جہاد:حکم شرعی و اسلام کا دفاعی نظام بھی

جہاد،حکم شرعی کے ساتھ ساتھ اسلام کادفاعی نظام بھی ہے،اہل اسلام کیلئے جہاد کا اعلان خلیفہ، سلطان یا حاکمِ وقت کا اختیار ہے۔ جہاد کا بنیادی مقصدفتنہ وفساد کوختم کرناہے،دورانِ جہاد عورتوں، بوڑھوں، بچوں اورعبادت کرنے والوں کوقتل نہیں کیا جائے گا اورنہ ہی درختوں،جانوروں،پھلوں اور پھولوں کو نقصان پہنچایاجائے گا۔جہادِشرعی کیلئے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول محتشمﷺ نے حدودوقیودمقررفرمائی ہیں۔
جہاد کی تعریف
علامہ کاسانی رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:اللہ تعالیٰ کی رضاکیلئے قتال کرنے میں اپنی جان ، مال اور زبان اور دوسری چیزوں سے بھر پور کوشش کرنے کو جہاد کہتے ہیں۔(البدائع الصنائع، ج7، ص97)۔ علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:جہاد کے معنی کافروں کو دین حق کی طرف دعوت دینا اور ان سے قتال کرناہے اگر وہ دین حق کو قبول نہ کریں۔ (فتح القدیر، ج5، ص 435)، یعنی اللہ تعالیٰ کے دشمنوں اوراس کے دین کی سربلندی کیلئے کفار سے جنگ کرنے میں اپنی پوری وسعت اور طاقت کو خرچ کرناجہادکہلاتاہے۔
جہادکی اقسام:
جہاد کی دو اقسام فرض کفایہ اورفرض عین ہیں۔
فرض کفایہ:دین اسلام کی تبلیغ کیلئے کافروں کو اسلام کی دعوت دینا اور اگر وہ اسلام کو قبول نہ کریں تو پھر ان کو جزیہ(ٹیکس) ادا کرنے کیلئے کہنا اور اگر وہ اس کو بھی قبول نہ کریں تو پھر ان سے جہاد کرنا فرض کفایہ ہے۔
فرض عین: اگر کسی اسلامی شہر،ملک پر کافر حملہ کریں تو اس شہر کے مسلمان پر اپنے شہر کے دفاع کیلئے جہاد کرنا فرض عین ہے۔ اگر اس شہر کے مسلمان اپنا دفاع نہ کرسکیں تو اس کے قریب کے شہر والوں پر جہاد کرنا فرض عین ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر ایک اسلامی ملک اپنے ملکی سلامتی کے دفاع کی طاقت نہ رکھتاہو تو اس کے قریبی ملک پر جہاد کرنا فرض عین ہوگا۔
علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں: علماء کااس پراجماع ہے کہ تین حالتوں میں جہادفرض عین ہے:
(1)امام المسلمین اورسربراہ مملکت کسی شخص یا کسی جماعت کوجہاداورقتال کیلئے طلب کرے، تو ان لوگوں کیلئے جہادکیلئے نکلنافرض عین ہے۔اس پردلیل اللہ تعالیٰ کایہ ارشادگرامی ہے: ’’ اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں (جہاد کیلئے) نکلو، تو تم بوجھل ہو کر زمین (کی مادی و سفلی دنیا) کی طرف جھک جاتے ہو، کیا تم آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی سے راضی ہو گئے ہو؟ سو آخرت (کے مقابلہ) میں دنیوی زندگی کا ساز و سامان کچھ بھی نہیں مگر بہت ہی کم (حیثیت رکھتا ہے)۔ اگر تم (جہاد کیلئے) نہ نکلو گے تو وہ تمہیں دردناک عذاب میں مبتلا فرمائے گا اور تمہاری جگہ (کسی) اور قوم کو لے آئے گا اور تم اسے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکو گے، اور اللہ ہر چیز پر بڑی قدرت رکھتا ہے (سورۃ التوبہ: 38،39)۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے امام المسلمین کے طلب کرنے کے بعد جہادکیلئے نکلنے میں سستی کرنے والوں کی مذمت کی ہے اورجہاد کیلئے نہ نکلنے والوں کوعذاب کی وعیدسنائی ہے۔
امام المسلمین کے طلب کرنے پرجہادکے فرض عین ہونے پریہ حدیث مبارکہ رہنمائی کرتی ہے: حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فتح مکہ کے دن فرمایا:اب (مکہ سے مدینہ کی طرف)ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اورنیت ہے اورجب تم کوجہادکیلئے طلب کیا جائے تو تم جہاد کیلئے نکلو (صحیح بخاری:2825)۔
(2)جہادکے فرض عین ہونے کی دوسری صورت یہ ہے کہ دشمن مسلمانوں کے کسی شہرپرحملہ کرکے اس میں داخل ہوجائے یاان کی مملکت کے کسی حصہ پرقبضہ کرلے تواس وقت دشمن سے قتال کرنافرض عین ہے اوراس کی فرضیت اجماع سے ثابت ہے۔
