سچ بولنے والوں کیلئے اجرعظیم کا انعام

تحریر : مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان


’’سچ بولنے والے مرد اور سچ بولنے والی عورتیں، اللہ نے اِن کے لئے بخشش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے‘‘(سورۃ الاحزاب) ’’سچے لوگوں کو ان کا سچ فائدہ دے گا، ان کیلئے جنتیں ہیں‘‘(المائدہ) ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو‘‘(سورۃ الاحزاب) اللہ تعالیٰ نے صدق اور سچائی کو انبیاء علیہم السلام، اولیاء اور صلحاء علیہم الرضوان کی صفت قرار دیا ہے

اسلام کی اخلاقی اقدار اور معاشرتی ذمہ داریوں میں سے اہم ترین اور تمام عمدہ صفات کا مرکز و محور سچائی ہے۔ سچ ایمان کی علامات میں سے ہے اوراخروی نجات کا ضامن بھی۔ اللہ تعالیٰ نے صدق اور سچائی کو انبیاء علیہم السلام، اولیاء اور صلحاء علیہم الرضوان کی صفت قرار دیا ہے اور سچ بولنے والوں کو نبیوں کا ساتھی قرار دیا ہے۔ خلاق عالم نے اپنے ایماندار بندوں کو اعمال کے حساب سے مختلف اقسام میں تقسیم فرمایا اور اُن اعمال کو اپنی رحمت و مغفرت، اجر و ثواب یا اپنے غیض و غضب، سزا و عذاب کا سبب بیان فرمایا، ان اعمال میں سے دو کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’تاکہ اللہ سچے لوگوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے، منافقوں کو چاہے تو عذاب دے یا ان کی توبہ قبول فرما لے، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم فرمانے والا ہے‘‘ (الاحزاب:24)

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو صاف سیدھی گفتگوکرنے کا حکم دیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو، وہ تمہارے لئے تمہارے (سارے) اعمال درست فرما دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتا ہے تو بیشک وہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہوا‘‘ (الاحزاب: 70، 71)۔ ایک مقام پراللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کوسچے لوگوں کی سنگت اور معیت اختیارکرنے کا حکم دیا، قرآن پاک میں ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہل صدق (کی معیت) میں شامل رہو‘‘ (سورۃ التوبہ: 119)۔

 اللہ تعالیٰ نے یہ حکم ان تین صحابہ کرامؓ کی توبہ کے بعددیا جو بغیرکسی عذرکے جنگ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ جب نبی کریم ﷺ غزوہ سے کامیابی سے ہمکنار واپس تشریف لائے تو انہوں نے منافقوں کی طرح جھوٹ بول کرعذر خواہی کی بجائے سچ بولا اور اعتراف جرم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سچ بولنے کی وجہ سے ان کی توبہ قبول کی۔ جن لوگوں نے آپ ﷺ کے سامنے جھوٹ بولا، اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق صریح الفاظ میں دنیاوی و اخروی سزائیں بیان کیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اب وہ تمہارے لئے اللہ کی قَسمیں کھائیں گے جب تم ان کی طرف پلٹ کر جاؤ گے، تاکہ تم ان سے درگزر کرو، پس تم ان کی طرف التفات ہی نہ کرو بیشک وہ پلید ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے یہ اس کا بدلہ ہے جو وہ کمایا کرتے تھے، یہ تمہارے لئے قَسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ، سو (اے مسلمانو!) اگر تم ان سے راضی بھی ہو جاؤ تو (بھی) اللہ نافرمان قو م سے راضی نہیں ہو گا‘‘ (التوبہ: 95،96)

اللہ تعالیٰ نے سچے لوگوں سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مَرد اور مومن عورتیں، فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں،شرم گاہوں کی حفاظت کرنیوالے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کیلئے بخشش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے‘‘ (سورۃ الاحزاب: 35)

سچے لوگوں کوجنت کی بشارت

اللہ تعالیٰ نے سچ بولنے والوں کوجنت بطور انعام دینے کی بشارت دی ہے،ارشاد ربانی ہے: ’’اللہ فرمائے گا: یہ ایسا دن ہے (جس میں) سچے لوگوں کو ان کا سچ فائدہ دے گا، ان کیلئے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے، یہی (رضائے الٰہی) سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘ (المائدہ:119)

