جس سے سیدہ خدیجہؓ بہت متاثر ہوئیں۔
نکاح:حضرت ابو طالب نے نکاح پڑھایا۔اسیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا عمرو بن اَسد کے مشورہ سے500 درہم مہر مقرر ہوا۔ بوقت نکاح آپ ﷺ کی عمر مبارک 25 سال جبکہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمرچالیس برس تھی۔آپﷺ کا یہ پہلا نکاح تھا جو اعلان نبوت سے تقریبًا 15 سال پہلے ہوا۔
سیدہ خدیجہؓ کی وجہ انتخاب: سیدہ خدیجہؓ کی رسول اللہﷺ سے گفتگو ان الفاظ میں موجود ہے:میں نے آپﷺ کو آپﷺ کے حسن اخلاق اورزبان کی سچائی کی وجہ سے اپنے لیے منتخب کیا۔
اولاد: محدثین نے لکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی عمر مبارک جب 30 برس کی ہوئی یعنی رشتہ ازدواج کے تقریباً 5 سال بعدآپ کے پہلے صاحب زادے قاسم پیدا ہوئے، ان کاچھوٹی عمر میں ہی انتقال ہوگیا۔ ان کے بعد سب سے بڑی صاحبزادی زینب پیدا ہوئیں، ان دونوں کی پیدائش اعلان نبوت سے پہلے ہوئی۔ اس کے بعد صاحبزادے عبداللہ کی ولادت ہوئی، ان کا انتقال بھی کم سنی میں ہوگیا، پھر ان کے بعد مسلسل تین صاحبزادیاں پیدا ہوئیں جن کے نام رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہن رکھے گئے۔
ذیل میں حضرت خدیجہؓ کی چند امتیازی خصوصیات کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔
کڑے حالات میں تسلی
نکاح کے تقریباً 15برس بعد اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو شرف ختم نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور آپﷺ پر شدید حالات آئے تو اس کڑے وقت میں آپﷺ کو جس طرح کی دانش مندانہ و ہمدردانہ تسلی کی ضرورت تھی وہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و توفیق سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی سے ملی۔آپ ﷺاعلان نبوت سے پہلے تنہائی میں عبادت کرنے کیلئے غار حرا میں تشریف لے جایا کرتے تھے اور حضرت خدیجہؓ آپﷺ کیلئے کھانے پینے کا سامان تیار کر کے دے دیا کرتی تھیں۔ آپ ﷺ حرا میں کئی کئی راتیں ٹھہرتے، اللہ کی یاد میں مصروف رہتے، کچھ دنوں بعد تشریف لاتے اور سامان لے کر واپس چلے جاتے۔ایک دن حسب معمول آپ ﷺ غار حرا میں مشغول عبادت تھے کہ جبرئیل امین تشریف لائے اور فرمایا کہ اِقرا یعنی پڑھئے! آپﷺ نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ جبرئیل امین نے آپﷺ کو پکڑ کر اپنے سے چمٹایا اور خوب زور سے دبا کر چھوڑ دیا اور خود پڑھنے لگے:اِقرا بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ o خَلَقَ الاِنسَانَ مِن عَلَقٍ o اِقرا وَرَبّْکَ الاَکرَمْ o الَّذِی عَلَّمَ بِالقَلَمِ o عَلَّمَ الاِنسَانَ مَالَم یَعلَم oیہ آیات مبارکہ سن کر آپﷺ نے یاد فرما لیں اور ڈرتے ہوئے گھر تشریف لائے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: مجھے کپڑا اوڑھا دو۔انہوں نے آپ ﷺ کو کپڑا اوڑھا دیا اور کچھ دیر بعد وہ خوف کی کیفیت ختم ہوئی، آپ ﷺ نے سیدہ خدیجہ ؓ کو واقعہ سنایا،فرمایا:مجھے اپنی جان کا خوف محسوس ہو رہا ہے۔عموماً خواتین ایسے حالات میں گھبرا جاتی ہیں اورتسلی دینے کے بجائے پریشان کن باتیں شروع کر دیتی ہیں لیکن آپ ؓ ذرہ برابر بھی نہ گھبرائیں اور تسلی دیتے ہوئے فرمایا:خدا کی قسم!اللہ تعالیٰ آپﷺ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپﷺ توصلہ رحمی کرتے ہیں،بے کس و ناتواں لوگوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، دوسروں کو مال واخلاق سے نوازتے ہیں۔ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
اسلام کی خاتونِ اوّل ہونے کا اعزاز
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نزول وحی کے ابتدائی ایام میں آپ ﷺکو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو توریت و انجیل کے بڑے عالم تھے، انہوں نے غار حرا میں جبرائیل اور نزول وحی کی سرگزشت سن کر پختہ یقین کے ساتھ آپ ﷺکے نبی ہونے کی بات کہی تو آپ رضی اللہ عنہا نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ پوری امت میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے آپ ﷺکے برحق نبی ہونے کی تصدیق کرنے والی ہیں۔
اپنی دولت رسول اللہ پر لٹا دی
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اللہ کریم نے دولت مندی کی نعمت سے بھی خوب نوازا تھا،آپؓنے اپنی پوری دولت اور اپنے غلام زید کو آپﷺ کے قدموں میں ڈال دیا اور آپﷺ کودین اسلام کی اشاعت کے مقدس مشن میں گھریلو معاشی افکار سے بے نیاز کر دیا۔
بت پرستی سے بیزاری
اہل مکہ بت پرستی کے شرک میں مبتلا تھے،لیکن جاہلیت کے اس دور میں گنتی کے دوچار آدمی ایسے بھی تھے جن کو فطری طور پر بت پرستی سے نفرت تھی، ان میں ایک ام المومنین سیدہ خدیجہؓبھی تھیں۔
تین سالہ محصوری
مشرکین مکہ نے نبی کریم ﷺ کی دعوت اسلام کو روکنے کے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ یہاں تک کہ انہوں نے آپ ﷺ کا اور آپﷺ کے خاندان بنو ہاشم کا سوشل بائیکاٹ کیا۔ آپﷺ کے قریبی رشتہ دار بھی شعب ابی طالب میں محصور کر دیے گئے، یہ بائیکاٹ تین سال کے عرصہ تک محیط رہا۔ ایام محصوری کے اس تین سالہ دور میں حضرت خدیجہؓ نبی کریمﷺکے ہمراہ رہیں۔
وفات: ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا 24 سال تک نبی کریمﷺ کی جانثار، اطاعت گزار اور وفا شعار بیوی بن کر زندہ رہیں اور ہجرت سے 3 برس قبل 64 سال کی عمر پاکرماہ رمضان المبارک کی 10 تاریخ کو مکہ معظمہ میں وفات پا گئیں۔