(3)جہادکے فرض عین ہونے کی تیسری صورت یہ ہے کہ جب دشمن سے صف بہ صف مقابلہ ہو رہا ہو تو اس وقت دشمن سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا حرام ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! جب تم (میدانِ جنگ میں) کافروں سے مقابلہ کرو (خواہ وہ) لشکرِ گراں ہو، پھر بھی انہیں پیٹھ مت دکھانا‘‘(سورۃ الانفال: 15)
علامہ کا سانی لکھتے ہیں : اگر جہاد کیلئے روانہ ہونے کا مسلمانوں کو عام حکم دیا جائے تو جہاد فرض عین ہے۔ اگر عام حکم نہ ہو تو جہاد فرض کفایہ ہے اور بعض مسلمانوں کے جہاد کرنے سے باقی مسلمانوں سے جہاد کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ (بدائع الصنائع)
جہادکی تلقین اورحکم خداوندی
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کی سخت تلقین فرمائی ہے۔ کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کرنے کیلئے فرمایا: ’’اے نبی (مکرّم!) آپ کافروں اور منافقوں سے جہاد کیجئے اور اْن پر سختی فرمائیے، اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے‘‘(سورۃ التحریم:9)
اہل کتاب کیخلاف جہاد کیلئے فرمایا: ’’(اے مسلمانو) تم اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ (بھی) جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، نہ یومِ آخرت پر، اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) نے حرام قرار دیا ہے، اور نہ ہی دین حق (یعنی اسلام) اختیار کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (حکمِ اسلام کے سامنے) تابع و مغلوب ہو کر اپنے ہاتھ سے خراج ادا کریں‘‘ (سورۃ التوبہ:29)۔
نبی کریم ﷺ سے فرمایا:پس (اے محبوب!) آپ اللہ کی راہ میں جہاد کیجئے، آپ کو اپنی جان کے سوا (کسی اور کیلئے) ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا، آپ مسلمانوں کو (جہاد کیلئے) ابھاریں، عجب نہیں کہ اللہ کافروں کا جنگی زور توڑ دے، اللہ گرفت میں (بھی) بہت سخت ہے اور سزا دینے میں (بھی) بہت سخت ہے(سورۃ النساء: 84)۔
جہادکب اورکس صورت میں فرض ہوا
جہادفرض ہے اس کے متعلق قرآن کریم میں حکم الہٰی کاذکراس انداز سے ملتاہے : ’’(اللہ کی راہ میں) قتال تم پر فرض کر دیا گیا ہے حالانکہ وہ تمہیں طبعاً ناگوار ہے،اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لئے بہتر ہو،اور (یہ بھی) ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لئے بری ہو،اور اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘(البقرہ:216)
علامہ غلام رسول سعیدی اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کو مکہ میں توحید کا حکم دیا اور نماز پڑھنے کا ،زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا اور مشرکین کے ساتھ جنگ کرنے سے منع کیا، اور جب آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو باقی فرائض نازل ہوئے اور مسلمانوں کو کفار سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی،تب یہ آیت نازل ہوئی کہ تم پر قتال (جہاد) فرض کردیا گیا ہے۔ قتال سے ممانعت کے بعد تم کو قتال کی اجازت دے دی گئی ہے اور اگرچہ یہ طبعاً تم پر گراں اور بھاری ہے لیکن انجام کار تمہارے لیے خیر ہے،کیونکہ کافروں کو مغلوب کر کے تم ایک اسلامی ریاست قائم کر سکو گے اور آزادی کے ساتھ باعزت طریقہ سے زندگی گزار سکو گے ، اسلام کے تمام احکام پر بے خوف وخطر عمل کرسکو گے ،اور جنگ کے ذریعہ تم کو دشمنوں کا جو مال غنیمت حاصل ہوگا اس سے تم پر خوش حالی آئے گی اور اگر تم راہ حق میں شہید ہوگئے تو تمہارے لیے بے پناہ اجر ہے، اور اگر تم کافروں سے جہاد نہیں کرو گے تو وقتی طور پر تمہیں آرام ملے گا لیکن مآل کار تمہارے ملک پر کافر قبضہ کرکے تمہیں آزادی سے محروم کردیں گے۔ تمہیں اپنا غلام بنالیں گے اور پھر تم کو ذلت اور خواری کی زندگی گزارنی ہو گی۔ (تبیان القرآن، ج1، ص761)
