سوء ادب:مقولہ شناس

ایک صاحب اپنے کسی دوست سے ملنے کیلئے گئے تو انہیں دیکھتے ہی دوست کا کتا زور سے بھونکا۔
جس پر وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئے تو دوست بولا، ’’ڈرنے کی ضرورت نہیں، کیا آپ نے وہ مقولہ نہیں سنا کہ بھونکتے ہوئے کتے کا ٹا نہیں کرتے ؟‘‘
’’میں نے تو سنا ہوا ہے لیکن ہو سکتا ہے آپ کے کتے نے نہ سنا ہو اور اگر سنا ہوا بھی ہوا تو اِس کی کیا ضمانت ہے کہ بھونکتا ہوا کتا بھونکنا بند کر کے کاٹنا شروع نہ کر دے‘‘
٭٭٭
چراغ سبز
یہ ڈاکٹر تحسین فراقی کا تیسرا مجموعۂ کلام ہے جسے دارلنوادر نے چھاپا ہے۔ پسِ سرورق تحریر پروفیسر خورشید رضوی کی ہے جن کے مطابق ڈاکٹر تحسین فراقی دنیائے علم و ادب کی اس معدوم ہوتی ہوئی نسل سے تعلق رکتھے ہیں جس کے ہاں شعر و ادب کا ذوقِ خدا داد اپنے نواحی علوم کے بھرپور رچاؤ کے ساتھ ظہور کرتا ہے۔ وہ بیک وقت عالم ، محقق ، مترجم ناقد زبان دان اور شاعر ہیں۔ ہم ان تمام جہتوں میں ان کے نتائجِ قلم سے مستفید ہوتے چلے آرہے ہیں۔ اردو کے علاوہ فارسی ادب کے کلاسیکی سرمائے پر بھی ان کی نظر قابلِ رشک ہے۔
’’چراغِ سبز‘‘ ڈاکٹر صاحب کا تازہ ترین شعری مجموعہ ہے جس میں غزل کے علاوہ نظمیں بھی اپنی گو نا گوں اشکال میں جلوہ فرما ہیں۔ بعض فارسی شہ پاروں کے منظوم تراجم اور آخر میں کچھ پنجابی کلام شامل ہیں جو صدقِ احساس اور حسنِ اظہار کا کامیاب نمونہ ہے۔ ڈاکٹر فراقی صاحب کی شاعری کے پس منظر میں وسیع مطالعہ اور برسوں کی ریاضت بولتی ہیں۔ ’’چراغِ سبز‘‘ کا خیر مقدم میرے لیے مسرت اور اعزاز کی بات ہے۔
دیباچے ارشد محمود نا شاد ، مبین مرزا اور انور مسعود نے لکھے ہیں۔ مبین مرزا کے مطابق اردو تنقید کا کثیر سرمایا اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ کسی شاعر یا اس کے کلام کی بابت دانش ورانہ رائے یا عالمانہ مہاکمح قلم بند کرنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے، بقول شخصے بائیں ہاتھ کا کھیل۔ ادھر یہ حال ہے کہ کئی روز یہ ارادہ باندھنے میں ہی نکل گئے کہ کچھ لکھنا ہے۔ یہ تو ہوئی اپنی تقصیر لیکن ساری دقت اسی پر موقوف نہیں۔ سوا مشکل تحسین فراقی کی شاعری پیدا کرتی ہے وہ یوں کہ ان کے حرفِ شعر کو مروّجہ رنگ سخن اور شعری چلن سے کچھ علاقہ نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ تحسین فراقی کی شاعری کو سمجھنا اور اس کے بارے میں کچھ لکھنا تو رہا ایک طرف ، اس طرح سہولت سے ہنستے کھیلتے ہوئے پڑھا تک نہیں جا سکتا جیسے آج کل با لخصوص مشاعرے کی شاعری سنی اور سنائی جاتی ہے۔ تحسین فراقی کا اسلوبِ سخن داد طلب اس امن پر ہے کہ ان کے یہاں انفرادی کیفیت اجتماعی احوال سے ہم آمیز ہو جاتی ہے۔ ’’ چراغِ سبز‘‘ ذخامت کے لحاظ سے بے شک ایک مختصر مجموعہ ہے لیکن اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی معنوی دبازت بعض ضخیم مجموعہ ہائے کلام سے زیادہ ہے اس لیے کہ یہ شاعری لطف کے ساتھ فکرو شعور کے لیے مہمیز کا سامان بھی رکھتی ہے
اور اب آخر میں اسی مجموعہ میں سے غزل کے یہ اشعار
غزل
سینہ افروزی ہے اور خارا شگافی ہے میاں
سخن و صوت و صدا کارِ تلافی ہے میاں
ہفت اقلیم کی خواہش مجھے توبہ توبہ
فقط اک سلطنتِ لفظ ہی کافی ہے میاں
شعر کے رمز و ہنر کا میاں کیا پوچھتے ہو
کھیل لفظوں کا ہے اور کارِ قوافی ہے میاں
عمر جتنی بھی بڑھی کم بھی ہوئی اتنی ہی
جمع و تفریق کا سب کھیل اضافی ہے میاں
حرف معزول ہوئے ، بابِ دعا بند ہوا
اب معافی ہے یہاں اور نہ تلافی ہے میاں
اصل سرمایہ تو غارت ہوئے مدت گزری
اب جو مہلت ملی ہے صرف اضافی ہے میاں
آج کا مطلع
دیکھتے دیکھتے ہو جاتا ہوں قائم بھی ، ظفر
کسی اندر ہی کی آندھی سے اْکھاڑا ہوا میں