سچی گفتگوکرناپرہیزگاروں کی صفت

پرہیزگاروں کی صفات میں سے ایک صفت سچائی بھی ہے، ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’جو شخص سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ ہی تو پرہیزگار ہیں‘‘(سورۃ الزمر:33)

عام گفتگواورسچائی

ہرانسان صاحب ایمان کواپنی روزمرہ کی گفتگو میں ہمیشہ سچ بولنا چاہیے۔حضرت عبادہ بن صامتؓ  بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا: ’’تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دومیں تمہیں جنت کی ضمانت دیتاہوں،جب بھی بات کروتوسچ بولو، وعدہ کرو تو اسے پوراکرو، امانت تمہیں دی جائے تو اسے اداکرو،اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو،نظریں جھکائے رکھو اوراپنے ہاتھوں کو(دوسروں کواذیت دینے سے)روکے رکھو‘‘ (مسنداحمد:22757)

سچی قسم کھانی چاہیے

اپنے معاشرتی، تجارتی، سیاسی معاملات کے اندر نوبت اگرقسم کھانے تک آجائے توہمیشہ سچی قسم کھانی چاہیے۔رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: ’’تم اپنے آباؤاجداد،ماؤں اورشریکوں کی قسم نہ کھاؤ، لیکن صرف اللہ عزوجل کی ہی قسم کھاؤ، اور اللہ تعالیٰ کی قسم بھی صرف اس وقت اٹھاؤ، جب تم سچے ہو‘‘ (سنن ابی داؤد : 3248)

جھوٹی قسم اٹھا کر خریدو فروخت کرناکبیرہ گناہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تین لوگ ایسے ہیں جن سے بروزقیامت اللہ تعالیٰ نہ بات کرے گا،نہ ان کی طرف دیکھے گا ،نہ انہیں پاک کرے گااوران کیلئے دردناک عذاب ہو گا۔ اپناتہہ بندٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا،احسان جتلانے والاکہ جب بھی کوئی چیزدیتاہے تواس پراحسان جتلاتاہے اورجھوٹی قسم اٹھاکراپنا سامان بیچنے والا‘‘(صحیح مسلم:106)

تجارت وکاروبارمیں سچ

ہرمسلمان کوکاروبار اور تجارت میں سچا ہوناچاہیے اورہرقسم کے جھوٹ سے اجتناب کرنا چاہیے۔ حضرت رفاعہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے کچھ لوگوں کو کاروبار میں مشغول دیکھا تو فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ تاجروں کو قیامت کے روز اس حال میں اٹھائے گاکہ وہ فاسق و فاجر ہوں گے،  سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہا، نیکی کرتارہا اور سچ بولتا رہا (جامع ترمذی:  1210)۔ کاروبار اور لین دین کے معاملات میں سچ بولنے سے اللہ تعالیٰ برکت عطا کرتا ہے۔ حضرت حکیم بن حزام ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ خریدار اوربیچنے والے کوجدا ہونے تک اختیارہے وہ چاہیں توسوداطے کرلیں اوراگرچاہیں تو سودا ختم کر دیں، اور اگر وہ دونوں سچ بولیں اور ہر چیز کو کھول کر بیان کر دیں توان کی خریدوفروخت میں برکت آئے گی اوراگرجھوٹ بولیں گے اورکسی بات کو ظاہرنہیں کریں گے توان کی خریدو فروخت میں برکت ختم ہو جائے گی۔ (صحیح بخاری: 2079)

سچ کی اقسام

امام غزالی رحمہ اللہ علیہ نے صدق ( سچ) کی چھ اقسام بیان کیں جوکہ حسب ذیل ہیں: (1) زبان کا صدق (2) نیت میں صدق (3) ارادہ میں صدق (4) ارادہ کو پورا کرنے میں صدق(5)عمل میں صدق (6) دین کے تمام مقامات کی تحقیق میں صدق۔ ان  کی تفصیل حسب ذیل ہے:

زبان کا صدق :پہلی قسم زبان کا صدق ہے اور یہ خبردینے یا اُس کلام میں ہوتا ہے جو خبر دینے کو اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہو اور خبر کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہوتا ہے یا زمانہ مستقبل کے ساتھ اور اس میں وعدے کو پورا کرنا اور اس کی خلاف ورزی کرنا بھی داخل ہے۔ہر بندے پر ضروری ہے کہ اپنے الفاظ کی حفاظت کرے اور صرف سچی گفتگو کرے۔صدق کی  سب سے زیادہ مشہور اور ظاہر قسم یہی ہے۔