جہادفی سبیل اللہ
جہاد فی سبیل اللہ کا مطلب ہے: اللہ تعالیٰ کے راستے میں مسلح جنگ۔یعنی اس جنگ میں شریک انسان کو صرف اور صرف اپنے رب کی رضا جوئی مقصود ہوتی ہے، اور یہ ان شرائط کے مطابق لڑی جاتی ہے جو ہم پر دین کی طرف سے لازم کی گئی ہیں۔حضرت معاذبن جبلؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺنے فرمایا: ’’لڑائیاں دوقسم کی ہیں: جس نے خالص اللہ کی رضاکے حصول کیلئے لڑائی کی،اس میں اپنے حکمران کی اطاعت کی،اپنا بہترین مال خرچ کیا،اپنے ساتھیوں کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کیا اور فساد سے اجتناب کیا، تو اس کا سونا جاگنا سب باعثِ اجر ہوگا۔اس کے برعکس جس نے دنیا کو دکھانے اور شہرت وناموری کیلئے تلوار اٹھائی،اپنے حکمران کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد پھیلایا تو وہ ذرہ بھر بھی نہ چھو ٹے گا‘‘ (سنن نسائی: 3188)
اللہ تعالیٰ کے راستے میں جنگ کرنے کا یہ ہرگزمطلب نہیں ہے کہ لوگوں کو بزوربازو مسلمان کیا جائے یا حکومتوں کو ختم کرکے غیر مسلموں پر مسلمانوں کی حکومت قائم کی جائے۔اس لیے قرآن مجید نے انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں میں ہر انسان کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی زندگی گزار ے، بشرطیکہ وہ دنگافساداورخونریزی کا مرتکب نہ ہو،یعنی اس کے اقدامات سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔قرآن مجید نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ دنیا کی تمام اقوام کے ساتھ ہر معاملے میں عادلانہ رویہ اختیارکریں۔ قرآن مجیدمیں ہے: ’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کیلئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے‘‘(سورۃ البقرہ:256)
عادلانہ رویہ اپنانے کاحکم
قرآن مجیدمیں ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ کیلئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ، اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اللہ سے ڈرا کرو، بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے(المائدہ:8)
جنگ کی درجِ ذیل صورتوں کو قرآن مجید نے جہاد فی سبیل اللہ قرار دیا ہے:
دفاعی جنگ
جب ایک مسلمان ریاست پرغیرمسلم حملہ آورہوتو اسے اپنی مدافعت کا حق حاصل ہے۔ اس اجازت میں اللہ تعالیٰ نے کھلے عام اجازت نہیں دی بلکہ حدود و قیودلاگوکیں، تاکہ ان کی طرف سے دوسرے پرزیادتی نہ ہو۔قرآن مجیدمیں ہے: ’’اور اللہ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘(البقرہ:190)۔
اپنے دفاع کاحق دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے، اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اللہ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے۔(یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے، صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور اگر اللہ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جد و جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا، تو خانقاہیں،گرجے،کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں، جن میں کثرت سے اللہ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اللہ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقیناً اللہ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بیشک اللہ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے (گویا حق اور باطل کے تضاد و تصادم کے انقلابی عمل سے ہی حق کی بقا ممکن ہے)‘‘(الحج:39،40)۔