نیت میں صدق:صدق کی دوسری قسم کا تعلق نیت سے ہے اور اس کا مرجع اِخلاص ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کی حرکات و سکنات کا باعث صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے، اگر اس میں کسی نفسانی غَرَض کی آمیزش ہو جائے گی تو نیت میں صِدق باطل ہوجائے گا اور ایسے شخص کو جھوٹا کہا جا سکتا ہے۔حدیث مبارکہ میں ہے:جب ایک علم والے سے پوچھا جائے گا کہ تو نے اپنے علم کے مطابق کہاں تک عمل کیا ؟تو وہ کہے گا:میں نے فلاںعمل کیا۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا:تو جھوٹا ہے بلکہ تیری نیت یہ تھی کہ تجھے عالم کہا جائے(صحیح مسلم: 1905 )۔

ارادہ میں صدق:صدق کی تیسری قسم ارادہ میں صدق ہے کیونکہ انسان کبھی عمل کا ارادہ کرتے ہوئے اپنے دل میں کہتا ہے کہ ’’اگر اللہ تعالیٰ مجھے مال عطا کرے تو میں تمام یا آدھا مال صدقہ کر دوں گا‘‘۔یہ عزم کبھی بندہ اپنے دل میں پاتا ہے اور یہ پختہ اور صادق ہوتا ہے اور کبھی اس کے عزم میں ایک قسم کا میل، تردد اور ضعف ہوتا ہے جو صِدق فِی العَزم(عزم میں صدق)کے مخالف ہوتا ہے۔

 عزم(ارادہ ) کو پورا کرنے میں صدق: صدق کی چوتھی قسم عزم کو پورا کرنے میں صدق ہے۔ نفس بعض اوقات فوری ارادہ کر لیتا ہے اس لئے کہ وعدہ اور ارادہ کرنے میں کوئی مشقت نہیں ہوتی اور اس میں خرچ بھی کچھ نہیں ہوتا،لیکن جب وقت آتا ہے، قدرت حاصل ہوتی ہے اورشہوت بھڑکتی ہے تو عزم (ارادہ)کی گرہ کھل جاتی ہے، شہوت غالب آ جاتی ہے اور وہ عزم کو پورا نہیں کر سکتااور یہ بات صِدق (سچ) کی اس قسم کے خلاف ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: مومنوں میں سے (بہت سے) مَردوں نے وہ بات سچ کر دکھائی جس پر انہوں نے اللہ سے وعدہ کیا تھا‘‘(سورۃ الاحزاب:23)

عمل میں صدق:صدق کی پانچویں قسم اعمال میں صدق ہے۔ وہ یہ کہ بندہ اعمال میں کوشش کرے،یہاں تک کہ اس کے ظاہری اعمال اس کی کسی ایسی باطنی بات پر دلالت نہ کریں جو اس میں نہیں ہے۔مثلاًبہت سے لوگ نماز میں خشوع و خضوع کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں اور ان کا مقصد کسی کو دکھانا نہیں ہوتا لیکن ان کے دل نماز سے غافل ہوتے ہیں ،تو جو شخص انہیں دیکھے گایہی سمجھے گا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہیں حالانکہ باطنی طور پر وہ بازار میں کسی خواہش کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔تویہ اعمال زبانِ حال سے باطن کی خبر دیتے ہیں جس میں وہ جھوٹا ہوتا ہے اور اس سے اعمال میں صدق کی پوچھ گچھ کی جائے گی۔

تمام مقاماتِ دین کی تحقیق میں صدق: صدق کی چھٹی قسم سارے درجات صدق سے اعلیٰ اور نادر ہے اور اس کا تعلق مقامات دین سے ہے جیسے خوف، امید، تعظیم، رِضا، توکّْل، محبت اور تمام امور طریقت میں صدق،کیونکہ ان امور کے کچھ مبادی ہوتے ہیں کہ جن کے ظاہر ہونے سے یہ نام لئے جاتے ہیں، پھر ان کی غایتیں اورحقائق ہوتے ہیں حقیقی صادق وہی ہے جو ان کی حقیقت کو پالے اور جب کوئی شے غالب ہو اور اس کی حقیقت بھی کامل ہو تو اس کے ساتھ موصوف شخص کو صادق کہتے ہیں جیسے کہا جاتا ہے ’’فلاں لڑائی میں سچا ہے‘‘ اور کہتے ہیں ’’یہ خوف سچا ہے‘‘۔

سچائی کے ثمرات

سچ کی اہمیت انسانی زندگی میں بہت زیادہ ہے اور اس کا کردار اس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے جڑا ہوتا ہے۔ یہاں کچھ اہم فوائد و ثمرات کو بیان کیا جاتا ہے جو سچ کی اہمیت اور اس کے کردار کو واضح کرتے ہیں۔

اعتماد کابحال ہونا:سچ ہمیشہ دوفریقوں کے مابین اعتماد کے بنیادی عنصر کا کردار ادا کرتا ہے۔جب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ سچائی کا معاملہ رکھتے ہیں تو ان کے درمیان بھروسہ بڑھتا ہے اور مشکلات کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔

اخلاقی اور معاشرتی مقامات:سچائی کی اہمیت اخلاقی اور معاشرتی مقامات میں بہت زیاد ہے۔ اچھے معاشرہ میں معاشرتی اور اخلاقی قیمتوں کی بنیاد سچائی پر ہوتی ہے۔

موثر اور دائمی رشتے: جب لوگ اپنے درمیان سچائی کا خیال رکھتے ہیں تو دوستوں،خاندان اورسماج کے ساتھ رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔ 

مشکلات کا حل: جب لوگ اپنی زندگی میں سچائی پر عمل کرتے ہیں تو مشکلات کا بہترین حل نکلتا ہے۔ سچائی کی بنیاد پر ہی حقیقتوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور مشکلات کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔

مذکورہ بالا قرآنی آیات و واقعات، احادیث طیبات اورتصریحات ائمہ سے واضح ہواکہ سچ اس دنیامیں بھی نجات وبرکت عطاکرتاہے اورآخرت کی کامیابی کی ضمانت بھی سچ میں ہی ہے۔اللہ تعالیٰ جل جلالہ اپنے حبیب مکرمﷺکے صدقہ سے ہمیں سچ بولنے کی توفیق عطافرمائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

روشنی کا چراغ

چک روشن پور ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جو ہرے بھرے کھیتوں کے درمیان واقع تھا۔

شرارت سے توبہ

فخر اور علی دونوں گہرے دوست تھے اور وہ ایک ہی سکول میں پانچویں جماعت کے طالب علم تھے۔ دونوں کا گھر قریب ہونے کی بنا پر ایک ساتھ سکول جاتے اور گھر واپس آتے۔ نت نئی شرارتیں کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔

ذرامسکرائیے

اُستاد(شاگرد سے) ’’سکول اتنی دیر سے کیوں آئے ہو،تمہارے سب دوست تو وقت پر آتے ہیں‘‘۔ شاگرد: ’’جناب!میں سب کے ساتھ نہیں آتا کیونکہ شیر تو اکیلا ہی آتا ہے‘‘۔اُستاد: ’’چل میرا شیر پُتر اب جلدی سے مُرغا بن جا‘‘۔٭٭٭٭

یارب عظیم ہے تو

یارب عظیم ہے تو سب پر رحیم ہے تو تعریف تجھ کو زیباتوصیف میرا شیوہ

فتح ملنے پر ادائیگی شکر کی شرعی تعلیمات

چند دن پہلے وطن عزیز ایک نازک اور حساس دور سے گزرا۔ سرحدی کشیدگی، جنگی بیانات، ایئر اسپیس کی نقل و حرکت اور قوم کا اجتماعی اضطراب، یہ سب کچھ اس بات کی علامت تھا کہ حالات معمول کے دائرے سے باہر نکل چکے ہیں۔ پاکستانی عوام، افواج اور قیادت نے نہ صرف حوصلہ و حکمت سے ان لمحات کا سامنا کیا بلکہ بالآخر دشمن کے مقابل ایک واضح اخلاقی، عسکری اور سفارتی برتری حاصل کی۔

حب الوطنی:ایک دینی و اخلاقی فریضہ

’’تو (مکہ)کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے ! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا‘‘(جامع ترمذی) ’’جب نبی اکرمﷺ سفر سے واپس تشریف لاتے اور مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری کو تیز کر دیتے اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو اس کی محبت میں اُسے ایڑ لگاتے‘‘